Home تجزیہ کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!-یاور رحمن

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!-یاور رحمن

by قندیل

تعلیم کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ مشرق کے اس عظیم خطے میں وہ بیچاری ‘تثلیث کے فرزند’ اور ‘توحید کے ارجمند’ میں دو لخت ہو گئی ۔ اگر اسلام ایک مکمل نظام حیات کے بجاۓ دیگر مذاہب کی طرح محض ایک ‘خیال’ ہوتا تو تعلیم کی تفریق کا یہ بنیادی مسئلہ پیش ہی نہ آتا۔ نہ مسلمانوں کو کسی علاحدہ نظام تعلیم کی ضرورت ہوتی، نہ یہ روایتی مدارس ہوتے اور نہ تعلیم دین و دنیا کے نام پر دو حصوں میں تقسیم ہوتی۔ یہ مسئلہ پیدا ہی اس لئے ہوا کہ مسلمانوں کے لئے اس الہامی تعلیم سے کنارہ کش ہو جانا ممکن نہیں تھا جو خدا اور انسان اور کائنات کی ابتدا و انتہا سے متعلق تمام تر سوالوں کا ٹھوس اور مدلل جواب رکھتی تھی اور جس کے بغیر یہ دنیا ایک تاریک اور ویران جزیرے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتی۔

مسلمانوں کے ساتھ علم کی اس تقسیم کا یہ سانحہ اس لئے پیش آیا کہ اٹھارویں صدی تک پہنچتے پہنچتے خود مسلمان "اِقْرَأ ” کے اعلان سے شروع ہونے والے اس ‘ربانی نصاب تعلیم’ سے دور ہو چکے تھے جو خالق کائنات کا وضع کیا ہوا تھا۔ جس نے دنیا کو بے مثال اور عہد ساز خلفا، سلاطین و حکمراں، ریاضی داں، جغرافیہ داں، کیمیا داں، تاریخ داں اور ماہرین طبیعیات و فلکیات دئیے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ‘فرنگی تعلیم’ سے وحشت زدہ ہونے والے توحید کے علمبردار خود ہی اس سچائی سے نابلد تھے کہ تہذیب، تمدن، فلسفہ اور سائنس کے حوالے سے مغرب کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ خود ان ہی کے اپنے اجداد کی ‘اکتشافی تجوری’ کا چرایا ہوا خزانہ ہے۔ وہ مسلمانوں کا دور عروج تھا جسے یورپ ایک چرواہے کی طرح صدیوں تک اپنے مچان پہ بیٹھا مبہوت ہوکر دیکھتا رہا تھا۔ جب عرب سائنسی علوم کے دوش پر محو پرواز تھے، پورا عالم عیسائیت توہمات، بد عقلی اور جہالت کی دھند میں دھنسا ہوا تھا۔ یہ وہی اٹھارویں صدی تھی جب پہلی بار اکتشافی علوم کے ماہرین کے لئے مغرب کے عیاروں نے "سائنٹسٹ” کی اصطلاح وضع کی تھی۔ گویا دنیا سے یہ تاریخی جھوٹ بولا گیا تھا کہ سائنسی علوم نے مسلمان مملکتوں کی شفیق گودوں میں پرورش پانے کے بجاۓ مغرب کی بنجر گلیوں میں آنکھ کھولی ہے۔ افسوس کہ ان علماے اسلام نے بھی اس جھوٹ کو گویا بسر و چشم تسلیم کر تے ہوئے انفس و آفاق کو سنوارنے والے اس الہامی علم کو بس ایک ‘مذہبی بیانیہ’ بنا ڈالا۔ اور علوم قرآنی کو محض ایمانیات و عقائد کی تعلیمات تک محدود کرکے اللہ کے پسندیدہ دین کو مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں کی چاردیواری میں قید کر دیا۔

مغربی سیاست داں اور "ماہر تعلیم” لارڈ میکالےکو یقینی طور پر اسکا ادراک رہا ہوگا۔ اسی لئے اس نے 1836 میں برٹش پارلیمنٹ میں ایک بحث کے دوران ہندوستانیوں کے لئے اپنا تصور تعلیم کچھ یوں بیان کیا۔
اس نے کہا تھا، "فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں (ہندو ستانیوں) کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو؛ لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو“۔
یہ وہی میکالے ہے جس نے تعلیم میں سرمایہ کاری کا تصور دیا اور اسی نے رائج الوقت عربک اور ویدک طریقۂ تعلیم پر وظائف اور گرا نٹس کے دروازے بند کئے۔ اس کے نظام تعلیم نے جب سب سے زیادہ اسلامی ‘تہذیب و عقائد’ پر تیشہ چلانا شروع کیا تو روایت پسند علما میکالے کے اس آئیڈیا آف ایجوکیشن کا مقابلہ کرنے کے لئے "درس نظامی” کا وہ نصاب لے کر اٹھے جسے ملا نظام الدین سہالوی نے بہت پہلے مرتب کیا تھا۔ اسی نصاب کو بقدر ضرورت مسلک و منہج ترمیم و اضافہ کر کے ایک نئی ‘ تہذیبی جنگ’ کا گویا آغاز کیا گیا۔
یہ اسی غیر حکیمانہ اور غیر متوازی ‘جنگ’ کا شاخسانہ ہے کہ سائنسی ترقیات میں چاند سے بھی آگے گذر چکے آج کے انتہائی ماڈرن دور میں بھی برصغیر کے مسلمان مدارس کے نظام تعلیم پر جھگڑ رہے ہیں۔ کوئی ان مدارس کو دین کا قلعہ کہتا ہے تو کوئی یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ ان "قلعوں” نے آخر دین کو کون سا ‘تحفظ’ فراہم کر دیا ہے ؟ اس بحث کو ایک منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اسباب و وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسکا حل ڈھونڈھا جاۓ۔

اہل کلیسا کا یہ نظام تعلیم اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود ‘آزاد شدہ غلاموں’ کو بھاتا چلا گیا۔ کیونکہ یہ نیا نظام تعلیم انھیں ‘نان شبینہ’ کی گارنٹی دیتا تھا۔ پھر یہ کہ اس نظام تعلیم کی ‘عقلیت پرستی’ اور ‘ریشنلزم’ نے ان مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا جو اسلام کے نام پر ‘کراماتی کہانیاں’ سن سن کر اچھے خاصے اسلام بیزار ہو چکے تھے۔ پھر جو نظام تعلیم اس انگریزی نظام تعلیم کے مقابلے میں کھڑا ہوا تھا وہ اسکی کمزوریوں کو چشم پیشانی سے دیکھ بھی رہے تھے۔ وہ یہ بھی محسوس کر رہے تھے کہ اپنی تہذیب، اپنے ایمان اور اپنے عقیدے کے دفاع میں ‘دینی تعلیم’ کی دعویداری کے ساتھ اٹھنے والوں نے ایک ایسا کمزور تعلیمی نظام وضع کیا ہے جو نہ "لقاۓ رب” کی سپرٹ ہی پیدا کر پارہا تھا اور نہ ہی "وصال صنم” کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔ نہ اس میں اتنی سکت تھی کہ وہ وقت اور حالات کے تحت اٹھنے والے ان سوالوں کو ایڈریس کر سکے جو انسانی تہذیب و تمدن پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس مروجہ نصاب تعلیم کے سائے میں جوان ہونے والی نسلوں میں وہ علمی و فکری صلاحیتیں پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھیں جو مغرب کے مناظرہ بازوں کی دکانیں بند کر سکیں۔

دنیا میں تعلیم کا وہی نصاب کامیاب کہا جا سکتا ہے جس کی افادیت اظہر من الشمس ہو، جو زمین کے مسائل کو سمجھنے، برتنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیتوں سے اپنے طلبا کو آراستہ کرتا ہو، جو انسان کو خدا کا مطیع و فرمانبردار اور خلق خدا کا ہمدرد بناتا ہو، جو انسان کے اندر نہ صرف وقت اور حالات کے مطابق بہترین فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہو بلکہ اسے غلط نظریات اور افکار کا مدلل، محقق اور مسکت جواب دینے کی صلاحیتوں سے مسلح کرتا ہو، جو طرز کہن پہ اڑنے اور آئین نو سے ڈرنے کے بجاۓ اک نیا آئین مرتب کر دینے پر قدرت رکھتے ہوں۔ اگر یہ نصاب وَحیِ الہی کے ‘مکمل پیکج’ کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہوتا تو آج اس بحث کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اور یہ تعلیم نہ دنیا سے بے رغبتی کے سبق سکھاتی، نہ اسے چندوں کی بیساکھی پر چلنا پڑتا، نہ اسکے طلبا اور زیر دست مدرسین کو "بوریہ نشینی” کے مواعظ سننے پڑتے اور نہ عام لوگوں کو اس سے ‘گریز’ ہوتا۔ کیوں کہ تب یہ تعلیم صرف آخرت کی کامیابی کی بشارتیں سنانے کے بجاۓ اس دنیا میں بھی روشن اور خوشحال مستقبل کی گارنٹی دے رہی ہوتی اور اسکے طالبین علم مسجد کی امامت سے لیکر ریاست کی حکمرانی تک کی صلاحیتوں سے مزین ہوتے۔

تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اول وہ تعلیم جو اسے اس مقصد زندگی سے آگاہ کرے جس کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے۔ دوسرے وہ تعلیم جو اسے ضروریات زندگی کے حصول کے لئے ایک مناسب روزگار کے لائق بنا سکے۔ ان دونوں کے درمیان میں تقویٰ اور فجور کا وہ علم بھی ہے جو پہلے ہی اسے الہام کر دیا گیا ہے۔ معروف اور منکر کا یہ علم سوچنے، سمجھنے اور تجربے و مشاہدے سے انسان کو تمام عمر حاصل ہوتا رہتا ہے۔ لہذا جن علوم میں اکتساب کی باضابطہ حاجت ہوتی ہے، ان ہی کے لئے نصاب کو انتہائی حکمت و تدبر کے ساتھ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کار عظیم قوانین فطرت سے ناواقف علما اور دانشور ہرگز نہیں کر سکتے۔ کاش اگر ایسا کوئی نصاب تعلیم تیار ہو جاۓ تو نہ صرف یہ کہ علم کی یہ تباہ کن تفریق ختم ہو جاۓ گی بلکہ دنیا بھی وَحیِ اِلٰہی کی زرخیز وادیوں میں سینچے گئے علوم سے فیضیاب ہونا شروع کر دیگی۔ تب آپ کے اسکولوں اور مدرسوں کو دشمن بھی احتیاط و احترام بھری نگاہ سے دیکھیں گے۔
اہل مدارس کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ان کے مروجہ نصاب تعلیم میں وہ کون سے مضامین ہیں جن پر وقت، صلاحیت اور وسائل کا خرچ ایک سَعیٔ رائیگاں ہے؟ اور وہ کون سے ضروری مضامین ہیں جن کے نصاب میں نہ ہونے سے یہ مسائل جنم لے رہے ہیں؟ یہ بات بالکل بجا ہے کہ ابتدائی تعلیم میں ان مضامین کا داخل کرنا بیحد ضروری ہے جو روزگار سے جڑے کورسز میں نہ صرف داخلے کے لئے ضروری ہیں بلکہ مستقبل میں علوم و فنون کے دیگر میدانوں میں ریسرچ اور تحقیق کے لئے بھی ان کی بنیادوں سے واقفیت انتہائی لازمی ہے۔

تعلیم کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ فراغت کے بعد آپ کو کون سی نوکری ملتی ہے یا آپ کون سا کاروبار کر لینے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں۔ علم کا حصول ‘معاش’ کے لئے نہیں بلکہ ایک بہترین ‘معاشرے’ کی تشکیل کے لئے ہونا چاہئے۔ معاش تو ہماری محنتوں، کاوشوں اور ہنر مندیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک آخری بات، مکتب سے لیکر یونی ورسٹی تک ہم صرف پڑھنا اور لکھنا سیکھتے ہیں۔ اسکے بعد ایک پورا جہان ہے جو ایک کھلی کتاب کی طرح ہر پل ہمیں دعوت مطالعہ دیتا رہتا ہے۔ جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہا وہ اپنے ذوق کے مطابق دنیا کو بہت کچھ دیتے رہے ہیں۔ خود مسلمانوں میں ایسے اہل علم و فکر کل بھی موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں جنہوں نے بچپن سے لیکر جوانی تک تعلیم تو کسی عصری ادارے میں حاصل کی مگر دینی علوم اور اسلامی لٹریچر کے مطالعے نے انھیں بڑے بڑے علماے مدارس سے ممتاز کر دیا۔ اور ایسے علماے مدارس بھی ہیں جو مدرسے کی چاردیواری سے نکلنے کے بعد عصری علوم کا مطالعہ کر کے دنیا کو فیضیاب کر رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ اول الذکر کے مقابلے میں انکی تعداد بہت ہی کم ہے۔ لہذا اصل ضرورت اس کام کی ہے کہ کالج کے طلبا ہوں یا عربی مدارس کے، انکے اندر علم کی پیاس، مطالعہ کا جنون ، تحقیق کی تڑپ، جستجو کی دیوانگی اور دعوت حق کا داعیہ پیدا کیا جاۓ۔ اگر ایسا ہو جاۓ تو نصاب کا سارا حساب و کتاب ٹھیک ہو جاۓگا۔ وگرنہ ۔۔۔

اہلِ دانش عام ہیں، کم یاب ہیں اہلِ نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!
شیخِ مکتب کے طریقوں سے کشادِ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!

You may also like

Leave a Comment