استاد محترم جناب مولانا سلمان الحسینی ندوی صاحب ادھر چند سالوں سے یوں تو اکثر وبیشتر تنازعات میں گھرے رہے ہیں،مگر حالیہ دنوں میں ان کے تعلق سے تنازعات کافی بڑھ گئے ہیں۔ ان کی ویڈیوز ایک کے بعد ایک مسلسل سامنے آتی رہیں اورہربارکوئی نہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا کرتی رہیں۔تاہم یہ مسرت کی بات ہے کہ مولانا اپنی سابقہ روش سے رجوع کررہے ہیں۔ مولانا کے اس عمل سے جہاں ان کے بہت سے معتقدین میں خوشی کی لہر ہے وہیں اس عمل نے خود مولانا کی شان اور قدرومنزلت میں اضافہ کیا ہے۔ دوسری طرف مولانا نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی صاحب علم ان کے تسامحات (اگر علماء کی نظر میں وہ تسامحات ہیں تو) پر انہیں قائل کردیں اور ان کے دلائل کا قرآن وسنت کی روشنی میں رد کردیں تو وہ ان سے بھی رجوع کرلیں گے۔اور یہ بھی ہر طرح سے خوش آئند بات ہے۔
میں سردست ایک موضوع کو لے کر حاضر ہوا ہوں، شاید یہ ضروری ہے، وہ یہ کہ مولانا اپنے اسی ویڈیو میں، جس میں حضرت ابوہریرہؓ کے تعلق سے ان کی زبان پھسلی تھی ، اپنے سخت اور درشت لب ولہجے اور گالی نما لفظیات کو جواز دینے کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے انہوں نے قرآن کے اسلوب سے استدلال کیا ہے کہ اگر میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہوں تو اس میں کیا مضائقہ ہے ، یہ تو قرآن کا اسلوب ہے، انبیاء کا اسلوب ہے۔ انہوں نے استدلال کے طور پر قرآن کی چند آیات بھی پیش کی ہیں ، نبی ﷺ کے بعض ارشادات کا حوالہ بھی دیا ہے اور بنی اسرائیل کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انداز تخاطب کا بھی ذکر کیا ہے۔
قرآن کی ایک آیت جس کا مولانا نے حوالہ دیا ہے:
وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ (القلم)
’’اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ،طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ، مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار ، سخت خو اور اس کے علاوہ بدذات ہے ‘‘ (ترجمہ: جالندھری)
اس آیت کو پیش کرکے مولانا فرماتے ہیں:’’ یہ گالیاں ہیں، یہ اللہ میاں کی طرف سے گالیاں ہیں۔ آج جب کسی کے بارے میں یہ الفاظ بولے جاتے ہیں تو الزام لگادیا جاتا ہے کہ گالیاں دیتے ہیں۔تو قرآن کو ذرا جانچ لیجئے کہ اللہ کی زبان کیا ہے؟ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ سے جو زبان شروع ہوئی وہ زبان کہاں کہاں پہنچی، فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ…..عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (سورۃ المدثر) ۔یہ ہے قرآن کا اسلوب ،قرآن کا انداز، ایسا شعلہ بار ،کہ لگتا ہے جیسے انگارے برس رہے ہیں۔ یہ ہے قرآن کا اسلوب جسے آپ کہہ دیتے ہیں کہ گالیاں ہیں۔ او ر قرآن کیا کہتا ہے اس کے بارے میں جو مفسر بنتا ہے ،اللہ کے کلام کی تشریح کرتا ہے اور دنیا کماتا ہے، کیا کہتا ہے: فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ….. يَلْهَث (الاعراف)۔ اور کیا کہتے ہیں اللہ ان علماء کے بارے میں جو بڑی معلومات رکھتے ہیں اور خوب دانشمندانہ گفتگو فرماتے ہیں۔ فرمایا: مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ… كَمَثَلِ الْحِمَارِ ي (الجمعہ) ۔ قرآن کہیں کتا کہہ رہا ہے کہیں حمار کہہ رہا ہے۔ تو بھائی اس قرآن کو کہیں طاق پر رکھ دیجئے کہ یہ کیسی بات کرتا ہے ، گالیاں دیتا ہے ۔ اور آگے بڑھئے، علماء کو ہی کہہ رہا ہے ، احبار رہبان کو، وہ چاہے بنی اسرائل کے ہوں یا بنی اسماعیل کے ہوں، اللہ کےیہاں نہ قبیلوں میں فرق ہوتا ہے نہ خاندانوں میں فرق ہوتا ہے۔ کیا فرماتا ہے؟ قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم ….وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ (المائدۃ)۔ اللہ نے بندر بنادیا ان کو، سور بنادیا،طاغوت کے وہ بندے بن گئے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کے جو الفاظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک ایک لفظ کی تشریح میں پھراسی طرح کے الفاظ لانے پڑیں گے نا، تشریح ان کی ہلکے پھلکے الفاظ سے تو نہیں ہوگی… (مولاناکچھ آگے چل کر فرماتے ہیں) .. نرمی ہر جگہ درست نہیں ہوتی قرآن اس نرمی سے منع فرماتا ہے جو بے شرمی تک لے جائے اور جو دین میں تحریف کروادے ، حدیث میں سخت سے سخت الفاظ ہیں ، یہ تو میں نے قرآن کی چند آیتیں پیش کیں جن کو آج اگرقرآن کے حوالے کے بغیر آپ کہیں کہ ، وہ ذلیل، وہ رسوا، وہ ولد الزنا۔ تو آپ کہیں گے کہ اتنی سخت گالیاں دے رہے ہیں اور یہ سب قرآن میں ہے ، یہ سب قرآن میں ہے، پڑھ لیجئے ذرا، ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ اور يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ اس کے بعد والی آیتوں میں آپ پڑھ لیجئے، اب ظاہر ہے کہ ان سے ہٹ کر اگر ہم کہیں گے تو آپ کہیں گےکہ ارے !کتنی سخت بات کررہے ہیں …( تقریر ابھی جاری رہتی ہے) ‘‘
یہ آیات بعض مشرکین ولید ابن مغیرہ وغیرہ کے تعلق سے ناز ل ہوئی ہیں۔ اور اللہ کو تو ان سب منافقین کی حقیقت کا علم تھا کہ وہ انسانیت کے اعتبار سے کس حال میں تھے اور اس کا بھی علم تھا کہ وہ بغیر ایمان اورتوبہ کے مریں گے۔ اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت پر مبنی بیان ہوا، نہ کہ گالی اور محض لعن طعن پر مبنی بیانیہ۔ جبکہ قرآن کے اس بیان کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان بعض بے ایمان انسانوں کی فطرت اور نفسیات کو بتارہا ہے۔ آخر انسانوں میں ہی شیاطین بھی تو ہوتے ہیں، تو شیاطین سے تخاطب اور مسلمین سےتخاطب میں فرق طبعی بات ہے۔
ہاں! مولانا نے بھی اس بات کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ نارمل حالات کے بیان اور ہنگامی حالات کے بیان اور لفظیات میں فرق ہوتاہے ، جب آگ لگ جاتی ہے تو لوگ چیخ اٹھتے ہیں۔ اس سےمولانا کا استدلال یہ ہے کہ ان کا تندوتیز بیان موجودہ دور کے ہنگامی حالات کی وجہ سے ہے۔
مولانا دوسری آیت یہ پیش کرتے ہیں:
فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿١٩﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ نَظَرَ ﴿٢١﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿٢٢﴾ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ﴿٢٣﴾ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿٢٤﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿٢٥﴾ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿٢٦﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿٢٧﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿٢٨﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ﴿٢٩﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ﴿٣٠﴾ (سورۃ المدثر)
’’ تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی ، ہاں، خدا کی مار اُس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی ، پھر (لوگوں کی طرف) دیکھا، پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا، پھر پلٹا اور تکبر میں پڑ گیا، آخرکار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادو جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، یہ تو یہ ایک انسانی کلام ہے، عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا ، اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ؟ ، نہ باقی رکھے نہ چھوڑے ، کھال جھلس دینے والی، انیس کارکن اُس پر مقرر ہیں۔(ترجمہ: مولانا مودودی)
یہ آیات بھی ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اس نے چونکہ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی، قرآن کو اور رسول اللہ ﷺ کو جھٹلایا اورقرآن کوجادواورانسان کا کلام بتایا، اس کی اسی خبیث طینت کے باعث اللہ نے اسے جہنم کی وعید سنادی۔ اور یہ اللہ کے لئے ہی ممکن تھا کیونکہ اللہ کے علم میں تھا کہ اس کی موت ایمان وکفر میں سے کس حال پر ہوگی۔
مگرکسی انسان کو یہاں تک کہ کسی عالم دین کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے زمانے کے مشرکین ومنافقین کے لیے چہ جائے کہ کلمہ گو مسلمانوں کے لیے(گرچہ وہ مجرم اور گناہ گار ہوں) ایسی زبان استعمال کرے۔ کیونکہ ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں نہیں جانتا کہ ایک غیر ایمان والا کب صاحب ایمان بن جائے اور کوئی گناہ گار کب اپنے گناہوں سے تائب ہوجائے۔تاہم امرونواہی کی تعلیم کی جائے گی اور موجودہ دور میں کسی شخص یا حکومت واداروں کے خلاف اگران کے ریکارڈ مجرمانہ ہیں تواپنی حدود میں رہتے ہوئےعوامی احتجاج اورقانونی داو پیچ اختیار کرکے مجرم شخص، گروہ یا حکومتوں کو ان کے کرتوتوں سے بازرکھنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے گی۔
قرآن وحدیث میں بہت کم لوگوں کے خلاف اس طرح کی زبان کا استعمال کیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگوں کو سزا دی ہے، آپﷺ نے اپنی پوری زندگی میں اور خاص طور پر فتح مکہ کے بعد جہاں لاکھوں انسانوں کوعام معافی دی، وہیں معدودے چند افراد کو قتل کرنے کا حکم بھی دیا۔مگریہ لوگ کوئی عام مجرم نہ تھے بلکہ یہ فسادیوں کے سرغنہ تھے، رسول اللہﷺ کے قتل کے درپے رہتے تھے اوردعوت وتبلیغ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کیا کرتے تھے۔ ایسی صورت حال میں رسول اللہ ﷺکے عمومی اسوے کو اختیار کرنے کے بجائے آپ ﷺکے استثنائی اسوے کو اختیار کرتے ہوئے اور قرآن کی بعض مخصوص ماحول والی آیات سے گالی نما لب ولہجے اور لعن طعن پر مبنی انداز بیان کے جواز پر استدال کرنا کوئی اچھی مثال اور مثبت عمل نہیں ہوسکتا۔
تیسری آیت:
فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ(الاعراف)
’’ اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔‘‘ (مودودی)
قرآن نے کتے کی ایک صفت کی مثال کہ وہ ہر دو حالتوں میں ہانپتا رہتا ہے، دوڑ کر آیا ہے یا آرام سے بیٹھا ہوا ہے، ہر دوحالتوں میں ہانپتا ہی رہتا ہے، اس شخص کے لیے دی ہے جسے نصیحت کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہوتا ہے، وہ اللہ کا کلام سننے سے قبل بھی متکبر اور ہٹ دھرم بنا رہتا ہے اور اللہ کا کلام سننے کے بعد بھی اس کی یہی کیفیت رہتی ہے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ بھی انسان کی بعض نفسیات کا بیان ہے، کہ انسان کی نفسیات اس قسم کی بھی بن جاتی ہیں اور محض اس کے اپنے عمل اور اپنی خاص ذہنیت کی وجہ سے۔ پھر یہی نفیسات قوموں کا مزاج بن جاتی ہیں اور وہ حق قبول کرنے سے عاجزرہتے ہیں۔
چوتھی آیت:
فمَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا (الجمعہ)
’’ جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ ‘‘(مودودی)
یہ آیت بھی اپنے بیانیے کے لحاظ سے اوپر والی آیت ہی کے مثل ہے کہ اس میں بھی انسانی نفسیات کا بیان ہے۔ کہ جس طرح ایک گدھے کوکتابوں سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا،الٹا وہ کتابیں اس کے اوپر بوجھ ہوتی ہیں ، اسے تھکاتی ہیں، نفع نہیں دیتیں، اسی طرح بعض اہل تورات کا حال بھی تھا کہ اللہ کی کتاب نے انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچایا۔ یہاں بھی ایک خاص کیفیت اور نفسیات کا بیان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے مخاطبین کو ڈائریک ’’کتا ‘‘یا ’’گدھا ‘‘نہیں کہا ہے بلکہ تمثیلا’’ گدھا ‘‘یا ’’کتا‘‘ کہا ہے اور وہ بھی ان کی بعض بدخصلتوں کے حوالے سے ، یعنی ان بد خصال انسانوں کی بعض صفات کی مثال کتوں اور گدھوں کی بعض صفات سے دی ہے۔ لہذا تمثیلی پیرایہ غیر تمثیلی پیرائے سے مختلف ہوتا ہے۔ دونوں آیتوں میں ’’اے کتو، اے گدھو‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا گیا ہے۔
پانچویں آیت:
قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ (المائدۃ)
’’ کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ خدا کے ہاں اس سے بھی بدتر جزا پانے والے کون ہیں؟ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور جن پر وہ غضبناک ہوا اور (جن کو) ان میں سے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی ۔ ‘‘ (جالندھری)
اللہ اور انسان کے درمیان کیا نسبت ہے ؟اور انسان اور انسان کے درمیان کیا نسبت ہے؟ یہ غورکرنے کی بات ہے۔ کیا ان دونوں طرح کی نسبتوں میں کچھ فرق نہیں۔؟ اللہ انسان کاخالق ہے،وہ اس کی فطرت، نفسیات اورخفیہ واعلانیہ ہرایک عمل کے بارے میں جانتا ہے اور اللہ کو عذاب دینے کا حق ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ کیا ایک انسان کو دوسرے کسی انسان کے حوالے سے ایسی معلومات ہیں اور کیا انسان کو دوسرے انسان کے بارے میں ایسے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ اسےسزا دبھی دے سکے۔ اور کہہ سکے کہ میں تجھے جہنم میں پھینک دوں گا۔
جبکہ قرآن کا یہ اسلوب تو کہیں کہیں دیکھنے کو ملتا ہے،اس کے برعکس قرآن اللہ کے بندوں کو محبت بھرے اسلوب اور پیاری زبان میں مخاطب کرتا ہے، يَا أَيُّهَا النَّاسُ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور یہ پیار بھرا تخاطب ہے۔
تو یہ بھی تواپنے آپ میں تعجب خیز بات ہوگی کہ ہم قرآن کے عمومی اسلوب کو چھوڑ کر اپنے لیے اس کے استثنائی اسلوب کو اختیار کریں۔ اور کہیں کہ جب قرآن گالیاں دے سکتا ہے تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔ یا کم از کم ایمرجنسی جیسے حالات میں ہم بھی سخت ترین لب ولہجہ اختیارکرسکتے ہیں ۔قرآن کسی کو بے وقوف، حمار اورکتا کہہ کر پکار سکتا ہے تو ہم بھی ایسا ہی کرسکتے ہیں۔ مگر یہ منطق کسی بھی طرح سے درست معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ اللہ کے خطاب میں اور ہم انسانوں کے خطاب میں بہت فرق ہے۔اللہ انسان کے تخلیقی اور خلقی عناصر سے واقف ہے ۔
اب دیکھئے قرآن نے کہا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ﴿٧٢﴾ (الاحزاب)
اس آیت کے آخری الفاظ ہیں ’’ظلوما جہولا‘‘ذرا غورکریں کہ یہ انسان کو گالی دی جارہی ہے یا انسان کی تخلیق میں شامل بعض عناصر اور صفات کا بیان ہے۔اور اس کا بیان ہے کہ قرآن کا حق ادا کرنے کی قوت انسان کے اندرنہیں تھی اور پھر بھی اس نے اس بار امانت کو اٹھانے کا فیصلہ لیا، تو اس لیے کہ وہ انجام سے بے خبر ہے اوراسی بے خبری کے نتیجے میں اپنے ساتھ ناانصافی کرنےوالا ہے۔ یہاں ان الفاظ ’ظالم وجاہل‘ کا توارد انسان کی تخلیق اور اس کو تفویض کی گئی بڑی ذمہ داری کے تعلق سےکسی عمیق اور بڑی حقیقت کے انکشاف کے طور پر ہے یا محض لعن طعن کے طور پر؟۔
اگر تکوینی اعتبار سے غورکریں تو بیشک یہ بار امانت انسان ہی کو اٹھانا تھا مگراللہ نے ایسا اسلوب اختیار کرکے دراصل بار امانت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہاں اصلا انسان کی کمزوری بیان کرنا مقصود نہیں ہے، انسان کی کمزوری بارامانت کی عظمت کے مقابل میں بیان کی جارہی ہے۔
’’امانت‘‘ سے مراد ارادہ واختیار کی آزادی کے ساتھ اطاعت اور پھر اس پر جزاوسزا کا مکلف ہونا ہے۔ جب زمین وآسمان پر یہ امانت پیش کی گئی یعنی ان سے پوچھا گیا کہ وہ مکلف مخلوق بننا پسند کرتے ہیں یا غیر مکلف رہنا ،تو انہوں نے غیر مکلف یعنی مجبور محض مخلوق رہنا پسند کیا۔کیونکہ اس میں عافیت تھی، اس میں جہنم کا ایندھن بننے کا خوف نہیں تھا۔ مگر انسان نے یعنی حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے لیے مکلف بننا پسند کیا، کیونکہ اس میں گرچے جہنم کا ایندھن بننے کا خطرہ تھا مگر اس میں شان رفعت بھی تھی۔ اوریہ اسی بار امانت کو اٹھانے کا نتیجہ ہے کہ انسان کل کائنات کی سب سے شاہکار اور عظیم مخلوق ہے، اس کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس میں انبیاء اٹھائے گئے ہیں۔ اوراگر انسان نے اپنی دنیاوی زندگی ایمان وعمل کے حسن وکمال کے ساتھ گزار لی تو قیامت کے دن اللہ اس سے ہم کلام ہوگا اوراسے بیش بہا نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ غیر مکلف مخلوق کے لئےیہ عنایات اور نوازشیں کہاں۔
تقدیر کے پابند نباتات وجمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
یوں تو قرآن میں انسانوں کے ساتھ ساتھ پتھروں کو بھی جنہم کا ایندھن بتایا گیاہے (وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ )۔ مگر پتھروں کے جہنم کا ایندھن بننے کی کیفیت انسانوں کے ایندھن بننے کی کیفیت سے مختلف ہوسکتی ہے۔تویہاں یہ سوال نہیں رہتا کہ جب پتھر غیر مکلف ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن کیوں بنیں گے یعنی انہیں سزا کیوں ہوگی۔ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ پتھر وں کا ایندھن بننا سزا کے طور پر نہ ہو بلکہ جہنم کو اس کی بھوک میں سہارا دینے کے لیے ہو۔
اسی طرح قرآن میں ہے: سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ (البقرہ) اس آیت میں بعض انسانوں کو (جو رسول اللہ ﷺکی تعلیم وہدیات کی مخالفت پر آمادہ تھے) سفیہ یعنی بے وقوف کہا گیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان کے لیے اس لفظ کا توارد تحقیرِ محض پر مبنی نہ ہو بلکہ اس کے پیچھے یہ اشارہ موجود ہو کہ جو لوگ قدم قدم پر بکھری ہوئی کل کائنات میں اللہ کی نشانیوں پر غورنہیں کرتے اور اللہ کی معرفت تک نہیں پہنچتے وہ اپنے آپ میں کم عقل ہیں۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ عقل مند وہ ہے جس نےدنیامیں اپنی حقیقت اور حیثیت کو جان لیا اورآخرت کے لیے تیاری کی۔ تو عین ممکن ہے کہ قرآن میں ایسےلفظوں کاتوارد محض لعن طعن کے لئے نہ ہوکر انسان پر اس کے خارج یعنی کائنات میں اور اس کے باطن میں پوشیدہ حقائق کے انکشاف کے طورپر ہو۔
