شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
سنگ زاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلور سے پاؤں والے
کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
کیسے موسم تھے وہ پرشور ہواؤں والے
تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے
ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن
خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے