۱؍اپریل۲۰۲۴ کو دو اسرائیلی فوجی جہازوں نے شام کی راجدھانی دمشق میں ایرانی سفارت پر حملہ کر کے نہ صرف بلڈنگ کو تباہ کیا بلکہ ۱۲؍ایرانی افسروں کو بھی قتل کیا جن میں جنرل محمد رضا زاہدی شامل تھے جو شام اور لبنان میں ایرانی فوجوں کے کمانڈر تھے۔ ہر سفارت خانہ اپنے ملک کی سرزمین کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے کسی سفارت خانے پر حملہ اس ملک پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ یوں اسرائیل نے براہ راست ایران پر حملہ کیا ہے۔
اس سے پہلے امریکا نے ایران کےقدس بریگیڈ کے قائد جنرل قاسم سلیمانی کو اسی طرح کے ایک حملے میں بغداد ایئرپورٹ پر ۳؍جنوری۲۰۲۰ کو قتل کردیا تھا، اس کے بعد ایران اور اس کی مؤید عراقی ملیشیا نے علاقے میں امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کیا تھا لیکن باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔
اس غیر معمولی اقدام سے اسرائیل کے کئی مقاصد ہیں:
وہ غزہ میں اپنی ہار کو چھپانے بلکہ اس ہار کو کامیابی میں بدلنے کے لیے ایک بڑی علاقائی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے جس میں لامحالہ اس کی تائید میں امریکا بھی شامل ہوجائے گا اور اس بہانے ایران پر حملہ کیا جائے گا اور بالخصوص اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کر دیا جائے گا ۔ یہ اسرائیل کی دیرینہ خواہش ہے حالانکہ اسرائیل خود عرصۂ دراز سے ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ حاصل ہونے پر اسرائیل اعلان کرے گا کہ وہ جنگ جیت گیا ہے۔
سفارت خانے پر اس حملے سے اسرائیل دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا واقعی ایران لڑنے کو تیار ہے۔اسرائیل چاہتا ہے کہ اس کے خلاف جو عناصر فی الحال بر سر پیکار ہیں یعنی حماس، حزب اللہ، انصاراللہ اور عراقی ملیشیا، ان سب کے اصل مؤید یعنی ایران کو نشانہ بنایا جائے۔
اسرائیل کے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے بعد صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اسرائیل خود ایران کے اندر فوجی تنصیبات پر حملہ کرے۔برسوں سے دھمکیوں کے باوجود یہ ابتک نہیں ہوسکا ہے۔
اسرائیل چاہتا ہے کہ اپنی ناقابل تسخیریت deterrence کا جو بھرم اس نے قائم کر رکھا تھا کہ وہ اکیلے سارے عرب ممالک پر بھاری ہے، وہ اسے دوبارہ فوجی حملے کے ذریعے حاصل ہو جائے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب امریکہ اس کی جنگ میں شریک ہوجائے اور جنگ اس کی واضح فتح پر ختم ہو۔
اسرائیل کا یہ حملہ مشرق وسطی میں سب فرقاء کے لیے پیغام ہے کہ اسرائیل کسی حد تک جا سکتا ہے۔ کیونکہ سفارت خانوں پر حملہ کرنا واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ ویینا کنونشن کے مطابق ہر سفارت خانہ اپنے ملک کی زمین کا حصہ ہوتا ہے ، مقامی حکومت اس کے اندر دخل اندازی نہیں کرسکتی ہے۔ ایسے عمل سے دو ملکوں کے درمیان بآسانی جنگ چھڑ سکتی ہے یا کم ازکم تعلقات منقطع ہو سکتے ہیں ۔ چند روز قبل اکواڈور کی پولیس اپنے ملک میں مکسیکو کے سفارت خانے کے اندر زبردستی گھسی جس کے بعد مکسیکو نے اکواڈور سے سفارتی تعلقات توڑ لیے۔
سفارت خانے پر حملے کے رد عمل کے طور پر ضروری نہیں کہ ایران تقلیدی طور سے اس کا جواب دے۔ ایرانی نظام خودکشی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ حالات پر نظر رکھ کر قابل عمل ایکشن پلان بناتا ہے۔اسلامی انقلاب کے بعد ایران۔عراق جنگ ہوئی بلکہ صحیح معنوں میں ایران پر صدام حسین نے حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد یہ جنگ ستمبر ۱۹۸۰ سے اگلے نو سال تک چلتی رہی لیکن جب ۳ جولائی ۱۹۸۸ کو امریکہ نے دبی جانے والی ایک ایرانی فلائٹ پر راکٹ سے حملہ کیا تو امام خمینی نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیا کیونکہ امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے کا مطلب ایران کی مکمل تباہی تھی۔ اس فیصلے کو امام خمینی نے ’’زہر کا پیالہ‘‘ پینے سے تشبیہ دی تھی۔
اب امکان اسی بات کا ہے کہ خود جواب نہ دے کر ایران اپنی مؤید تنظیموں کے ذریعے اسرائیل کو جواب دے گا خصوصاً حزب اللہ کے ذریعے۔۲۰۱۸ میں ایران نے اسرائیلی مقبوضہ گولان پر راکٹ سے حملہ کیا تھا۔
اسرائیل نے بارہا ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے پہلے وہ عراقی ایٹمی تنصیبات کو ۱۹۸۱ میں اور شام کی ایٹمی تنصیبات کو ۲۰۰۷ میں تباہ کر چکا ہے۔ ۲۰۱۰ میں اسرائیل نے ایران کے پانچ ایٹمی سائنسدانوں کو ہلاک کیا۔ اس سے پہلے وہ عراقی اور مصری ایٹمی سائنسدانوں کو بھی قتل کرچکا ہے۔
غزہ میں ہارنے کی وجہ سے عرب ممالک کے اوپر اسرائیلی دبدبہ ختم ہو چکا ہے۔ اب ایک نئی صورت حال پیدا ہو چکی ہے جس میں اسرائیل کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔ اب جو اسرائیل کر سکتا ہے وہ عرب ممالک بھی کرسکتے ہیں۔ اگر چھوٹا سا غزہ اسرائیلی غنڈے کا چھہ ماہ سے مقابلہ کرسکتا ہے تو دوسرے بھی کرسکتے ہیں۔ اس نئے توازن میں ایران کا رول مرکزی ہو گا۔ علاقے کی مختلف طاقتوں کا غزہ کے ساتھ یکجہتی میں اسرائیل کا مقابلہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ایران اکیلا نہیں ہے بلکہ علاقے میں اس کے ساتھ کئی قابل اعتماد ساتھی موجود ہیں۔
۷؍اکتوبر کے بعد مشرق وسطی میں ایک نیا توازن پیدا ہوچکا ہے۔ اس نئی حقیقت کو اسرائیل کی دھمکیاں اور غنڈہ گردی بدل نہیں سکتی ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)