قرآن کے اسلوب کی یہ بھی بڑی خصوصیت ہے کہ اس نے عموما کردار وں کے حوالے سے بات کی ہے نہ کہ شخص معین کے حوالے سے،شخص معین شان نزول کے پس منظر میں گرچے موجود ہے مگراپنے نام کے ساتھ قرآن کے بیانئے میں موجود نہیں ہے،البتہ بعض نام قرآن میں آئے ہیں۔ تو اس کی بھی کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔ بعض آیات کے شان نزول سے شخص معین کا پتہ چل جاتا ہے مگر قرآن نے اپنی لفظیات میں مجرموں کے نام نہیں لیے، کیونکہ قرآن کسی کی مخالفت کے لیے نہیں آیا بلکہ قرآن برائی کو مٹانے اور اچھائیوں کو عام کرنے کے لیے آیا ہے، اسی لیے اللہ نے اشخاص اور گروہوں کی طرف منسوب برائیاں بیان کیں۔ قرآن میں یہود ونصاریٰ اور منافقین ومشرکین کی جن بد اعمالیوں اور بے اعتقادیوں کا تذکرہ ہے اور باربار ہے، اس کا مقصود اصلی بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں اوراہل ایمان کو آگاہ کرنا ہے کہ تم یہود ونصاریٰ جیسی بد اعمالیوں سے خبردار رہنا۔
اگرایک منصف بادشاہ کسی مجرم کو یہ کہتا ہے کہ میں تجھے جیل میں ڈال دوں گا اور سخت عذاب دوں گا۔ تویہ انصاف کا تقاضہ ہے یاسخت بات اورگالی ہے؟ نہیں نا۔ عدالتوں میں جب سزائیں لکھی جاتی ہیں، پھانسی کی سزا ئیں اور تاحیات قید بامشقت کی سزائیں تو کیا یہ انصاف فراہم کرنے کے لیے ہیں یا اس سے سخت کلامی مقصود ہے؟ نہیں نا۔اسی طرح جب اللہ مجرموں کے اعمال کو بیان کرتا ہے اور انہیں جہنم کی وعید سناتا ہے اور بتاتا ہے کہ جہنم ایسی اور ایسی ہے، اس میں آگ ہے اوروہ کبھی نہ بھرنے والی ہے تو یہ انصاف کے تقاضے کے طور پر ہے نہ کہ محض گالی دینے کے لیے اور لعن طعن کرنے کے لیے۔ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾(سورۃ المائدہ)۔
مولانا نے یہ آیت بھی پیش کی ہے مگر کیا اس آیت کا مقصود اصلی لعن طعن ہے یا بنی اسرائیل کے بے ایمان لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کرنا ہے۔
چلئے ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور یہ مان کر چلتے ہیں کہ مولانا سلمان صاحب اپنے بیان میں سچے ہیں اور ان کے استدلال پختہ ہیں، مگر یہ معصوم سا سوال آپ کے سوچنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں کہ ’’کیا قرآن کی لفظیات گالی نما ہیں، کیاقرآن کی لفظیات کوگالیاں بتانا یاگالیوں سے تشبیہ دینا درست ہے؟ اور کیا قرآن کا مہا بیانیہ لعن طعن پر مبنی ہے؟ اگر اسی بات کو کوئی مستشرق، ملحد یا کو ئی لبرل کہہ دے کہ قرآن میں گالیاں دی گئی ہیں تو ہمیں کتنا برا لگے گا۔
نوٹ:
آج ایک اور صاحب نے اپنے گالی نما اسلوب،بدکلامی اور ہذیان گوئی کے حق میں ’حدیث‘ سے استدلال کیا ہے:
’’ ایسے لوگوں سے قدم قدم پر واسطہ پڑتا ہے اور ایسے لوگوں کے تعلق سے سختی کہیں نہ کہیں شریعت میں موجود ہے۔۔۔ أفتان انت یا معاذ، اسامہ بن زید کا کلمہ گو کے قتل کرنے کے موقع سے رسول اکرم ﷺ نے ان کی جو سرزنش فرمائی تھی یا عمر رضی اللہ عنہ کے تورات پڑھنے کے موقع سے جو غصہ دکھایا تھا وہ سب اس کے دلائل ہیں۔۔۔‘‘
تو اس صورت حال میں میرے اس مضمون کی قرأت مفید ہوسکتی ہے۔