معاون اڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی
مدارس کے سروے پر تنازع کے درمیان مختار عباس نقوی نے کہا کہ ہمیں تمام مدارس پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی جانب سے جیسے ہی اس پر اعتراض کیا گیا تو دوسری جانب سے یہ مفروضہ کھڑا کیا گیا کہ: سروے پر ہنگامہ کرنا خود ہی سوال بن جاتا ہے، جب چھپانے کے لیے کچھ نہیں تو شور کیوں؟
ایسا کر کے مختار عباس نقوی نے یہ پیغام دیا ہے کہ تمام مدارس کو شک کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ مطلب بہت سے مدارس ایسے بھی ہوں گے جو شک کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتے ۔ یعنی کچھ مدارس شکوک و شبہات کی زد میں ہیں، یہ مدارس کی تقسیم کی سیاست ہے اور یہ کام پارٹی کا مسلم چہرہ کر رہا ہے۔
اسی وقت، سنگھ کے سربراہ ایک بڑے امام صاحب تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ پیغام دینے کی کوشش کر تے ہیں کہ بی جے پی تمام اماموں کی مخالف نہیں ہے – یہ اماموں کی تقسیم کی سیاست ہے اور یہ کام سنگھ بی جے پی کے لیے کر رہا ہے۔ اور تب ہی تقسیم کی سیاست کے بیچ میں حکومت کی انٹری ہوتی ہے۔ امیت شاہ سیمانچل پہنچ گئے، جس کے لیے پہلے سے ہی ماحول بنا ہوا ہے۔ حکومت کی انسداد دہشت گردی کی تحقیقاتی ایجنسی نے پی ایف آئی پر بڑی کارروائی کی ۔ بی جے پی کا بڑا ووٹ بینک خوش ہو جاتا ہے۔ حکومت ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر رہی ہے۔
اب مختار عباس نقوی کے مدارس کے بارے میں بیان کو مسلم کمیونٹی سے جوڑ کر دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں – آپ کو صاف اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح بی جے پی کے ووٹ بینک کو مختلف طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مختار عباس نقوی جو وضاحت کر رہے ہیں، اس کے بعد موہن بھاگوت اور امت شاہ بھی وہی وضاحت کر رہے ہیں، صرف طریقہ کار مختلف ہے۔
اگر آپ مختار عباس نقوی کے مدرسہ کی لائن سے تینوں لیڈروں کی حکمت عملی کو سمجھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ہر فرد کو شک کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ یعنی کچھ ایسے بھی ضرور ہیں جو شک کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ مطلب، کچھ یقینی طور پر شک کے دائرے میں ہیں – اور پھر بی جے پی کے ووٹروں کے سامنے گانا گونجتا ہے۔ سن رہا ہے نہ تو ۔۔۔۔۔۔ ؟
آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ ڈاکٹر عمر احمد الیاسی کے بارے میں کچھ باتیں جاننا بھی ضروری ہے، جو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی تعریف میں قصیدہ پڑھتے ہیں۔ جب ملک بھر میں CAA-NRC کو لے کر مظاہرے ہو رہے تھے، الیاسی نے ایک بیان جاری کیا اور مسلم کمیونٹی سے اپیل کی کہ پہلے وہ دونوں قوانین کو اچھی طرح سمجھ لیں اور اس کے بعد بھی اگر کچھ غلط ہو تو پرامن احتجاج کریں۔ الیاسی پہلے ہی موہن بھاگوت سے مل چکے ہیں – اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا ہے۔
اب یوپی انتخابات کے دوران بی ایس پی کی گٹھ جوڑ سے متعلق امیت شاہ کے بیان کو یاد کریں۔ جب بی جے پی نے محسوس کیا کہ متحدہ مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی کے حق میں گر رہا ہے تو اس نے مسلمانوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ نہ صرف اکھلیش یادو بلکہ مایاوتی کے پاس بھی ایک متبادل ہے۔
جیسے ہی یوپی اسمبلی انتخابات میں نتائج دیکھنے کو ملے، اعظم گڑھ ضمنی انتخاب کا معاملہ بھی سامنے آگیا۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں شکست کی وجہ مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن کو سمجھا تھا، مایاوتی بنگال کی مثال بھی دیتی ہیں کہ مسلمان متحد ہوں تو بی جے پی ہار جاتی ہے، لیکن اعظم گڑھ میں مسلم ووٹوں کو تقسیم کرکے بی جے پی کا راستہ آسان ہوجاتا ہے۔
اب یہ بات آسانی سے سمجھ لینی چاہیے کہ تینوں موہن بھاگوت، مختار عباس نقوی اور امت شاہ اپنے اپنے طریقے سے مسلم ووٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بعد ہی بی جے پی کو فائدہ ہو گا۔ بہار میں بی جے پی کو حکومت سے آؤٹ کرنے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے یہ تگ و دو کافی تیز ہوگئی ہے کہ ۲۰۲۴ کے انتخابات کو متحدہ طور پر لڑا جائے، یہ چیز سنگھ اور حزب اقتدار کے لیے باعث تشویش بن گئی ہے۔ ایسی صورت میں مسلم ووٹ تو پہلے ہی سے ان کے ساتھ نہیں تھا اب ہندو روایتی ووٹروں کا ایک بڑا طبقہ ادھر جاتا دکھ رہا ہے اس لیے مسلم ووٹروں کو تقسیم کرکے تھوڑا سا توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