Home تجزیہ کیا پارٹی بدلنے سے سوچ اور ذہنیت بھی بدل جاتی ہے؟- جاوید اختر بھارتی

کیا پارٹی بدلنے سے سوچ اور ذہنیت بھی بدل جاتی ہے؟- جاوید اختر بھارتی

by قندیل

اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کا بگل بج گیا سبھی سیاسی پارٹیاں حرکت میں آگئیں اور سیاسی لیڈران اپنی اپنی سیاسی زمین ہموار کرنے میں مصروف ہوگئے پارٹیوں کے بدلنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اترپردیش کی کابینہ سے وزرا کے استعفیٰ دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ کابینہ سے مستعفی ہونے والے وزرا کا کہنا ہے کہ ہم نے یوگی آدتیہ ناتھ کی کابینہ میں وزیر رہ کر پوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا مگر ہمیں وہ عزت نہیں ملی جو ملنی چاہیے اور ساتھ ہی ریاست کے دلتوں، پچھڑوں، غریبوں، کسانوں، مزدوروں اور متوسط طبقے کے لوگوں کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا گیا اور ریزرویشن پر بھی بی جے پی کی نیت صاف نہیں ہے، اسی لئے ہم نے تنگ آکر استعفیٰ دیا ہے، اب ان وزرا کی بات میں کتنی سچائی ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بہت زیادہ ایسے بھی سیاسی لیڈران ہیں جنہیں عوام سے اور عوامی مسائل سے کوئی مطلب نہیں ہے، نہ تو وہ ملک کے مفاد میں الیکشن لڑتے ہیں اور نہ قوم کی خدمت کے لئے الیکشن لڑتے ہیں، بلکہ وہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے سیاست کرتے ہیں اور ذاتی مفاد کے لئے ہی الیکشن بھی لڑتے ہیں اور کامیابی کے بعد اقتدار کا مزا چکھتے ہیں اور اپنے کچھ خاص لوگوں کے ذریعے حالات حاضرہ کی نبض ٹٹول تے رہتے ہیں کہ اب کس پارٹی کی طرف عوامی رجحان بڑھ رہا ہے۔ جب پانچ سال پورا ہوجاتا ہے اور الیکشن کا اعلان ہوجاتاہے یا ہونے والا رہتا ہے تو وہ اپنی پارٹی کو خیر باد کہہ کر اس پارٹی کا دامن تھامتے ہیں جس پارٹی کی ہوا اور لہر ہوتی ہے-

سوامی پرساد موریہ کا بی ایس پی میں ایک وقت میں بڑا جلوہ تھا وہ اترپردیش میں بی ایس پی صدر ہوا کرتے تھے، مگر جب پارٹی کمزور ہونے لگی اور بی جے پی کی لہر دیکھی تو بی جے پی میں شامل ہوگئے اور یوگی آدتیہ ناتھ کی کابینہ میں وزیر بھی ہوئے، یہی حال دارا سنگھ چوہان کا بھی ہے، پارٹیوں کی لہر کو دیکھتے ہوئے پارٹی بدلنے میں ماہر ہیں، اگر واقعی ایسے لوگوں کے سینے میں ملک کا اور عوام کا درد ہوتا، تو جب عوام اپنے مسائل کو لے کر سڑک پر اترتی ہے، اس وقت حمایت کرنے اور ان کی باتوں کو سننے کے لئے دو قدم چل کر کیوں نہیں آتے؟ اگر پاور میں رہتے ہوئے غریبوں، کسانوں، بنکروں، مزدوروں اور متوسط طبقے کے لوگوں کی باتیں سنتے تو کچھ اور ہی بات ہوتی ، پانچ سال میں جتنی تحریکیں چلی ہیں ان تحریکوں کی حمایت میں استعفیٰ دیتے تو کچھ اور بات ہوتی، لیکن نہیں ایسا نہیں ہے، سچائی یہ ہے کہ انہیں بی جے پی کے ذریعے کامیابی دوبارہ ملنے میں شبہ ہورہاہے، اس لئے استعفیٰ دیے ہیں اب آنے والا وقت بتائے گا کہ ان کی کشتی دوبارہ پار لگتی ہے یا نہیں –

عوام کو بھی اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ بار بار پارٹیاں بدل رہے ہیں وہ ہمارے مفاد میں ایسا کررہے ہیں یا اپنے ذاتی مفاد میں ایسا کررہے ہیں، افسوس ہے کہ عوام کو یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہے بس ووٹ دینا جانتی ہے اور ووٹ دینے کے بعد پانچ سال تک رونا اور شکوہ کرنا جانتی ہے، جب وقت آتا ہے حساب لینے کاتو سب کچھ بھول جاتی ہے –

سیاسی لیڈران نے سیاست کا معیار اتنا گرادیا ہے کہ افسوس بھی ہوتا ہے اور غصہ بھی آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ شرم بھی آتی ہے کیونکہ جس سے جس کو محبت ہوتی ہے ، اس کی وہ ایک لمحے کے لئے بھی بے عزتی برداشت نہیں کرسکتا ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی بدلنے والے لیڈران نے پانچ سال تک دلتوں، پچھڑوں، غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کی بے عزتی کیسے برداشت کی اور کیوں برداشت کی ؟الیکشن کے وقت ہی کیوں استعفیٰ دیا اور الیکشن کے وقت ہی کیوں پارٹی چھوڑی اور دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ آگے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی بدل کر جس پارٹی میں شامل ہورہے ہیں، مان لیجئے اگر اس پارٹی کی حکومت میں بھی دلتوں، پچھڑوں، غریبوں، بے روزگاروں اور متوسط طبقے کے لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا، تو کیا اس پارٹی سے بھی فوری طور پر مستعفی ہوجائیں گے یا پانچ سال رہ کر پھر جب اسمبلی الیکشن کا اعلان ہوجائے گا تب پارٹی بدلیں گے یہ سوال اترپردیش کی عوام کے ذہنوں میں گھوم رہا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سوال کا جواب کوئی بھی سیاسی لیڈر نہیں دے گا-

عجیب حال ہے کہ پارٹی چھوڑتے ہی برائی شروع اور دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہی تعریف شروع، حد تو تب ہوجاتی ہے جب پارٹی اور پارٹی ہائی کمان کو خوش کرنے کے لئے ایسی ایسی باتیں بول دی جاتی ہیں کہ نہ کسی سماج کی پروا کی جاتی ہے اور نہ کسی برادری کی ۔ یہاں تک کہ مذہبی بنیاد پر بھی منافرت کا ماحول قائم کرنے سے بھی باز نہیں آتے، آج جو لوگ پارٹیاں بدل رہے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم  گنگا نہارہے ہیں اور پوتر ہوگئے ہیں تو ماضی میں دیے ان کے بیانات آج بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہیں ، اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پارٹی بدلنے سے سوچ اور نظریہ بھی بدل جاتا ہے؟

ان سیاسی لیڈران کے بہروپیے پن کی حوصلہ افزائی کے لئے عوام بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے اور شاید عوام کی نظروں میں بھی ایک پارٹی گنگا ہے تو ایک پارٹی واشنگ مشین ہے سب کچھ کرکے ایک پارٹی میں شمولیت اختیار کرلو تو لگتا ہے کہ گنگا نہاکر پاک و صاف ہوگئے اور جو دوسری پارٹی ہے تو اس میں شامل ہو جاؤ تو لگتا ہے کہ واشنگ مشین میں دھل گئے اور سارا داغ دھبہ ختم ہوگیا ۔ یہ نظریہ یہ سوچ ہندوستان کی دو سیاسی پارٹیوں کی ہے تو یہی سوچ اور نظریہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد رکھنے والی برادری کی بھی ہے، جس کا نظارہ ہر روز دیکھنے کو ملتا ہے، خود فیصلہ کن تعداد میں ہوکر اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے بس فلاں نے پارٹی بدل دی خوش،فلاں نے پارٹی بدل دی خوش،اتفاقاً کوئی پوچھ دے کہ آپ کے خوش ہونے کی وجہ؟ تو چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور تبصرہ ایسا کہ ایک کپ چائے میں اسمبلی و پارلیمنٹ انہیں نظر آتی ہے اور تبصرے کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ روزانہ جس کی چاہتے ہیں اس کی حکومت بنواتے ہیں اور جس کی چاہتے ہیں اس کی حکومت گرادیتے ہے، مگر افسوس صد افسوس کہ سب کچھ چائے کی چسکیوں تک محدود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ 13 فیصد ہوکر پورے اتر پردیش میں اس برادری کا موجودہ پنج سالہ حکومت میں صرف ایک ہی ایم ایل اے رہا –

 

You may also like

Leave a Comment