این ڈی ٹی وی پر سوربھ شکلا نامی صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سابق بھارتی سفارت کار (جو فلسطین میں بھارت کے سفیر رہ چکے ہیں) نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جب اسرائیل اور یاسر عرفات کے درمیان اوسلو میں امن سمجھوتہ ہوا تھا ۔اس سمجھوتے میں اسرائیل اور فلسطین دو آزاد اور خودمختار ریاست ساتھ ساتھ امن سے رہیں گے کی بات تسلیم کی گئی تھی، لیکن اسرائیل اور فلسطین کے امن معاہدہ ہوتے ہی غزہ میں انتفاضہ تحریک شروع ہو گئی اور پہلی بار اس انتقاضہ تحریک میں دنیا کے ممالک کو حماس نامی تنظیم کا پتہ چلا تھا۔فلسطین میں موجود اس وقت کے سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حماس تنظیم کو کھڑا کرنے کا کام اسرائیل نے کیا ہے کیونکہ اسرائیل کو فلسطینی یعنی یاسر عرفات نے ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لیا تھا اور اب باری اسرائیل کی تھی کہ ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر فلسطین کو تسلیم کیا جائے لیکن اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون اور موساد کے ذریعے غزہ پٹی میں ایک پر امن مزاحمتی تحریک شروع کروا دی گئی،جو اسرائیل کے وجود پر سوال کھڑا کر رہی تھی ۔حالانکہ امن معاہدہ کے تحت اسرائیل کو 1967 کی جنگ سے پہلے کی پوزیشن میں جانا ہے اور شمالی یروشلم فلسطین کی راجدھانی ہونی ہے۔غزہ میں حماس کی قیادت میں انتفاضہ تحریک شروع ہو جانے سے اسرائیل نے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ فلسطینی ایک آزاد اور خودمختار اسرائیل کے وجود کو مانتا ہی نہیں ہے ۔ایسے میں غرب اردن اور غزہ کی انتظامیہ فلسطین کو دی جاتی ہے لیکن پولس اور فوج رکھنے کی اجازت فلسطین اتھارٹی کو نہیں دی جا سکتی ہے اور نہیں دی گئی ۔اوسلو سمجھوتہ 1993 میں ہوا تھا ۔سوویت یونین 1990 تک بکھر چکا تھا اور امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بن چکا تھا۔ بھارتی سفارت کار نے یہ نہیں بتایا کہ کب حماس اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی بات مانتے مانتے فلسطینیوں کی جائز نمائندگی کرنے لگا یا بھارتی سفارت کار یہ تو نہیں کہہ رہے کہ اس بار بھی اسرائیل پر حماس نے حملہ کیا ہے وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اشارے پر ہی کیا ہے ،کیونکہ اسرائیل کے اندر وزیر اعظم نیتن یاہو کمزور ہو چکے ہیں اور اُنہیں سرکار چلانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہو رہا تھا ۔اسرائیل میں نیتن یاہو سرکار کے خلاف ہر ہفتے کے روز لاکھوں افراد سڑکوں پر مظاہرہ کرنے پر مجبور تھے ،چونکہ اسرائیل نے نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔وزیر اعظم خود بد عنوانی کے الزام سے گھرے ہوئے ہیں ۔نیتن یاہو سرکار کے خلاف جو مظاہرے ہو رہے تھے، ان میں اسرائیل کے لاکھوں ریزرو فوجی بھی شامل ہوا کرتے تھے ۔لیکن حماس کے حملے کے بعد ان ریزرو فوجیوں کو ملک کے دفاع میں شامل ہونے کو کہا گیا ہے اور وہ فوجی شامل بھی ہو گئے ہیں ،اور غزہ پر حملے میں اپنا حصہ دے رہے ہیں ۔
بھارتی سفارت کار کی بات صحیح بھی مان لی جائے تو حماس تب متحرک دیکھا جاتا ہے جب اسرائیل اور ایران کے مفاد ٹکراتے نظر آتے ہیں ۔اس میں شک نہیں ہے کہ ایران خلیج فارس میں امریکہ کی موجودگی برداشت نہیں کر پا رہا ہے ۔شیعہ اور سنی کے نام پر امریکہ اس خطّے میں عربوں کو آپس میں لڑانے کا کام کرتا رہا ہے ۔تاکہ اسرائیل کی بربریت پر کسی کی نظر نہیں جائے۔اسرائیل اور امریکہ نے مل کر شام میں خانہ جنگی شروع کرائی تھی شام میں لاکھوں افراد مارے گئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے در بدر ہوئے۔ایران کے لیے شام کی اسد حکومت کو بچانا ضروری تھا اور اس نے روس کو اس جنگ میں شامل کر کے اسد حکومت کو تو بچا لیا لیکن امریکہ نےروس کو یوکرین میں پھنسا دیا ۔حالانکہ ایران یہ بات کبھی قبول نہیں کرتا کہ شام کے ذریعے ایران لبنان میں حزب اللہ اور حماس کو ہتھیار پہنچاتا رہا ہے اور دونوں تنظیمیں ایران کی فرنٹ تنظیم کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اسرائیل پر حالیہ حملہ ایران کے فوجی کمانڈر خالد سلیمانی کے عراق میں قتل اور شام کی خانہ جنگی سے جوڑ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
خلیجی ممالک امریکہ سے خوف کھا کر ایسے موقع پر مصلحت سے کام لیتے تھے ۔لیکن ایرانی صدر کی سعودی پرنس کو تحفظ کی یقین دہانی کے بعد سبھی خلیجی ممالک غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر حملے کی کھل کر مذمت کی ہے ۔یہاں تک کہ سعودی پرنس نے امریکی وزیر خارجہ کے سامنے فلسطینیوں کے حق میں اپنی بات رکھنے میں پش و پیش نہیں کی ۔
اسرائیل کے لیے غزہ میں زمینی حملہ کرنا مشکل لگ رہا ہے اور اگر حملہ ہوا تو یہ جنگ کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح جنگ کا خاتمہ اس کے وقار کے ساتھ ہو۔یہ تب ممکن ہے جب حماس یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کو بنا شرط رہا کر دے ،لیکن یہ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے ؛کیونکہ حماس بھی چاہے گا کہ اسرائیل کی جیلوں میں بند سبھی فلسطینیوں کو اسرائیل رہا کر دے ۔البتہ اتنا تو طے ہے کہ اسرائیل حماس سے جنگ بند ہو جانے کے بعد بھی شام یا ایران میں کچھ ایسی کاروائی ضرور کرے گا جس سے مغربی ایشیا میں اپنا خوف پھر سے قائم کر سکے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارہ قندیل کا ان سے اتفاق ضروری نہیں)