Home تجزیہ کیا شاہین باغ فرقہ پرستانہ سیاست کے خاتمے کی شروعات ہے ؟ مسعود جاوید

کیا شاہین باغ فرقہ پرستانہ سیاست کے خاتمے کی شروعات ہے ؟ مسعود جاوید

by قندیل

 

ہندوستان میں فرقہ پرستانہ سیاست کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ انگریزوں نے ” divide and rule پھوٹ ڈالو اور حکمران بنے رہو” کے تحت ہندو مسلم منافرت کو جنم دیا، توبھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ انگریزوں سے اس ملک کو آزاد ہوئے ٧٣ سال کا طویل عرصہ گزر چکا اس کے بعد بھی ہم اسی فرقہ واریت کی زنجیر میں جکڑے ہوئے کیوں ہیں؟ کیا انگریزوں کے جانے کے بعد اس ملک کے باشندوں نے تعلیم حاصل نہیں کی، سیاسی تجربات سے نہیں گزرے؟ ٢٠١٧ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ٧٨٩ یونیورسٹی، ٣٧٢٠٤ کالج اور ١١٤٤٣ انسٹیٹیوٹس ہیں۔ ان دانشگاہوں نے ہندوستان میں نہ صرف ادب، تاریخ،جغرافیہ لسانیات ، معاشیات اور قانون بلکہ اعلی معیار ی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی خود کفیل بنایا اور عالمی بساط پر ہندوستانیوں کی حیثیت کوتسلیم کرایا ہے ۔ دنیا بھر میں ہندوستانی ماہرین کی خدمات لی جاتی ہیں مگر افسوس و صد افسوس ان تمام تعلیمی حصولیابیوں اور شعور کی بالیدگی کے باوجود ہم انگریزی استعمار کی تفرقہ انگیز سازش کا موضوعی تجزیہ کرکے اس کی بخیہ کنی کرنے سے قاصر رہے۔ کیا واقعی ہندوستان کے عوام پڑھے لکھے بے وقوف ہیں جیسا کہ ایک بار ریٹائرڈ جسٹس کاٹجو نے کہا تھا، یا ان تمام تعلیمی حصولیابیوں کے باوجود ہم مذہبی افیون پی کر فرقہ پرست رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ؟

انگریز چلےگئے مگر وارث چھوڑ گئے ۔

انگریزی استعمار کی رخصت کے بعد ایک مخصوص طبقے کو ” پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ” پالیسی میں عصاے سحر ی نظر آیا،جسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش وہ برسہا برس کرتا رہا تا آنکہ سحرانگیز باتوں وعدوں اور ترہیب و ترغیب سے اس کی موالی جماعت نے مطلق اکثریت حاصل کر کے زمام اقتدار سنبھال لیا۔ اس مطلق اکثریت کا زعم سر پر ایسا سوار ہوا کہ ان کے چھوٹے بڑے لیڈروں کو عہدوں کے وقار کا خیال ہے اور نہ ایوانوں میں رائج ادب آداب کا۔ ایک متنوع کلچر،مختلف ادیان و زبان والے اس خوبصورت ملک کے باشندوں کو بلا تفریق مذہب ذات اور سیاسی وابستگی ، کس لب و لہجہ میں خطاب کرنا ہے وہ بھول گئے ہیں یا ان کے لئےیہ عوام اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دو فرقوں کے درمیان نفرت ہی اس پارٹی اور اس تنظیم کو زندہ رکھ سکتی ہے اسی لئے بے محل اور بغیر مناسبت کےایسے شوشےچھوڑنے میں مصروف ہوتے ہیں،جو بعد میں ان کے لئے باعث شرمندگی وخواری ثابت ہو رہے ہیں :

"لو جہاد” – ایک عرصہ تک یہ بیانیہ چلایا گیا،اب کل پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ نے کہاکہ ایسی کوئی تعریف اور اصطلاح قانون میں درج نہیں ہے اور اس کے تحت کوئی کیس درج نہیں ہوا ہے۔

اس سے قبل ” ٹکڑے ٹکڑے گینگ” کے بارےمیں سوال کرنے پر حکومت کی جانب سے جواب دیا گیا کہ حکومت کے ریکارڈ میں ایسے کسی گینگ کا نام نہیں ہے۔

نیشنل رجسٹر آف پوپولشن اور این آر سی – ایک باوقار حکومت اس نوعیت کے حساس موضوعات کو عوامی حلقوں اور انتخابی جلسوں میں ووٹرز کی مذہبی بنیاد پر لام بندی کے لئے استعمال نہیں کرے گی۔ لیکن جب اس این آر سی کی انتخابی جلسوں میں تشہیر اور اسے شہریت ترمیمی ایکٹ سے مربوط کر کے کرونولوجی سمجھایا گیا تو ظاہر ہے جن لوگوں کو اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور سول سوسائٹی کے جن لوگوں نے ان قوانین کی سنگینی سمجھی ، ہندوستان کے مزاج کے مخالف جانا اور دستور ہند کی روح کے منافی پایا وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کے احتجاجی مظاہروں سے متعصب فرقہ پرست عناصر کی ان قوانین کے پس پردہ ذہنیت سے نہ صرف ہندوستان کے ہر طبقے کے لوگ واقف ہوۓ بلکہ دنیا بھر کے عوام اور تنظیمیں باخبر ہوئیں۔ اس سبکی کو مٹانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اب کل حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں تحریری بیان دیا گیا ہے کہ’ ملک گیر سطح پر این آر سی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے نفاذ کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے’۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا وقت سے پہلے اس کی تشہیر فرقہ واریت کو ہوا دینے اور انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے تھی ؟

اگر ایسا ہے تو اس کا جواب تو ١١ فروری کو دہلی،اس کے بعد بہار اور پھر مغربی بنگال کے انتخابی نتائج دیں گے لیکن ١١ فروری سے قبل ایک نمونہ، بی جے پی کے تشہیری یو ٹیوب ویڈیو پر ناظرین کے ردعمل سے جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو میں سی اے اے این آر سی اور این پی آر کے خلاف مظاہروں کو، بینر و پوسٹر کے ذریعے، ملک کے لئے رکاوٹ بتایا گیا ہے اور دیگر اشتعال انگیز باتیں ہیں۔ سمے آگیا چلو نکالیں دلی سے دھرنے والوں کو،یہ ویڈیو بی جے پی کی مثبت تشہیر کے بجائے لوگوں میں منفی اثر ڈالا چنانچہ لوگوں نے اپنے غم وغصہ اور سخت تنقید کا اظہار اس طرح ردعمل کے ذریعے کیا۔ کل تک اس ویڈیو کو دو لاکھ ٢٧ ہزار لوگ دیکھ چکے تھے جن میں محض ڈھائی ہزار لوگوں نے لائک کیا جبکہ ایک لاکھ تیرہ ہزار لوگوں نے اسے ناپسند کیا۔ظاہر ہے عوام کی توقعات اور ترجیحات تعمیر و ترقی اسکول، شفاخانے، سڑک سیوریج بجلی پانی اور سیکورٹی ہیں نا کہ پاکستان، بریانی، شاہین باغ اور متعصب فرقہ کی تعریف کے مطابق کون دیش بھکت محب وطن ہےاور کون غدار دیش دروہ۔

شاہین باغ کی حصولیابی کتنی ہے اس کا تخمینہ تو آنے والے دنوں میں کیا جائے گا،لیکن سردست یہ حصولیابی بہت اہم ہے کہ اس علامتی آئیکونیک احتجاج نے ہندوستان کی عوام کو ، بلا تفریق مذہب ، مرد عورت بچے بوڑھے , علاقہ اور زبان ، دستور ہند کی حفاظت کے لئے بیدار کیا ہے ، دستور ہند کے تئیں ذمے داریوں کا احساس از سر نو زندہ کیا ہے اور ملک کی بہت بڑی تعداد کو فرقہ پرست سیاست کے نقصانات سے آگاہ کیا ہے۔ کثرت میں وحدت، قومی یک جہتی اور peaceful coexistence کے جذبوں کو تر و تازہ کیا ہے۔

You may also like

Leave a Comment