Home تجزیہ کیا مودی سرکار واقعی عوام کے سامنے جھک گئی؟

کیا مودی سرکار واقعی عوام کے سامنے جھک گئی؟

by قندیل

 

عبدالعزیز
پروردگارِ عالم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’سی اے اے، این آر سی‘ اور ’این پی آر‘ جیسے کالے قانون کے خلاف ملک بھر میں جو تحریک جاری ہے اس کی وجہ سے نریندر مودی جیسی آمریت پسند سرکار ایک حد تک جھکنے پر مجبور ہوئی ہے۔ پہلے قانون ساز ایوانوں سے باہر مختلف قسم کی باتیں مختلف اوقات میں مودی اور شاہ نے کہی ہیں۔ دونوں کی باتوں میں بھی بڑا فرق رہا۔ دروغ گوئی اور غلط بیانی سے بھی کام لینے کی کوشش کی گئی۔ بے حیائی اور ڈھٹائی کی حد تک اس معاملے میں مظاہرہ ہوا لیکن چند دنوں پہلے وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا کے اندر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ’این پی آر‘ یعنی آبادی والے رجسٹر کیلئے معلومات جمع کرتے وقت کاغذات نہیں مانگے جائیں گے اور نہ ہی کسی کو مشکوک (Doubtfull)ٹھہرایا جائے گا۔ بات اگرچہ زبانی کہی گئی مگر راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ کی طرف سے اپنی پہلے کی باتوں سے الگ ہٹ کر باتیں کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ راجیہ سبھا میں اس کا ریکارڈ ہوتا ہے اور سرکار اس بیان سے مکر نہیں سکتی اورنہ ہی کہہ سکتی ہے کہ سرکار کے کسی وزیر نے اس طرح کا بیان نہیں دیا ہے۔ اس لئے پبلک کیلئے یہ ایک سند ہے۔ ا س کے باوجود چونکہ سرکار نہ صرف آمریت کے اصولوں پر عمل کرتی ہے بلکہ منافقانہ طرز عمل بھی اس کا رہا ہے، اس لئے کلی طور پر امیت شاہ جیسے شخص کے بیان پر بھروسہ یا یقین نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ضرور ہوا ہے کہ حکومت اس معاملے میں جھکی ہے اور دوسرے راستے پر چلنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ یونہی نہیں ہوا ہے بلکہ امت مسلمہ کے نڈر،بے باک اور حق گو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی غیر معمولی قربانیوں سے ہوا ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اس کالے قانون کو بدلنے کیلئے اپنی جانی و مالی قربانی پیش کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کو قبول کیا۔ ایسے ہی بندگانِ خدا کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ ”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں“۔ (سورہ بقرہ:154)
مفکر اسلام، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے قرآن کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام
جو کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اُس پر حرام
غیر مسلم بھائیوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے قربانیاں پیش کی ہیں یقینا اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو کسی طرح بھی رد نہیں کرے گا۔ اس کی رحمت کی بارش ان پر ہوگی اور ان کو بھی جاودانی عطا فرمائے گا۔
آج بھی 300 سے زائد جگہوں پر خواتین تحریک کو زندہ رکھے ہوئی ہیں اور کالے قانون کے خلاف دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور ایسے وقت میں بھی وہ متزلزل نہیں ہوئی ہیں جبکہ ساری دنیا پر ’کورونا وائرس‘ جیسی مہلک بیماری کا حملہ ہے۔ اس حملے سے بھی ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر بھی ان کے پاؤں میں کوئی لرزش نہیں آئی ہے۔ استقامت اور استقلال کے ساتھ کالے قانون کے مکمل خاتمے کیلئے اللہ کو یاد کرتے ہوئے اس کی نصرت اور مدد کی طلب گار ہیں۔ اللہ کی طرف سے ان کو سرخروئی اور کامیابی ملنے لگی ہے۔ امید یہ بھی ہے کہ چند دنوں میں ان کا مطالبہ پورا ہوجائے گا۔ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک تحریری طور پر حکومت کی طرف سے ’این آر سی‘ اور ’این پی آر‘کے بارے میں نہ دیا جائے کہ آبادی رجسٹر کیلئے معلومات حاصل کرتے وقت سرکاری عملہ کسی قسم کا کاغذ طلب نہیں کریں گے اور نہ ہی فارم پر ان کو Doubtfull(مشکوک) لکھنے کا حق ہوگا۔
گزشتہ روز (14 مارچ) ہندستان کی دو بڑی معروف تنظیموں کا دہلی کے پریس کلب میں پریس کانفرنس ہوئی جس میں اعلان کیا گیا کہ جب تک حکومت لکھ کر نہیں دے گی ’این پی آر‘ کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران ’سوراج ابھیان‘ (Swaraj Abhiyan)کے قومی سربراہ یوگیندر یادو نے کہا کہ اگر یہ قانون سختی سے نافذ نہیں ہوگا تو امیت شاہ کو لکھ کر دینے میں کیا پریشانی ہے!
واضح رہے کہ راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ این پی آر میں کسی کو بھی ’ڈی‘ یعنی ڈاؤٹ فل (مشکوک) نہیں سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایوان میں سب کے سامنے یہ کہہ رہے ہیں۔ اس پر ایوان میں موجود ارکان نے کہا کہ وزیر داخلہ اگر تحریری طور پر یہ یقین دہائی کریں گے تو سب مطمئن ہوں جائیں گے اور تمام مظاہرے بھی بند ہو جائین گے۔این این پی آر کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے والی تمام بڑی تنظیموں نے وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ انہوں نے راجیہ سبھا میں جو کچھ کہا ہے، اسے لکھ دیں، یعنی 2003ء کے قواعد میں ترمیم کریں۔ آپ کی طرح خود ترمیم کریں گے، ہم اسی دن این پی آر بائیکاٹ کا اعلان واپس لیں گے۔پریس کانفرنس میں موجود تمام گروپوں کی جانب سے کہا گیا کہ وزیر داخلہ نے جو بات راجیہ سبھا میں کہی ہے اسے لکھ کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 2003ء کے اصول و ضوابط میں ترمیم کرے، جوں ہی ترمیم ہوگی اسی دن این آئی آر کے بائیکاٹ کا اعلان واپس لے لیا جائے گا۔
پریس کانفرنس کے دوران مسٹر یوگیندر یادو نے کہا ”حکومت کو 2003ء کے شہریت قانون کے ضابطہ 7 (2) اور 17 میں تبدیلی کرنا چاہئے تاکہ این پی آر کو معلومات فراہم نہ کرنے والوں کو سزا نہ دی جائے“۔ انہوں نے کہا ”جیسے ہی حکومت ان ترامیم پر عمل درآمد کرتی ہے تو این پی آر کا بائیکاٹ واپس لے لیا جائے گا۔ تاہم شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی کے خلاف احتجاج جاری رہے گا“۔
پریس کانفرنس میں موجود سماجی کارکن مسٹر ہرش مندر نے مظاہرین کے مطالبے کو جائز ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا ”ہم نے این پی آر کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے کیونکہ یہ این آر سی کی جانب پہلا قدم ہے۔ ہم این پی آر اور مردم شماری کو جوڑنے کے بھی خلاف ہیں۔ حکومت 2003ء کے شہریت کے قانون میں ترمیم کرے تاکہ مشکوک شہریوں والی شق کا خاتمہ ہو سکے۔ جب تک حکومت قانون میں ترمیم نہیں کرتی، ہم احتجاج کرتے رہیں گے اور این پی آر کا بائیکاٹ کریں گے“۔
پریس کانفرنس سے کئے گئے مطالبات:
سٹیزن شپ رول 2003ء کی شق 3، 4، 5، 17، 18 میں تحریری طور پر ترمیم کریں اور مشکوک بنائے جانے کا اختیار ختم کریں۔
این پی آر کو این آر سی اور مردم شماری سے الگ کیا جائے۔
این پی آر کو رضاکارانہ کہا جارہا ہے لہٰذا اس کا فارم نا بھرنے پر ہر طرح کی سزا کی بات کو ختم کیا جائے۔
پریس کانفرنس میں مشترکہ طور پر کہا گیا کہ اگر تحریری طور پر ترامیم نہیں کی جاتی تو این پی آر کا بائیکاٹ جاری تھا اور رہے گا۔
پریس کانفرنس سے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری نیاز احمد فاروقی، امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی، مولانا توقیر رضا خان بریلوی، جمعیت اہلحدیث کے سکریٹری،یوگیندر یادو،ہرش مندر،مجتبیٰ فاروق اور ندیم خان وغیرہ نے پریس کانفرنس کو خطاب کیا۔
یہ کانفرنس دو بڑی تنظیموں کی طرف سے ہوئی تھی "Alliance Against CAA, NPR, NRC” اور "We The People of India”۔ پہلی تنظیم کے کنوینر مشہور سماجی کارکن اور دانشورمسٹر روی نائر ہیں اور دوسری تنظیم کے کنوینر مشہور و معروف سماجی کارکن اور سیاسی دانشور مسٹر یوگیندر یادو ہیں۔ اس کانفرنس میں مسلمانوں کی مشہور و معروف تنظیموں کے سربراہان بھی شامل تھے۔ ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر کے دانشوروں، سماجی کارکنوں کی یہ کانفرنس نہایت معتبر، قابل اعتماد ہے۔ اس کی طرف سے جو اعلان ہوا ہے اس اعلان کا خیر مقدم سارے لوگ کریں گے جو کالے قانون کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت جو کالے قانون کے خلاف تحریک چل رہی ہے اس سے نہ بات کرنے کیلئے تیار تھی اور نہ ہی جھکنے کیلئے تیار تھی لیکن اب تسلیم کرلیا ہے کہ بغیر جھکے کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس کی تین بڑی وجہیں ہیں۔ پہلی وجہ یہ تحریک ہے جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ اس نے کتنا مثالی کارنامہ انجام دیا ہے جو تاریخ کا ایک باب بن چکا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ایوان کے اندر اور باہر نہایت مضبوطی کے ساتھ اس کالے قانون کی زبردست مخالفت کی۔ کانگریس کی سربراہی میں 19 پارٹیوں نے اس قانون کے خلاف قرار داد پاس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کالے قانون کو رد کردیا جائے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کا گھیراؤ جس طرح کیا اس سے یقینا حکومت پر اثر پڑا۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں کی حکومتوں نے نہ صرف کالے قانون کی مخالفت کی بلکہ اسمبلیوں میں ’این پی آر‘ اور ’این آرسی‘ کے خلاف قرار داد منظور کی کہ وہ اپنی ریاستوں میں این پی آر اور این آر سی کو نافذ نہیں کرے گی۔ سب سے پہلے مغربی بنگال حکومت نے اعلان کیا کہ این پی آر اوراین آر سی نافذ نہیں ہوگا۔ کیرالہ کی حکومت نے نہ صرف اعلان کیا بلکہ متفقہ طور پر اسمبلی میں کالے قانون کے خلاف قرار داد منظور کی۔ اب بہت سی ریاستوں نے اسمبلی میں قرار داد منظور کی ہیں۔ اس میں کیرالہ، مغربی بنگال، پنجاب، تلنگانہ، آندھرا پردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، تاملناڈو اور دہلی نے قرار داد منظور کرنے میں شامل ہیں۔ بہار جہاں ملی جلی سرکار ہے جس میں بی جے پی بھی شامل ہے بہار کی سرکار نے بھی اسمبلی میں قرار داد پاس کی کہ 2020ء کے این پی آر کو نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ 2010ء کا این پی آر نافذ العمل ہوگا۔ بہار کی اسمبلی میں قرارداد پاس ہونے سے ہی مرکزی حکومت کے جھکاؤ کا اشارہ مل چکا تھا کیونکہ بغیر مودی کی منظوری کے بی جے پی بہار کی اسمبلی میں قرار داد کی منظوری سے اتفاق نہیں کرسکتی تھی۔ یہ وہ دروازہ تھا جسے بی جے پی نے کھول دیا اور یہ اشارہ کردیا کہ دیر سویر مرکزی سرکار بھی اسی طرح کی کارروائی کسی نہ کسی شکل میں کرے گی۔ راجیہ سبھا میں امیت شاہ کا بیان اسی کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔
شاہین باغ دہلی کے ذکر کے بغیر تحریک کسی بھی اسٹیج پر مکمل نہیں ہوگی۔ کالے قانون کے خلاف دھرنے کی شروعات سے شاہین باغ سے ہوئی۔ شاہین باغ تحریک کی علامت بن گئی۔ دہلی کے اسمبلی الیکشن میں شاہین باغ سب سے بڑا مدعا رہا۔ وزیر اعظم نے اس تحریک کو "Discredit” (بدنام) کرنے کیلئے کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو کپڑے سے پہچانا جاسکتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، سیلم پور، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طرف سے جو لوگ تحریک چلا رہے ہیں یہ لوگ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ امیت شاہ کی شاہین باغ کو کرنٹ لگنے والی بات ہر کوئی جانتا ہے۔ انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور کپل مشرا کے بدنام زمانہ نعرے اور بیانات سے شاید ہی کوئی ہوگا جو واقف نہیں ہوگا۔ ان سب کے شرمناک بیانات کے باوجود شاہین باغ کی عورتوں کا پر امن طریقے سے دھرنے پر جمے رہنا بہت بڑی بات کہی جاسکتی ہے۔ مختصراً یہ ہے کہ تحریک ستر فیصد کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ انشاء اللہ مکمل کامیابی بھی آج نہیں تو کل ضرور حاصل ہوجائے گی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment