Home نقدوتبصرہ کیا شخص زمانے سے اٹھا سوانح نگاری کے باب میں ایک مفید اضافہ – مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

کیا شخص زمانے سے اٹھا سوانح نگاری کے باب میں ایک مفید اضافہ – مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

by قندیل

ابھی ہمارے مطالعہ کی میز پر محب گرامی جناب مولانا بدرالاسلام قاسمی کی طرف سے ارسال کردہ کتابوں کا ایک سیٹ موجود ہے، اس میں سے پہلی کتاب ہے "کیا شخص زمانے سے اٹھا.
اس کتاب میں شیخ الادب حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ سابق استاذ حدیث و ادب دارالعلوم دیوبند وقف کی جدوجہد اور عزم و حوصلہ سے لبریز زندگی، آپ کی تدریسی، ادبی وصحافتی خدمات اور خانگی و ذاتی احوال کا جس خوبصورتی کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے اس کے لیے اس کتاب کے مؤلف، فاضل گرامی مولانا بدرالاسلام قاسمی صاحب استاد جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں .
میں اس عظیم پیشکش پر ان کی خدمت میں مبارکبادی کے سوغات پیش کرتا ہوں. یقینا مولانا اسلام قاسمی اپنی خدمات خاص طور پر اپنی علمیت و ادبیت، صحافت وانشاء پردازی اور تدریسِ حدیث وادب میں ایک امتیازی صفت کے مالک تھے اور اکابر کی نگرانی خاص طور پر حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آپ کو دعائیں بھی ملیں، شفقتیں بھی ملیں اور ان کی نگرانی میں آپ نے صحافتی خدمات اور تدریسی خدمات بھی انجام دیں. آپ کی یہ خدمات دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے. لیکن مولانا اسلام قاسمی کی زندگی کا یہ روشن باب تحریری شکل میں منصہ شہود پہ جلوہ گر نہیں ہوتا؛ اگر آپ کے صاحبزادے اس امانت کو خوبصورت انداز میں علمی دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے اور رفتہ رفتہ آپ کے ذکر کی تابانی کم سے کم تر ہوجاتی َجیسا کہ دیگر شخصیات کے ساتھ ہوتا رہا ہے کہ ان کی خدمات پہ مرور زمانے کے ساتھ گرد و غبار کی دبیز تہہ جم جاتی ہے اور شاگردوں کے اٹھنے کے ساتھ لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں رہتا کہ اس نام کی کوئی عظیم شخصیت گزری تھی.
جانشین اگر لائق و فائق ہو تو نہ صرف یہ کہ اپنے مورث کے؛ اپنے اساتذہ ومشائخ کے نام کو روشن کرتا ہے بلکہ اپنے نام کو بھی اکابر کے نام کے ساتھ زندہ جاوید بنا دیتا ہے. جس طرح امام محمد نے امام اعظم ابو حنیفہ کے ابن القیم نے علامہ ابن تیمیہ کے، علامہ سخاوی نے ابن حجر عسقلانی کے اور اخیر کے زمانے میں علامہ یوسف بنوری نے اورعلامہ بدر عالم میرٹھی نے علامہ انور شاہ کشمیری کے علوم ومعارف کو اس بھر پور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا کہ استاذ کے ساتھ شاگرد کا نام بھی تاریخ کی صفات میں روشن اور لازوال ہوگیا.
ایسے ہی کچھ جلوہ گری ہمیں مولانا بدرالاسلام قاسمی میں بھی نظر آر ہی ہے کہ وفات کے فورا بعد وہ اپنے استاذ اور والد کی سوانح کی ترتیب میں لگ گئے. اتنا ہی نہیں بلکہ والد گرامی کی جو کتابیں طبع نہیں ہوئی تھیں؛ سوانح کے ساتھ ان کتابوں کی بھی اشاعت کا انہوں نے اہتمام کیا
یقیناً وہ "پدر نہ کرد پسر تمام کرد” کے مصداق ہیں کہ والد کے چھوڑے ہوئے کام کی تکمیل کی سعادت مندانہ سعی ان کے حصہ میں آئی .
مولانا بدرالاسلام قاسمی کی طرف سے ارسال کردہ کتابوں مکمل سیٹ میں” کیا شخص زمانے سے اٹھا” کے علاوہ” نگارشات اسلام” _ تصنیف مولانا مفتی اسلام قاسمی _”دارالعلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفر نامہ”_ تالیف مفتی محمد اسلام قاسمی_” شیخ الادب مولانا اسلام قاسمی کے زندگی کے کچھ پہلو”_ ترتیب مولانا بدرالاسلام قاسمی _”مقالات حکیم الاسلام” ترتیب مولانا مفتی اسلام قاسمی_” چند مقتدر شخصیات” رشحات قلم مولانا اسلام قاسمی، شامل ہیں.
ان تمام کتابوں کی بھی انہوں نے خوبصورت گیٹ اپ جاذب نظر ٹائٹل کے ساتھ اشاعت کا اہتمام کیا اور نہ صرف اہتمام بلکہ اشاعت کے بعد قارئین اور اہل علم تک پہنچانے کی انہوں نے بھرپور کوششیں بھی کیں. نہایت آب و تاب کے ساتھ اس کی رسم اجراء کی تقریب بھی منعقد ہوئی؛ جس میں ملک کے ممتاز اہل علم کی شرکت نے اس تقریب کو چار چاند لگا دیا.
یوں تو کتابوں کے اس سیٹ میں تمام ہی کتابیں اہم ہیں؛ لیکن خاص طور پر "کیا شخص زمانے سے اٹھا” نامی کتاب سوانحی ادب کی بہترین مثال ہے.
کتاب کے مؤلف جناب مولانا بدرالاسلام قاسمی جنہیں ہم بجا طور پر اپنے والد کا لائق جانشین کہہ سکتے ہیں انہوں نے اپنے والد گرامی کی میراث کی حفاظت کے سلسلہ میں جس حوصلہ مندی کا ثبوت دیا ہے یقینا وہ مثال ہے.
” کیا شخص زمانے سے اٹھا” یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے جلد اول میں آپ کے سوانحی خاکے ہیں اس میں کئی ابواب ہیں جن میں سوانحی نقوش مثلاً آپ کی ابتدائی پرورش، تعلیمی اسفار، مدارس میں تعلیمی مراحل اور جامعہ مظاہر علوم اور دارالعلوم دیوبند میں تحصیل علم، دیگر اکابر سے خصوصی استفادہ، شعبہ خطاطی کے اساتذہ سے استفادہ، وغیرہ کا تذکرہ ہے. اس کے علاوہ جب دارالعلوم کی تقسیم کا قضیہ نامرضیہ پیش آیا تو پھر آپ نے اپنے لیے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے کارواں کو منتخب کیا اور تا حیات قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خلف الرشید حضرت مولانا محمد سالم صاحب حضرت مولانا محمد اسلم صاحب اور خانوادۂ کشمیری کے چشم و چراغ رئیس المحدثین علامہ انظر شاہ کشمیری اور حضرت مولانا احمد خضر شاہ کشمیری کے رفیق کارواں رہے اور ان کے قائم کیے ہوئے مشن کے فروغ کو اپنا نصب العین بنا لیا. اس کے علاوہ اس جلد میں دارالعلوم وقف دیوبند میں آپ کی خدمات کا بھرپور تذکرہ بھی ہے اور بخارا وسمرقند کے سفر کی روداد بھی ہے؛ اہم تلامذہ اور ملی تنظیموں مثلا امارت شرعیہ پٹنہ، مسلم پرسنل لا بورڈ، اسلامک فقہ اکیڈمی سے وابستگی کا بھی تذکرہ ہے.
آپ کی گھریلو زندگی کیسی تھی؟ بیماری کے پانچ سال کس صبر وثبات کے ساتھ گزارے. اس کے احوال بھی درج ہیں.
تصنیفات و تراجم کا بھی تذکرہ ہے؛ نثر کے نمونے بھی دیے گئے ہیں. آپ کی سرپرستی میں جو ادارے قائم ہیں؛ ان کی تفصیل بھی دی گئی ہے اور آپ کے اوصاف حمیدہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے. جس میں خاص طور پہ آپ کی وسیع المشربی، کشادہ چشمی، مسلکی تصلب کے باوجود عوام میں مسلکی گفتگو سے احتراز، غم خواری، کشادہ دستی اور تعاون و ایثار، اختلاف میں آداب کو ملحوظ رکھنا، بلند حوصلگی، خرد نوازی، حوصلہ افزائی، بے تکلفی جیسی صفات کو خاص طور پہ اہمیت دی گئی ہے اور اخیر میں کچھ یادگار دستاویزات کو ذکر کیا گیا ہے.
جبکہ جلد دوم مقالات کا مجموعہ ہے، یہ وہ مقالات ہیں جو حضرت کی وفات کے فورا بعد اکابر اہل علم کی طرف سے لکھے گئے تھے. انہیں خوبصورتی کے ساتھ مرتب انداز میں جمع کیا گیا ہے. دوسری جلد کی خوبی پہلی جلد سے بالکل الگ ہے. دوسری جلد میں آپ کو رنگا رنگ قلم اور زبان و ادب کے رنگا رنگ شہپارے ملیں گے. ہر شخصیت کے اپنے تاثرات ہیں اور اپنا رنگ وترنگ ہے. ان تاثرات کو پڑھ کر زندگی کے نقوش روشن ہوں گے. بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اس دوسری جلد میں باب اول احباب و معاصرین سے متعلق تحریروں پر مشتمل ہے. باب دوم تلامذہ کی تحریریں ہیں. تیسرے باب میں محبین و متعلقین کی تحریریں ہیں اور آخری باب میں منظوم خراج عقیدت کو جگہ دی گئی ہے. کل ملا کر یہ کتاب قابل تعریف اور لائق مطالعہ ہے. سوانحی ادب اور اکابر کے علوم فنون سے دلچسپی رکھنے والے ہر صاحب علم کے مطالعے میں یہ کتاب رہنی چاہیے اس کے علاوہ چند مقتدر شخصیات پہ حضرت مولانا اسلام قاسمی صاحب نے جو تحریریں لکھی تھیں انہیں اس کتاب میں جمع کر دیا گیا ہے. یہ کتاب کل 203 صفحات پر مشتمل ہے. اس میں محاسن سجاد، حضرت مولا نا منت اللہ رحمانی، حکیم الاسلام قاری طیب صاحب ، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ،مفتی ظفیر الدین مفتاحی، مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان، حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری، حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندی، حضرت مولاناشیخ یونس صاحب مظاہری جونپوری، حضرت مولانا اسلم صاحب، شیخ اکرام علی بہاگلپوری، حضرت مولانا عبدالحنان بالاساتھ، حضرت مفتی فضیل الرحمن عثمانی، حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری مولانا اسرار الحق قاسمی، مولانا غلام نبی کشمیری، مفتی انوار الحق قاسمی، مولانا حسن باندوی و دیگر بعض شخصیات کا تذکرہ ہے. حضرت مولانا اسلام صاحب کے قلم سے نکلنے والی یہ تحریریں ایک الگ قسم کا مزہ دیتی ہیں اور سوانحی ادب کا شاہکار ہمارے سامنے آتا ہے. اس کے علاوہ مقالات حکیم الاسلام نامی کتاب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے حکمت ریز منتخب مضامین کا مجموعہ ہے، جنہیں مولانا اسلام قاسمی صاحب نے جمع کیا ہے اور مرتب کیا ہے. جس میں حضرت حکیم الاسلام کی حکمت اور آپ کی خداداد صلاحیت اور مختلف احکام کی روح اور ان کی حکمتوں تک پہنچنے کی خاص صفت کی جلوہ گری ہے. "دار العلوم دیوبند کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ” یہ وہ کتاب ہے جو اجلاس سالہ کے موقع پر مرتب کی گئی تھی؛ اس میں دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے تمام اہم اور ضروری باتیں جمع کر دی گئی ہیں. "نگارشات اسلام” کے نام سے جو کتاب مولانا بدرالاسلام نے مرتب کی ہے، ماشاءاللہ اس میں حضرت مولانا اسلام قاسمی صاحب نے قرآنیات، حدیث، سیرت رسول اسی طرح دارالعلوم دیوبند و متعلقات، ملی مسائل، سیاسی مسائل، ذاتی زندگی، اسفار وغیرہ سے متعلق جو کچھ بھی الگ الگ اوقات میں تحریریں لکھی تھی انہیں یکجا کر دیا ہے . یہ کتاب بھی خاصے کی چیز ہے.
الحاصل اس پورے سیٹ کی ہر کتاب اپنی جگہ جداگانہ شناخت اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے.
ہر گل را رنگ وبوئے دیگر است.
دعاء ہے کہ اللہ تعالی ان کے علمی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ان کے ذریعے ان کے والد گرامی کی چھوڑی ہوئی وراثت کو پوری امت تک پہنچائے. یہ خدمات ان کے اور ان کے مرحوم والد کے لیے ذخیرہ آخرت بنیں اور اللہ کا فضل و کرم ہر حال ان کی دستگیری فرمائے۔ آمین

You may also like