Home تجزیہ کیا پرینکا ریڈی کو انصاف مل گیا ؟

کیا پرینکا ریڈی کو انصاف مل گیا ؟

by قندیل

 

منصور قاسمی

ریاض، سعودی عرب

خاتون ویٹرنری ڈاکٹر ،عصمت دری ،قتل اور نذر آتش کی شکار پرینکا ریڈی کے ملزمین کو ۶؍دسمبر بروز جمعہ سائبرآباد پولیس نے انکا ؤنٹر کر کے ہلاک کردیا ؛یہ خبر جوں ہی منظر عام پر آئی ،ملک کے مختلف جگہوں میں خوشیاں منائی گئیں ، پولیس پر پھول نچھاور کئے گئے ، انہیں مبارکبادیاں پیش کی گئیں ، ان کی جرأت و شجاعت کو سلامی دی گئی ؛ سوال یہ ہے کہ کیا ملزین کی موت سے پرینکا ریڈی کو انصاف مل گیا ؟ صحیح جواب ہے، نہیں ! اگر واقعی ملزمین مجرم تھے تو ان کو اس سے بڑی سزا دن کے اجالے میں اور بیچ چوراہے پر دی جا نی چاہئے تھی ، رات کی تاریکی میں انکاؤنٹر انصاف نہیں بلکہ جرم پر جرم ہے ، انصاف دلانا عدلیہ کا کام ہے، پولیس کا نہیں۔سینئر وکیل وجول نکم نے کہا ہے : حیدرآباد پولیس انکاؤنٹر کو کسی بھی طرح جائز نہیں کہا جا سکتا ہے ، عوام کی خواہش تھی مجرمین کو فوراً سزا ملے شاید اسی لئے خوشیاں منارہے ہیں؛ مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چمبل کے ڈاکو بھی اسی طرح فیصلہ کررہے تھے لیکن ہر کوئی انہیں مجرم کہتا ہے ،، ۔

عصمت دری اور قتل کا رجحان ہندوستان میں خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ، بڑے شہرتو بڑے شہر گاؤں دیہاتوں میں بھی عورتیں اور بچیاں محفوظ نہیں ہیں ، کچھ ہی معاملات میں ایف آئی آردرج ہو تی ہے ،اکثر تھانے تک پہنچتے بھی نہیں ؛ ایک عام آدمی تو کجا معروف و مشہور شخصیات بھی عصمت دری میں ملوث ہیں ، آسا رام ،رام رہیم ، کلدیپ سنگھ سینگر، سوامی چنمیانند ، سوامی نتیانندوغیرہ ایک طویل فہرست ہے ۔ خود ملک کی پارلیامنٹ میں تین ممبران ایسے ہیں جن پر عصمت دری کا الزام ہے ، ۱۹ ممبران ایسے ہیں جن پر عورتوں کے ساتھ تشدداور زیادتی کا الزام ہے ، مگر ان کے خلاف کسی پولیس نے ہتھیار اٹھانے کی تو دور آنکھیںاٹھانے کی بھی کوشش نہیں کی؛خاتون ممبران خصوصاً اسمرتی ایرانی نے جس طرح حیدر آباد انکاؤنٹر پرپارلیامنٹ میں چیخ وپکار مچائی اور پولیسیا کاروائی کو درست قرار دیا ، انہیں سینگر اور چنمیانند کے خلا ف بھی ہنگامہ بپا کرنا چاہئے تھا مگرآج تک لب پر مہر لگی ہوئی ہے ، آصفہ کے معاملے میں سانپ سونگھ گیا تھا ،ساکشی مہاراج سینگر کو جنم دن کی بدھائی دے رہے ہیں ، ابھی دو دن پہلے مودی جی جھارکھنڈ الیکشن میں ششی بھوشن کے لئے ووٹ مانگنے گئے تھے ، یہ ششی بھوشن وہی ہے جس پر ایک مہیلا ٹیچر کے مرڈر کا الزام ہے ،کیا اسمرتی ایرانی ان مجر مین کے لئے انکاؤنٹر کی سفارش کریںگی ، یا پھر ذات ، دھرم اور پارٹی دیکھ کر ’’مہیلا ادھیکار،، کی بات کریںگی ؟جیا بچن جنہوں نے آئین کا حلف لیا ہے وہ بھی اس غیر قانونی عمل کو درست کہہ رہی ہیں ، مطلب صاف ہے ان ممبران پارلیامنٹ کو بھی قانون اور عدلیہ پر بھروسہ نہیں ہے ، اگر یہی بات ہے تو پھر فاسٹ ٹریک کورٹ ، لور کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو کورٹ بند کردینا چاہئے۔

آپ کو معلوم ہوگاخاتون ویٹرنری ڈاکٹر پرینکاریڈی کو چند دن قبل عصمت دری کے بعدقتل کرکے کچھ ظالموں اور زانیوں نے آگ کے حوالے کر دیا تھا ، چار ملزین جے نوین ، کیشولو ،محمد عارف اور جولوشیوگرفتار کئے گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان کی یہ ہاٹ خبر بن گئی ، نربھیا قتل کی طرح لوگ ابل پڑے ، ہر کسی نے ملزین کو موت کے گھاٹ اتارنے کا مطالبہ کیا ، عدالت نے ملزین کو پولیس کی تحویل میں دس دن کے لئے سونپ دیا ، بقول پولیس کمشنر وی سی سجنار ۶ تاریخ کی شب جائے واردات پر تحقیق کے لئے ملزمین لے جائے گئے، اچانک ان خاطیوں نے پولیس پر سنگباری شروع کردی ، پولیس کی بندوق چھین کر پولیس عملے پر ہی پر حملہ شروع کردیا چنانچہ پولیس نے جوابی کارروائی کی اور چاروں ملزمین مارے گئے ،پولیس سے سوالات ہونے چاہئیں کہ جب ملزمین آپ کی تحویل میں تھے تو آپ نے یقینی کیوں نہیں بنایا کہ وہ حملے نہ کر سکیں ؟ بغیر ہتھکڑی لگائے کیوں لے کر گئے ؟۱۰ پولیس والوں سے زیادہ طاقتور اور ہمت والا ۲۰ سے ۲۶ سال کے چار نوجوان کیسے ہو گئے کہ ہتھیار چھین لئے ؟ بقول آپ کے وہ کہنہ مشق مجرم تھے پھر ان کی گولیوں سے کوئی پولیس والاکیوں نہیں مرا جبکہ آپ نے چاروں کو ما رڈالا ؟ پیر میں گولی مار کرملزین کو زندہ پکڑنے کی کیوں کوشش نہیں کی گئی ؟ انکاؤنٹر کا تبادلہ ۴۵:۴ سے ۱۵:۶ تک ہوا ، مطلب ڈیڑھ گھنٹے تک، آخر اتنی گولیاں مجرمین کے پاس کہاں سے آئیں ؟مارے جانے کے بعد گھنٹوں لاشیںکیوں پڑی رہیں ؟

اس انکاؤنٹر پر سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ اس سے پہلے بھی بہت سے انکاؤنٹر فرضی نکلے ہیں مثلاً:۲۰۰۹ میں غازی آباد کے رنبیر سنگھ کو دہرادون کے جنگل میں اتراکھنڈ پولیس نے انتیس گولیاں ماریں ، پولیس نے پھروتی کا الزام لگایا ،۹ سال بعد ۲۰۱۸ میں ثابت ہو کہ رنبیر بے گناہ تھا ، سات پولیس والوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ نومبر ۱۹۹۶ میں جلال الدین ، جسبیر ، اشوک اور پرویش کو مجرم بتا کر انکاؤنٹر کردیا گیا ، لواحقین غریب تھے تاہم کیس لڑے ، انکاؤنٹر فرضی پایاگیا ، سی بی آئی نے چار پولیس والوں کو مجرم قرار دیا ۔۱۹۹۲ میں پنجاب پولیس نے ایک پندرہ سالہ بچے کو یہ کہتے ہوئے مار دیا تھا کہ اس نے پولیس پر بیس منٹ تک گولیاں چلائی تھی ، یہ ان کاؤنٹر بھی فرضی نکلا ، دو پنجاب پولیس کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ، چھتیس گڑھ میں خونخوار نکسلی بتا کر بچوں تک انکاؤنٹرکردئے گئے ؛ یہ ہے انکاؤنٹر کا سچ ۔

حیدرآباد انکاؤنٹر پر خواتین کمیشن کی قومی صدر نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے : اختتام خوش کن ہے لیکن خاتمہ قانونی ہوتا تو اچھا ہوتا،، دہلی خواتین کمیشن کی صدر سواتی مالی وال نے مجرمین کے مارے جانے کی ستائش کی ہے، آج پھراناو کی ایک ابھاگن لڑکی جس کے ساتھ پہلے ریپ ہوا تھا ، جس کومجرمین نے جیل سے باہر آنے کے بعد نذر آتش کردیا تھا، وہ بھی زندگی کی جنگ ہار گئی ، ان کی بہن کا مطالبہ ہے کہ حیدرآباد کی طرح ہی میری بہن کے مجرمین کو مار دیا جائے ، یہ اس کے جذبات ہیں لیکن ملک جذبات سے نہیں چلتا ہے ، یقینا مجرمین کو روح فرسا سزا دی جانی چاہئے مگر قانون کے دائرے میں۔ اس طرح کے مطالبات اس لئے ہو رہے ہیں یا حیدرآباد کے واقعے پر اس لئے لوگ جشن منا رہے ہیں کہ سرکار مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ، ملک کا سسٹم اور قانون فیل ہو گیا ہے ،چانچ کا طریقہ اور فوجداری کا نظام فرسودہ اور بے کار ہو گیا ہے ،اگرکسی ہجوم کے فیصلے کو درست قرار دیا جائے اور ایک غیر قانونی عمل پر پولیس کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بعید نہیں کہ کل یہی پولیس آپ پر الزام لگا کر انکاؤنٹر کر دے گی ، اس وقت آپ کیا کریں گے ، انصاف کے لئے کہاں بھٹکیں گے ؟ اس لئے دل ، دماغ اور آنکھیں کھلی رکھئے ، جوشیلی بھیڑ کا حصہ مت بنئے ، سسٹم اور قانون سے سوالات کیجئے تب ہی آپ محفوظ رہ سکیں گے ۔میرا ماننا ہے اگر ملزمین زندہ ہوتے اورعدالت پھانسی کی سزا سناتی تو یقینا پورا ملک جشن مناتا ، پرینکا کے روح کو سکون ملتا لیکن پولیس کے عمل نے پرینکا کے انصاف کو ادھورا رکھ دیا ۔بھگوان انہیں کو شانتی دے ۔

[email protected]

You may also like

Leave a Comment