ترجمہ :نایاب حسن
(ہاروکی موراکامی (پ:1949) عالمی شہرت و مقبولیت کے حامل جاپانی ادیب اور فکشن نگار ہیں، اب تک ان کے تقریباً دو درجن ناول اور افسانوی مجموعے،جبکہ غیر افسانوی تحریروں کے بھی متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔وہ کم و بیش درجن بھر قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازے جاچکے ہیں۔ان کی کتابیں دنیا کی پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جاچکی ہیں ،جن کے کئی ملین نسخے فروخت ہوئے ہیں۔ ان کی چند کتابوں کا اردو میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے،جن میں South of the Border, West of the Sun(سرحد کے پار،سورج سے پرے،مترجم:ریحان اسلام)، Kafka on the Shore(کافکا برلبِ ساحل،مترجم:نجم الدین احمد)، Norwegian Wood(نغمۂ مرگ، مترجم: ڈاکٹر عبدالقیوم) اور ان کی منتخب کہانیوں کا ترجمہ’یک سنگھے‘(مترجم:قیصرنذیر خاور) قابل ذکر ہیں۔زیر نظر تحریر موراکامی کے مجموعۂ مضامین کے انگریزی ایڈیشن Novelist as a Vocation(ط:پینگوئن رینڈم ہاؤس 2022) سے ماخوذ و مترجَم ہے)
مجھے لگتا ہے کہ ناولوں پر گفتگو ایک نہایت وسیع اور گنجلک موضوع ہے، جس سے نمٹنا آسان نہیں ؛ اس لیے میں نسبتاً زیادہ خاص پہلو یعنی ناول نگاروں پر بات کروں گا، کہ وہ نظر آتے ہیں اور روز مرہ زندگی میں ہمارا ان سے واسطہ پڑتا ہے ؛چنانچہ ان سے تعامل آسان ہے۔
کچھ مستثنیات سے انکار نہیں، مگر جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے، زیادہ تر ناول نگار محبتی اور منصف مزاج نہیں ہوتے، ان کے اندر ایسی خصوصیات بھی نہیں پائی جاتیں کہ انھیں اچھا رول ماڈل سمجھا جائے، وہ خود پسندانہ اطوار کے حامل ہوتے ہیں اور ان کا طرزِ زندگی عجیب و غریب ہوتا ہے۔ تقریباً سبھی ناول نگار( میرے خیال میں 92 فیصد، جن میں خود میں بھی شامل ہوں) اس خوش فہمی میں جیتے ہیں کہ صرف ان کا اسلوبِ حیات و تخلیق درست ہے، باقی سارے غلط راہ پر ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ کم ہی لوگ ہوں گے ،جوان کے دوست یا پڑوسی بننا چاہیں گے۔
جب کبھی میں سنتا ہوں کہ دو ادیب اچھے دوست ہیں، تو میرے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مجھے ایسا ہونے سے انکار نہیں ہے، مگر ایسے لوگوں کے درمیان حقیقی قلبی دوستی زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتی؛ کیوں کہ ادیب اور تخلیق کار بنیادی طورپر انانیت پسند ، مفتخر اور انتہائی حد تک متنافسانہ جذبات رکھنے والی مخلوق ہوتے ہیں۔ اگر آپ دو بڑے ادیبوں کو کچھ دیر کے لیے ایک کمرے میں بند کردیں، تو اغلب ہے کہ نتیجہ توقع کے برخلاف ہی نکلے گا، آپ میری بات مانیں، میں کئی بار اس قسم کی صورت حال سے گزر چکا ہوں۔
اس کی مشہور مثال 1922 کی وہ ڈِنر پارٹی تھی، جس میں مارسل پروسٹ( 1871-1922) اور جیمس جوائس(1882-1941) بھی مدعو تھے، دونوں ایک دوسرے کے پاس ہی بیٹھے تھے، حاضرین بیسویں صدی کے ان دونوں عظیم ادیبوں کے فرموداتِ عالیہ سننے کے لیے اپنی سانسیں روکے کھڑے رہے، مگر انھوں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا؛ کیوں کہ ان کے درمیان کوئی گفتگو ہوئی ہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ دونوں کا جذبۂ خود پسندی ایک دوسرے پر کھُلنے کی راہ میں پہاڑ بن کر حائل ہوگیا۔
اس کے باوجود اگر بات استثنائی حالات کی ہو یا کسی خاص پیشے سے منسلک جماعتوں کی مجموعی جبلت کی ہو، تو مجھے لگتا ہے کہ ناول نگاروں سے زیادہ فیاض اورنوواردوں کو خوش آمدید کہنے کا والا کوئی اور قبیلہ نہیں ہے، ناول نگاروں میں بہت کم خوبیاں پائی جاتی ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے۔
میں اپنی گفتگو کا دائرہ مزیدمحدود کرتا ہوں۔
فرض کریں کہ ایک ناول نگار، جسے قدرت نے خوش گلوئی سے بھی نوازا ہے، وہ گلوکاری کے شعبے میں داخل ہوتا ہے یا ایک اچھا ناول نویس، جو ایک بہترین آرٹسٹ بھی ہے، وہ اپنی نقاشی کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یقین جانیں کہ اسے سخت مزاحمت؛ بلکہ تمسخر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ناقدین پورے شہر میں یہ کہتے پھریں گے کہ ’ اسے اپنے فن میں طبع آزمائی کرنا چاہیے‘ ،کچھ دوسرے لوگ کہیں گے کہ’ یہ ناقص پیش کش ہے، اس میں مہارت یا ہنر مندی کا فقدان ہے‘، جبکہ پیشہ ور گلوکار اور آرٹسٹس کندھے اُچکاکر آگے بڑھ جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے اس عمل پر منفی اور تہکمانہ تبصروں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے۔ بہر کیف، کسی بھی محاذ پر اسے اس قسم کا حوصلہ بخش جملہ سننے کو نہیں ملے گا کہ’ ہمارے کلب میں تمھارا استقبال ہے‘ اور اگر اس کا پرجوش استقبال کیا بھی جائے ، تو وہ بہت محدود پیمانے پر اور محدود دائرے میں ہوگا۔
میں خود اپنی مثال بیان کرتا ہوں۔ میں فکشن لکھنے کے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے امریکی ادب کے تراجم بھی کر رہا ہوں، مگر ابتدائی دنوں میں ( بلکہ شاید تاہنوز) پروفیشنل مترجمین کی جانب سے مجھ پر سخت تنقیدیں کی گئیں۔ کہا گیا کہ ’ادبی ترجمہ نگاری ہر کہہ و مہہ کے بس کی بات نہیں ہے‘۔ اور اس قسم کا شور برپا کیا گیا کہ’ جو تخلیق کار ترجمے میں اپنا ہاتھ آزماتے ہیں، وہ خود اپنے لیے بھی اور قارئین کے لیے بھی وبالِ جان بنتے ہیں‘۔
اسی طرح جب غیر افسانوی مضامین پر مشتمل میری کتاب Underground شائع ہوئی، تو غیر افسانوی ادیبوں نے مجھ پر شدید تنقیدیں کیں، کسی نے کہا کہ’ اس کتاب میں غیر افسانوی ادب لکھنے کے بنیادی اصولوں کی پاسداری نہیں کی گئی‘، کسی نے کہا کہ’ یہ اول درجے کی جذباتی کہانی معلوم ہوتی ہے‘ اور کسی نے کہا کہ’نہایت بچکانہ تحریریں ہیں‘؛حالاں کہ میں نے روایتی معنوں میں غیر افسانوی ادب نہیں لکھا تھا؛ بلکہ ایسی تحریریں لکھنے کی کوشش کی تھی، جو کسی بھی غیر افسانوی ادبی صنف کے تحت نہیں آتیں، اس کے باوجود میں نے ان شیروں کی دُم پر پاؤں رکھ دیا تھا، جو غیر افسانوی ادب کی بارگاہ کے محافظ ہیں؛ چنانچہ وہ غضب ناک ہوگئے۔ مجھے ان کا یا اس بات کا علم نہیں تھا کہ غیر افسانوی ادب لکھنے کے کچھ طے شدہ اصول ہیں؛ اسی وجہ سے اول وہلہ میں تو مجھے سخت حیرانی ہوئی۔
میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی شعبے کے متخصصین ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے، جو بھولے بھٹکے ان کے شعبے میں آجاتے ہیں۔ جس طرح خون کے سفید خلیے ہمارے جسموں کو بیرونی حملہ آوروں( مضرت رساں جراثیم) سے بچاتے ہیں، اسی طرح وہ لوگ اپنے شعبے کو نئے لوگوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ اس کے باوصف جو لوگ مسلسل اور بلا خوف اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، تو بالآخر مقتدرہ ان کے حال پر رحم کھاتی ہے اور ضمنا انھیں متعلقہ شعبے میں داخلہ مل جاتا ہے، گو کہ اول اول راہ خاصی مشکل ہوتی ہے۔ جو شعبہ جتنا زیادہ محدود اور متخصصانہ ہوتا ہے، اس کے اربابِ اقتدار اپنے تئیں اتنے ہی زیادہ مفتخر ہوتے ہیں اور نئے لوگوں کے حوالے سے ان میں جذبۂ تنافر اتنا ہی قوی ہوتا ہے۔
لیکن اگر معاملہ برعکس ہو، یعنی اگر گلوکار یا آرٹسٹ یا مترجمین ناول نگاربن جائیں ،تو کیا ہوتا ہے؟ کیا پیشہ ور ناول نگار ان کے تئیں کراہیت کا اظہار کرتے ہیں؟ میرا تجربہ ہے کہ نہیں؛ بلکہ اس کے برعکس وہ ان کی تخلیقات کو مثبت نظروں سے دیکھتے ہیں؛ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی مشہور ناول نگار نے کسی مبتدی تخلیق کار کو یہ کہہ کر پھٹکار لگائی ہو کہ’ تم نے کیا بکواس لکھا ہے؟‘، نہ میں نے کسی نئے ناول نگار کے بارے میں یہ سنا کہ اسے اپنے سے زیادہ تجربہ کار ناول نگاروں کی طرف سے کسی بدنیتی یا توہین و تمسخر کا شکار ہونا پڑا ہو؛ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے ادیب نئے لکھنے والے کو بلاتے ہیں، اس کی تخلیق پر گفتگو کرتے ہیں اور ممکن ہو تو رہنمائی کرنے کے ساتھ اس کی تحسین و تشجیع بھی کرتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سینئر ناول نگار مبتدی تخلیق کاروں کے بارے میں نجی مجلسوں میں بھی کوئی منفی بات نہیں کرتے، وہ تو خود اپنے ہم رتبہ ناول نگاروں کے بارے میں بھی ایسی باتیں کرتے ہیں اور اس قسم کی تنقیدیں ہر شعبے میں چلتی رہتی ہیں، مگر اس کا تعلق نئے لوگوں کو اپنے شعبے میں داخلے سے روکنے سے نہیں ہے۔ ناول نگاروں میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں، مگر یہ خامی ان میں نہیں پائی جاتی، عموماً وہ اپنے شعبے کے نوواردوں کا فیاضانہ استقبال کرتے ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ اس حوالے سے میری سوچ دلچسپ ہے۔ جو چیز ناول کو مختلف بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص محنت کرکے ناول لکھ سکتا ہے، جبکہ مثلاً پیانوبجانے یا رقص میں مہارت حاصل کرنے کے خواہش مند انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچپن سے ہی متعلقہ شعبے میں سخت ٹریننگ سے گزرے، تبھی وہ کماحقہ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکتا ہے، اسی طرح ایک آرٹسٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ موضوع پر کم از کم ضروری معلومات اور مہارتوں سے لیس ہو، جو آلات اور وسائل چاہئیں وہ تو علیحدہ ہیں۔ اسی طرح کوہ پیمائی کے لیے بہت زیادہ جسمانی قوت، ٹریننگ اور شجاعت چاہیے ہوگی،مگر اس کے برخلاف اگر ایک شخص ناول نگار بننے کا خواہاں ہے، تو اس کے اندر بس لکھنے کی بالقوہ صلاحیت ( جو اکثر انسانوں میں ہوتی ہے)،ایک قلم، کاپی اور کہانی کہنے کی ایسی استعداد کا ہونا کافی ہے، جو اس کہانی کو ناول میں بدل دے، بھلے اس نے اس کام کے لیے کوئی خاص تربیت لی ہو یا نہ لی ہو، کہ یہ اصل مقصد نہیں ہے۔ باضابطہ یونیورسٹی میں ادب پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر آپ نے تخلیقی ادب کو بہ طور نصابی موضوع پڑھا ہے، تو بھی اچھا ہے اور نہیں پڑھا، تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
ایک مبتدی تخلیق کار بھی اگر باصلاحیت ہے، تو وہ اچھا ناول لکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں نے جب ناول نگاری شروع کی تھی، تو میرے پاس اس کی کوئی تربیت نہیں تھی۔ یہ صحیح تھا کہ میں یونیورسٹی میں ڈراما اور سنیما کا طالب علم رہا تھا، مگر ان دنوں(ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں) شاذ و نادر ہی میں نے کلاسز کی تھیں، اس کی بجاے میں لمبے بال، پراگندہ ڈاڑھی اور گندے کپڑوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ ادیب بننے کا میرا کوئی منصوبہ نہیں تھا اور میں نے مشق کے طور پر بھی ان دنوں کچھ نہیں لکھا تھا، حتی کہ ایک دن اچانک مجھے کسی کیڑے نے کاٹا (آپ چاہیں تو ایسا کہہ سکتے ہیں) اور میں نے اپنا پہلا ناول Hear the Wind Sing لکھا،جسے نئے تخلیق کاروں کے لیے مخصوص ایک ادبی میگزین کا ایوارڈ بھی ملا۔ پھر میں بطور پیشہ لکھنے کی تربیت حاصل کیے بغیر ہی مسلسل لکھنے لگا۔ شروع میں اپنے اس عمل پر حیرانی ہوئی،پھر معمول بن گیا۔
میری اس بات پر بعض لوگوں کو غصہ آسکتا ہے، میں ان کی تند و تیز آواز سن رہا ہوں کہ’تمھیں ادب کے بارے میں کیا پتا ہے؟‘ ، مگر میں بھی وہی بتا رہا ہوں کہ ادب کیا ہے؟ نظریات گڑھنا الگ چیز ہے ؛لیکن اگر آپ معاملے کی تہہ میں جائیں، تو معلوم ہوگا کہ ناول کا فارم نہایت وسیع ہے اور یہی وسعت ہے ،جو اس کے اندر حیات پذیری کی حیرت ناک قوت پیدا کرتی ہے۔ میری نظر میں یہ بات کہ’ہرشخص ناول لکھ سکتا ہے‘ کوئی افواہ یا مبالغہ آمیز بیان نہیں؛ بلکہ تعریفی جملہ ہے۔
مختصر یہ کہ ناول نگاری کی دنیا ریسلنگ کے رِنگ جیسی ہے، جو ہر اس شخص کا استقبال کرتا ہے، جو اس رِنگ میں آنا چاہتا ہے۔ بس آپ کو رسیوں کے درمیان کا خلا پار کرنا ہے، پھر آپ بہ آسانی اندر داخل ہوسکتے ہیں، رِنگ وسیع و عریض ہے، کوئی محافظ آپ کی راہ نہیں روکے گا، نہ آپ پر چلائے گا نہ باہر نکلنے کو کہے گا ،جو پہلوان (سینئر فکشن نگار) رِنگ میں پہلے سے موجود ہیں، وہ بھی کم سے کم آپ کے وجود کو تسلیم کریں گے اور کہیں گے کہ ’گھبراؤ نہیں، آؤ اور اپنا دم خم دکھاؤ‘۔ ان کا رویہ ایسا ہی ہوگا؛ پرلطف، ہلکا پھلکا، دلچسپ اور کلیتاً پرسکون۔البتہ رِنگ میں داخل ہونا تو آسان ہے، مگر وہاں دیر تک ٹھہرپانا مشکل ہے، ہم ناول نگاروں کو اس کا اچھی طرح علم ہے؛ کیوں کہ ایک یا دو ناول لکھنا مشکل نہیں ہے؛ لیکن مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف رہنا اور تا حیات لکھتے رہنا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ یہ ایک مشقت آمیز مشغلہ ہےاور یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایسا کرنے والے بہت کم لوگ ہوتے ہیں، مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف رہنے کے لیے ایک تخلیق کار کو کچھ خْاص چاہیے ہوتا ہے، صلاحیت تو اہم ہے ہی؛ بلکہ ریڑھ کی ہڈی کے مثل ہے، قسمت کا بھی بڑا رول ہوتا ہے، مگر ایک اور چیز بھی ضروری ہوتی ہے، وہ مخصوص قسم کی اہلیت ہوتی ہے، بعضوں کے پاس یہ اہلیت ہوتی ہے اور بعضوں کے پاس نہیں ہوتی، بعضوں کے پاس یہ اہلیت پیدایشی ہوتی ہے اور بعض لوگ اس کے حصول میں پوری زندگی کھپا دیتے ہیں۔اس اہلیت کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے، اس کا عوامی سطح پر کبھی ذکر بھی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظوں کے ذریعے اسے بیان کرنا یا اس کی تصویر کشی بہت مشکل ہے۔البتہ ناول نگار اس کی اہمیت کو خوب جانتے اور اپنے پیشے کی بقا کے لیے اس کی ضرورت کو بھی سمجھتے ہیں، وہ اپنے اندرون میں اسے محسوس کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اسی وجہ سے سینئر ناول نگار رِنگ میں آنے والے نئے ناول نگاروں کے تئیں غیر معمولی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ چنانچہ ان میں سے کوئی نہ کوئی تو نئے آنے والے کا کھلے دل سے ضرور استقبال کرتا ہے، بھلے بقیہ لوگ اس نووارد کے تئیں بےگانگی کا رویہ اختیار کریں اور اگر کسی نووارد کو غیر رسمی طورپر باہر نکال دیا جاتا ہے یا وہ خود رضاکارانہ طورپر رِنگ سے باہر ہوجاتا ہے(اور اکثر نئے ناول نگار ایسا ہی کرتے ہیں) تو پرانے ناول نگار کہتے ہیں’بیٹے! مجھے آپ کے باہر ہونے کا افسوس ہے‘ یا ’اپنا خیال رکھنا‘، اس کے برعکس اگر کوئی دیر تک میدان میں جما رہتا ہے، تو وہ اپنے لیے عزت و احترام حاصل کرلیتا ہے۔
ایک دوسرا سبب بھی ہے، جس کی وجہ سے پرانے ناول نگار مبتدیوں کے تئیں فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ادبی اور تخلیقی سرگرمی ایسا کھیل نہیں ہے، جس کا نتیجہ کبھی صفر بھی ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں کہیں تو رِنگ میں نئے ادیب و تخلیق کار کی آمد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو ادیب پہلے سے رِنگ میں موجود ہے، اسے باہر نکلنا ہوگا۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیبوں کی دنیا اور ایتھلیٹس کی دنیا کلیتاً مختلف ہے؛ کیوں کہ پیشہ ورانہ کھیلوں میں جب ٹیم میں کوئی نیا کھلاڑی آتا ہے، تو پرانے کھلاڑی کو یا اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرپانے والے نئے کھلاڑی کو رخصتی کے کاغذات تھما دیے جاتے ہیں یا اسے بنچ کے بالکل کنارے جگہ ملتی ہے، جبکہ ادبی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کسی نئے ناول کے ایک لاکھ نسخے فروخت ہوتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے ناولوں کی فروخت کی شرح اس کے حصے میں چلی گئی ہے؛ بلکہ اس کے برعکس اگر کسی نئے ادیب کی کتاب بہت زیادہ فروخت ہوتی ہے، تو اس سے نشر و اشاعت کے پورے شعبے میں اُچھال آجاتا ہے۔ ساتھ ہی اگر ہم دور رس نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو پائیں گے کہ اس میں قدرتی انتخاب کا عمل بھی کام کرتا ہے؛ کیوں کہ بعض دفعہ رِنگ تو وسیع ہوتا ہے، مگر وہاں اچھے اور مثالی ادیبوں کی بھی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ کم سے کم میرا یہ ماننا ہے۔
میں گزشتہ 35 سے زائد برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں ایک پروفیشنل ناول نگار کی زندگی گزار رہا ہوں، یہ سارا عرصہ میں نے رِنگ میں گزارا ہے،قدیم محاورہ استعمال کریں تو میری زندگی سراسر ’قلمی زندگی‘ ہے، اسے محدود معنوں میں ایک کارنامہ بھی کہا جاسکتا ہے۔اس طویل عرصے میں ، میں نے بہت سے ادیبوں کو ابھرتے ہوئے دیکھا، ان میں سے بعضوں کی تخلیقات سراہی گئیں، انھیں ناقدین کی تحسین بھی حاصل ہوئی، مختلف ادبی اعزازات بھی انھیں ملے، عوامی سطح پر بھی وہ موضوعِ گفتگو بنے ،ان کی کتابیں بھی خوب فروخت ہوئیں، لوگوں کو ان کا مستقبل روشن نظر آنے لگا، دوسرے لفظوں میں کہیں ، تو وہ روشنی میں نہائے ہوئے، شور و نغمے کے جلو میں رِنگ میں داخل ہوئے؛لیکن ذرا غور کیجیے کہ جو لوگ بیس یا تیس سال قبل میدانِ تخلیق میں دھوم دھام سے آئے تھے، کیا وہ اب بھی سرگرم ہیں؟تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بہت کم لوگ اب بھی سرگرمِ تخلیق ہیں، باقی سارے رفتہ رفتہ میدان سے غائب ہوگئے، بیشتر تو ناول نگاری سے اوب گئے یا اسے بھاری پتھر جان کر چھوڑ دیا اور دوسرے شعبوں سے منسلک ہوگئے؛ لیکن ان کے شروعاتی ناولوں کو جو غیر معمولی پذیرائی ملی تھی، ان کا کیا بنا ؟ وہ اب آپ کو شاید و باید ہی کسی مکتبے پر نظر آئیں، یہی وجہ ہے کہ ناول نگاروں اور تخلیق کاروں کی امکانی تعداد گرچہ بے شمار ہوسکتی ہے، مگر بک شیلف پر طویل زندگی کم ہی تخلیق کاروں کے حصے میں آتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ نہایت ذہین لوگ بہ طور خاص ناول نگاری کی اہلیت نہیں رکھتے،حالاں کہ اچھی تخلیق کے لیے ایک خاص مقدار میں ذہانت، تعلیم اور جانکاریوں سے لیس ہونا ضروری ہے، میں خود بھی ان تمام شعبوں میں بالکل کورا نہیں ہوں(کم از کم میں تو ایسا ہی سوچتا ہوں) ؛ لیکن نہایت تیز دماغ اور بے انتہا ذی علم انسان ناول نگار نہیں بن سکتا،اس کی وجہ یہ ہے کہ ناول نگاری یا قصہ گوئی ایک ایسا عمل ہے، جس میں رفتار آہستگی سے سرعت کی طرف بڑھتی ہے، یہ کہیے کہ یہ رفتار پیدل چلنے سے تیز اور سائیکل سوار کی رفتار سے کم ہوتی ہے۔ ایک انسان کے عقلی عمل کی بنیادی رفتار اس تناسب کے مطابق کارکردگی کو ممکن یا ناممکن بناتی ہے۔اکثروبیشتر، ناول نگار اپنے شعور میں موجود کسی چیز کو قصے میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے باوجود پہلے سے جو چیز موجود ہوتی ہے اس میں اور ناول نگار کے ذریعے تخلیق کردہ نئی چیز میں یقینی طورپر ایک خلا پایا جاتا ہے، یہی خلا ایسی حرکیات کو جنم دیتا ہے، جنھیں وہ اپنے بیانیے کی تشکیل کے وسیلے کے طورپر استعمال کرتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے اور بہت وقت طلب بھی ہے۔
جس شخص کے پیغام کی ساخت شفاف ہے، اسے اس پیغام کو قصہ بنانے کے لیے ان مراحل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اسے بس افکار کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا ہے،یہ عمل تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچے گا اور قارئین تک اس کی ترسیل بھی بہ آسانی کی جاسکے گی۔ اس طرح جس پیغام یا خیال کو ناول کا روپ دینے میں چھ مہینے لگ سکتے تھے، وہ اگر ناول نگار کے پاس مائکروفون ہے اور ذہن میں وارد ہونے والے خیال کو وہ اسی شکل میں بول سکتا ہے، تو محض تین دنوں یا دس منٹ میں یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔ تیزی سے سوچنے والے ادیب ایسا کرسکتے ہیں۔ عام انسان گھٹنے ٹیک دے گا اور یہ سوچ کر حیران ہوگا کہ مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟ ، الغرض کسی ادیب یا تخلیق کار کے اسمارٹ ہونے کا مطلب یہی ہے۔ اسی طرح جو شخص وسیع المعلومات ہے ،اسے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ناول جیسے مبہم و مشتبہ ظرف کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے،نہ اسے خیالی زمان و مکان خلق کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے بس اپنی معلومات کو معقول طریقے سے منظم کرنا ہے، الفاظ کے سانچے میں ڈھالنا ہےاور قارئین و ناظرین کے سامنے پیش کردینا ہے۔
میرا خیال ہے کہ انھی اسباب کی بناپر بہت سے ناقدین کو بعض ناول یا افسانے کے سمجھنے میں پریشانی ہوتی ہے اور اگر سمجھ لیں،تو اس کی مؤثر لفظی تعبیر ان کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ یہ ناقدین عموماً ان ناول نگاروں سے زیادہ اسمارٹ ہوتے ہیں، جن کی تخلیقات کا وہ تجزیہ کررہے ہیں،جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ذہن زیادہ تیز چلتا ہے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی وہ سست رفتار سواری یعنی ناول کے ساتھ چل نہیں پاتے،نتیجتا ًوہ متن کی رفتار کی تعبیر اُس رفتار میں کرتے ہیں، جو ان کے لیے فطری ہے اور پھر اسی کے مطابق اپنی تنقیدی رائے قائم کرتے ہیں،بعض متون میں تو یہ طریقہ چل سکتا ہے، مگر سارے متون کے ساتھ یہ طریقہ کارگر نہیں ہوگا۔اس وقت صورت حال اور بھی مشکل ہوجاتی ہے جب زیر بحث متن ’سست رو‘ ہونے کے ساتھ ذوجہات اور پیچیدہ ہوتا ہے،ایسی صورت میں ان ناقدین کی تعبیر متن کو کوئی اور رخ دے دیتی اور اس کی اَصالت کو مجروح کردیتی ہے۔
میں نے بہت سے اسمارٹ اور تیز دماغ لوگوں کو دیکھا ہے(جن میں سے کئی ادب کی بجاے دوسرے شعبوں سے تھے) جنھوں نے ایک یا دو ناول لکھنے کے بعد دوسرے شعبوں کا رخ کرلیا۔ حالاں کہ ان میں سے کئیوں کے ناول شاندار اور خوب صورت تھے، کئی نے تو اپنا نیا اسلوب ایجاد کیا تھا، پھر بھی ان میں سے بہت کم رِنگ میں ٹھہرسکے۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے بس ناول نگاری کے پیشے کا ذائقہ چکھا اور پھر چلتے بنے۔ان کے رنگ میں زیادہ نہ ٹک پانے کی ایک اور وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص جس کے پاس ٹھیک ٹھاک ادبی صلاحیت ہے، وہ ایک ناول تو بہ آسانی شائع کر سکتا ہے، مگر زیادہ نہیں یا ایک بہت ذہین شخص کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اسے کماحقہ اپنی محنت کا صلہ نہ ملے۔ ایسے لکھاری بسااوقات ایک یا دو ناولوں کے بعد ہی کہنے لگتے ہیں کہ’ بس اب نہیں‘ اور اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کسی ایسے شعبے کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں، جہاں وہ اپنا وقت اور انرجی مفید کاموں میں صرف کرسکتے ہیں۔
میں ان احساسات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ناول نگاری فی الحقیقت ایک غیر مؤثر عمل ہے، کہ یہ مفروضات و امثال کی تکرار سے عبارت ہوتا ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ آپ ایک خاص موضوع کو برتنا چاہتے ہیں؛چنانچہ اسے ایک مختلف سیاق میں منتقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں’مثال کے طورپر معاملہ یوں ہوگا‘، یہ انتقالِ موضوع یا سیاق کی تشکیلِ نو مکمل نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کے اجزا غیر واضح اور مبہم ہیں۔ پھر آپ نیا طرزِ بیان اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں’ میں آپ کو دوسری مثال دیتا ہوں‘ ، ممکن ہے کہ عبارت سازی اور تمثیل کا یہ سلسلہ یوں ہی لا الیٰ نہایہ چلتا رہے، اس روسی گڑیے کی طرح ، جسے آپ بار بار کھولتے ہیں اور ہربار اس میں سے ایک نئی چھوٹی سی گڑیا نکل آتی ہے۔ اس سے زیادہ پیچیدہ اور کارِ بے ہنری کچھ اور ہوسکتا ہے؟ اگر کسی موضوع کو شروع سے ہی وضاحت اور معقولیت کے ساتھ برتنا ممکن ہو،تو مثالوں کے تسلسل والے اس بورنگ عمل کی کیا ضرورت ہے۔ اس عمل کو بیان کرنے کا انتہا پسندانہ طریقہ اور ناول نگاروں کی تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو بہرحال ایک غیر ضروری عمل کے درپے ہوتی ہے۔
اس کے باوجود ناول نگار یہ سوچتا ہے کہ حقیقت اور سچائی اس غیر ضروری اور پیچیدہ عمل میں پیوست ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ تصنع لگے گا، مگر ناول نگار اسی یقین کے ساتھ ناول لکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ ناول ایک غیر ضروری شی ہے، جبکہ دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہیں، جن کا ماننا ہے کہ ناول نہایت ضروری شی ہے۔ یہ سب دراصل اس زمانی مسافت پر موقوف ہے، جسے آپ اختیار کرتے ہیں اور اس فریم ورک پر جس کے ذریعے آپ چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ مزید دقت نظری کا مظاہرہ کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہماری دنیا ذو جہات ہے اور پیچیدہ و ناکارہ اسالیب والی دنیا اسمارٹ اور ہنرمند دنیا کا دوسرا پہلو ہے اور اگر ان میں سے ایک پہلو نہ رہے(یا ایک دوسرے پر غالب آجائے) تو اس کی صورت بگڑ جائے گی۔
میرے خیال میں ناول نگاری بنیادی طورپر ایک مطلقا خشک عمل ہے، مجھے اس میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ ناول نگار اپنے کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوتا ہے، لفظوں کی ادھیڑ بن میں مصروف رہتا ہے ، ایک کے بعد دوسرے لفظی وواقعاتی احتمالات و امکانات کی جستجو میں مغزماری کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک اچھی سطر لکھنے میں پورے دن سر کھپاتا ہے۔ اتنا سب کرنے کے باوجود کوئی اس کی تحسین کرنے والا، پذیرائی کرنے والا اور پیٹھ تھپتھپانے والا نہیں ہوتا، وہ تنہا بیٹھ کر اپنے لکھے ہوئے کا باربار جائزہ لیتا اور خود ہی سرہلاکر خوش ہو لیتا ہے، بعد میں جب ناول شائع ہوتا ہے،تو کسی قاری کا ذہن اس اسلوب یا عبارت میں کی گئی اس اصلاح کی طرف نہیں جاتا، جو اس نے دن بھر کی دیدہ ریزی کے بعد کی تھی۔ یہی ناول نگاری کی حقیقت ہے، یہ حد درجہ تھکادینے والا اور وقت طلب عمل ہے۔
میری رائے میں ناول نگاروں اور ان لوگوں میں یک گونہ قدر مشترک ہے، جو سال بھر یا اس سے بھی زیادہ لمبی چمٹی کی مدد سے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کو شیشوں میں بند کرتا ہے، میں تو کبھی ایسا نہیں کرسکتا؛ کیوں کہ میری انگلیاں اس حد تک ہنر مند نہیں ہیں، مگر ان کا اور ہمارا عمل بڑی حد تک مشابہ معلوم ہوتا ہے۔ ہم یکے بعد دیگرے بہت سے ایام بند دروازے کے پیچھے نہایت پیچیدہ عمل میں مصروف ہونے کی حالت میں گزارتے ہیں، مگر یہ عمل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اور اگر آپ اس قسم کے تھکادینے والے عمل اور اس کے لوازمات کے لیے تیار نہیں ہیں، تو آپ زیادہ دن اس عمل میں مصروف نہیں رہ سکتے۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں ایسے دو آدمیوں کی کہانی بیان کی گئی تھی، جو’فوجی‘ پہاڑ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے نکلے تھے، ان میں سے کسی نے کبھی وہ پہاڑ دیکھا نہیں تھا۔ ان میں جو ذہین تھا، وہ پہاڑ کی ضخامت و حقیقت کا اندازہ اس کی ڈھلوان سے ہی لگالیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ہے مشہور فوجی پہاڑ، مجھے پتا چل گیا کہ اس کے اوصاف کیا ہیں، پھر وہ خوشی خوشی اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ نہایت کارگر اور آسان ہے، مگر جو کم ذہین ہے، وہ مسئلے کو اس طرح نہیں سمجھ سکتا؛ اس لیے وہ رک جاتا ہے اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں کافی وقت اور محنت صرف ہوتی ہے، حتی کہ وہ بالکل ہلکان اور بے دم ہوجاتا ہے اور اپنے جی میں کہتا ہے’ اوہ، یہ ہے فوجی پہاڑ‘ اور اس طرح وہ اس پہاڑ کو پوری طرح یا ناقص انداز میں سمجھ پاتا ہے۔بیشتر ناول نگار اس دوسرے شخص جیسا بننا چاہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں کہیں تو زیادہ احمق بننا چاہتے ہیں۔ وہ سب اس شخص کے مانند ہیں جو فوجی پہاڑ کی حقیقت جانے کے لیے اس پر چڑھنا چاہتا ہے یا بغیر اس کی حقیقت سمجھے ہی بار بار اس پہاڑ پر چڑھنا چاہتے ہیں یا وہ جتنی زیادہ مرتبہ اس پر چڑھیں گے، اتنا ہی اس کی سمجھ کم ہوتی جائے گی۔ یہی ان کی اہلیت ہے،بہرحال ایک اسمارٹ انسان اس قسم کا عمل تو نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کسی دوسرے شعبے کا کوئی شخص ناول لکھتا ہے ،اس کے ناول کو ناقدین اور قارئین پسند کرتے ہیں، حتی کہ وہ بیسٹ سیلر ہوجاتا ہے، تو بھی پروفیشنل ناول نگار اسے اپنے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتا یا اس پر غصہ نہیں ہوتا؛ کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے تخلیق کار زیادہ دن نہیں ٹکتے۔ ذہین لوگ اپنی خاص سرعت کے مطابق کام کرتے ہیں، دانش وروں کی اپنی رفتار ہوتی ہے اور اسکالرز کی اپنی روش ہوتی ہے، مگر ان میں سے کوئی بھی طویل عرصے تک ناول نگاری کی روایتی رفتار سے ہم آہنگ نہیں رہ سکتا۔ بلاشبہ کہنہ مشق ادیبوں میں بھی اسمارٹ شخصیات پائی جاتی ہیں، ان میں سے بعض بلا کے ذہین بھی ہوتے ہیں؛مگر یہ فطری ذہانت سے اوپر کی چیز ہوتی ہے اور یہ بھی ناولانہ ذہانت ہے۔ اس قسم کی صورتحال میں بھی میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس کی ایک حد ہوتی ہے، آسان لفظوں میں کہیں تو ایک ناول نگار کی اعلیٰ ترین تخلیقی صلاحیت کی مدت دس سال ہوتی ہے۔ اس نقطے پر پہنچنے کے بعد وہ ذہانت ایک بڑی اور دائمی قابلیت میں بدل جاتی ہے، بہ الفاظ دگر استرے کی دھارٹنگاری اور پھر کلہاڑی کی دھار میں بدل جاتی ہے۔ جو ناول نگار ان مراحل سے بخیر و خوبی گزر جاتا ہے وہ نہایت اعلی مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اکثر تو ایسی شخصیت بن جاتا ہے کہ اس کی تخلیقات اس کے زمانے سے آگے بڑھ جاتی ہیں، مگر جو ان مراحل سے کماحقہ نہیں گزرتا، جلد ہی اس کا چراغ کجلا جاتا اور اس کے ستارے غروب ہوجاتے ہیں یا اسے ایسی جگہ مل جاتی ہے، جہاں وہ زیادہ ٹک کر رہ سکتا ہے، جہاں اس کی زندگی پر سکون ہوتی ہے، ایسی جگہ جو اسمارٹ لوگوں کے لائق ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے میں ان تمام لوگوں کا احترام کرتا ہوں ، جو سالہا سال بغیر تھکے لکھتے رہتے ہیں۔ یہ تو ہے کہ میں اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کی وجہ سے ان کی بعض تخلیقات کو پسند کرتا ہوں اور بعض کو نہیں؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ بطور پروفیشنل ناول نگار طویل عرصے تک ادبی دنیا میں موجود رہیں، اسی طرح وہ اس لمبے سفر میں اپنے خاص قارئین کا حلقہ بھی بنالیتے ہیں،جس سے مجھے پتا چلتا ہے کہ وہ بہت مضبوط قوتِ ارادی اور ایسے داخلی جذبات کے حامل ہیں، جو انھیں تخلیق پر ابھارتے ہیں،ان کی لگن اور مستقل مزاجی انھیں اس لائق بناتی ہے کہ وہ گھنٹوں تن تنہا تخلیقی عمل میں مصروف رہیں، میرا خیال ہے کہ ایک پروفیشنل ناول نگار میں یہی اہلیتیں مطلوب ہیں۔ایک ناول ، حتی کہ بہت اچھا ناول لکھنا بھی کچھ مشکل نہیں ہے، مشکل یہ ہے کہ سال در سال انسان ناول لکھتا رہے، یہ ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے اور اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے بتایا، ناول نگاروں میں کچھ خاص اہلیتوں کا ہونا ضروری ہے، جو ناول لکھنے کی روایتی قابلیت سے قطعاً مختلف ہیں۔
تو آپ اپنے اندر موجود ناول نگاری کی اہلیت کا اکتشاف کیسے کریں گے؟ اس کا صرف ایک جواب ہے: یہ کہ آپ پانی میں چھلانگ لگائیں اور دیکھیں کہ ڈوبتے ہیں یا تیرتے ہیں، مجھے پتا ہے کہ آپ کو میری یہ بات احمقانہ لگے گی؛ لیکن اگر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ زندگی اسی کا نام ہے۔ آج جو لوگ ناول نگار ہیں، انھوں نے اضطراراً ہی لکھنا شروع کیا تھا ، اب وہ مسلسل لکھ رہے ہیں اور میں ان کا ہم پیشہ ہونے کی حیثیت سے کھلی بانہوں ان کا استقبال کرتا ہوں ۔