Home تجزیہ کیا کورونا وائرس سے جنگ ہم اس طرح لڑیں گے؟

کیا کورونا وائرس سے جنگ ہم اس طرح لڑیں گے؟

by قندیل

شکیل رشید(ایڈیٹرممبئی اردونیوز)
مجھے دفاع نہیں کرنا ہے۔
تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی اور ان کے رفقاء نے نادانی بھی کی، لاپروائی بھی برتی، وہ’مجرم‘ ہیں۔ اور ان کے ’جرم‘ کو ’سنگین‘ کہا جا رہا ہے اسی لیے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے کارروائی شروع کردی گئی ہے ۔ قانون حرکت میں آگیا ہے انہیں جو سزا ملنی ہوگی، اور ملنی چاہیے، وہ ملے گی ۔لیکن ایک سوال اس تعلق سے ضروری ہے، بھلے اس سوال کا کوئی جواب نہ دے؛ کیا یہ کہنا کہ تبلیغی جماعت کے ذمےداران ’کورونا جہاد‘ کر رہے تھے، وہ اس ملک میں ’کورونا وائرس‘ پھیلا رہے تھے لہٰذا وہ ’غداران وطن‘ ہیں، صحیح ہے؟ اس سوال پر ہم آگے غور کریں گے فی الحال ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم سب عوام وخواص، امیروغریب، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پنڈت، سورن، دلت، دیوبندی، بریلوی، شیعہ، پترکار، صحافی، جرنلسٹ، موحدین، ملحدین، ایم پی حضرات، ممبران اسمبلی، سیاستدان، سی ایم کیجریوال، پی ایم نریندر دامودر مودی ’مجرم‘ نہیں ہیں؟ کیا ہم سب نے اپنے اعمال و افعال اور اپنی حرکتوں، اپنے اقدامات و احکامات سے سارے بھارت کو خطرے میں نہیں ڈال دیا ہے؟
ملک میں جنوری کے آخری مہینے میں کورونا وائرس کا مریض پایا جاتا ہے اور چین کے حالات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ’وباء‘ آس پاس ہی نہیں ساری دنیا میں پھیل سکتی ہے ۔مگر ہمارے ملک کے ارباب حل و عقد بھی اور عوام و خواص اور امیر و غریب بھی اپنے حال میں مست اور مگن رہتے ہیں ۔ہماری مرکزی وزارت صحت 13 مارچ کو باقاعدہ یہ اعلان کرتی ہے کہ ’’میڈیکل ایمرجنسی جیسی کوئی بات نہیں ہے‘‘ جبکہ کورونا وائرس کے اثرات ساری دنیا پر پڑنے شروع ہو چکے ہیں، لوگ مر رہے ہیں اور بڑی بڑی طاقتیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہیں!! ہمارے وزیراعظم مودی فروری کے مہینے میں اس ’وباء‘ سے بے پروا امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی میزبانی کا فریضہ نبھا رہے ہیں، احمدآباد کے اسٹیڈیم کولاکھوں افراد سےبھر دیتے ہیں ۔اس بھیڑ میں ’غیرملکی‘ بھی ہوتے ہیں!! آج احمدآباد ملک میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری ’کووڈ 19‘ کا ایک مرکز بن گیا ہے ۔گجرات میں سب سے زیادہ اموات یہیں ہو رہی ہیں اور ریاست میں سب سے زیادہ مریض بھی احمدآباد ہی میں ہیں ۔اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پی ایم مودی، ٹرمپ یا وہ بھیڑ جو اسٹیڈیم میں جمع تھی، یا وہ غیرملکی جو اس وقت وہاں موجود تھے؟ شاید اس سوال کا جواب بھی یہ دے دیا جائے کہ اس کی ذمہ دار بھی تبلیغی جماعت ہے! یہ جواب اس لیے ممکن ہے کہ اس ملک کے حکمراں اسی طرح کا جواب چاہتے ہیں ۔اور انہوں نے اپنے پروپیگنڈے سے عوام کو کچھ اس طرح سے ’ہپنا ٹائز‘ کر دیا ہے کہ عوام سے ایسے جواب کی ہی توقع ہے ۔
کیا یہ سوال آج نہیں اٹھنا چاہئے کہ جب جنوری ہی میں کورونا وائرس کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تھا تب پی ایم مودی کو اس کے سد باب کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ٹرمپ کی میزبانی کی فکر کیوں تھی؟ پی ایم مودی کی کورونا وائرس وباء کے تعلق سے بےحسی، لاپروائی اور بے فکری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس پر پہلی بار عوام کے درمیان زبان؛ 19 مارچ کو کھولی جب انہوں نے جنتا سے یہ اپیل کی کہ 22 مارچ کو ایک دن کا ’جنتا کرفیو‘ لگایا جائے گا وہ اس میں تعاون کریں ۔اور شام کے 5بجے تالی یا تھالی یا سنکھ بجا کر اس وائرس کے خلاف جنگ لڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں ۔حالانکہ 13 مارچ کو ان کی وزارت صحت یہ اعلان کر چکی تھی کہ ’’ میڈیکل ایمرجنسی جیسی کوئی بات نہیں ہے‘‘ اور اس اعلان کے بعد دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال حکم امتناعی لگا چکے تھے، مہاراشٹر میں وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے 31 مارچ تک کے لیے ’لاک ڈاون‘ کا اعلان کر دیا تھا ۔گویا یہ کہ ریاستیں چوکنا ہوچکی تھیں، احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی تھیں جن میں سب سے اہم احتیاط ایک دوسرے سے دوری بنانے کی تھی، مگر ہمارے پی ایم تالی اور تھالی کا اعلان کر کے لوگوں کو جیسے یہ آزادی دے رہے تھے کہ وہ جشن منائیں!! اور یہی ہوا، خوب تالیاں، تھالیاں اور سنکھ بجے، لوگوں نے باقاعدہ ڈھول تاشے بجائے ۔سڑکوں پر، بالخصوص گجرات کی، جشن کا سماں تھا، لوگ جمع تھے، گربا ناچ رہے تھے ۔ساری ’سماجی دوری‘ غارت ہو کر رہ گئی!! اور پھر جو ہونا تھا وہی ہوا۔یہ سوال اٹھے گا کہ جو ہجوم سڑکوں پر جمع ہوا تھا کیا اس میں ’کووڈ 19‘ کا کوئی مریض نہیں تھا؟ اگر نہیں تھا تو گجرات میں تیزی سے کورونا وائرس کی وباء کیوں پھیل رہی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ پی ایم نے 22 مارچ کو ’جنتا کرفیو‘ کے اعلان کے بعد، جس طرح اچانک کسی کو بھی، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی اعتبار میں لیےبغیر ’نوٹ بندی‘ کا اعلان کیا تھا ’دیش بندی‘ کا اعلان کر دیا۔ کسی تیاری کے بغیر شب میں 8 بجے اعلان کیا اور رات کے 12 بجے سے ’دیش بندی‘ لاگو کر دی ۔یہ غریبوں کا دیش ہے، مزدوروں کا دیش ہے، یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کا دیش ہے، یہ نوکری چاکری کرنے والوں کا دیش ہے، ٹھیلے لگانے، سڑکوں پر سونے والوں اور بھکاریوں کا دیش ہے، ظاہر ہے چار گھنٹے کی مدت میں 21 دنوں کی ’دیش بندی‘ کے لیے سامان جٹانا یا اپنے عارضی ٹھکانوں سے اپنے اپنے گاوؤں کو جانا ممکن نہیں تھا، ریلیں، بسیں اور ہوائی جہاز جب بند ہوں، گاڑیاں سڑکوں پر نہ دوڑ رہی ہوں، تب زندگی کس قدر سونی اور اجڑی لگتی ہے اور کیسی بے بسی طاری ہوتی ہے اس کا آج ساری دنیا کو خوب اندازہ ہے ۔مگر وہ جو بےگھر و در و ٹھکانہ تھے انہیں تو ہر حال میں اپنے گھروں کو جانا تھا۔ایک خوف تھا کہ وہ کیا کریں گے، سب نے، ان کے سیٹھوں حکمرانوں نے انہیں مرنے کے لیے سڑکوں پر ڈھکیل دیا تھا، انہوں نے اپنے بچوں، ضعیفوں اور گھر والیوں کو کندھوں پر بٹھایا، کچھ دہلی کے آنند وہار پہنچے کچھ کہیں اور ۔یوپی سرکار اور کیجریوال سرکار دونوں نے بسوں کے انتظام کا اعلان کر رکھا تھا، پر بسیں ندارد تھیں، پھر لوگوں کے پیدل قافلے، یوپی، بہار، پنجاب اور ایم پی وغیرہ کی طرف چل پڑے ۔یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔یہ راستے میں کہیں دل کے دورے سے اور کہیں سڑک حادثے میں مرے ۔خودکشی بھی کی۔زیادہ تر بھوک سے مرے ۔یہ لوٹے گئے، پولس کے ہاتھوں بے رحمی سے پیٹے گئے ۔مودی سرکار کا یہ ’غریب دشمن‘ چہرہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا ہے، یہ چہرہ بار بار سامنے آیا ہے اور اگر مودی سرکار رہی تو پھر سامنے آئے گا ۔کون ہے مزدوروں اور غریبوں کی اس درگت کا ذمہ دار؟ سپریم کورٹ میں مودی سرکار کے وکیل تشار مہتا نے کہا ہے کہ یہ جو لوگ پیدل گئے ہیں ان میں 30 فیصد کورونا وائرس متاثرین ہو سکتے ہیں! یہ کتنا بڑا فیصد ہے! یہ اپنے گاوؤں میں جب پھیلیں گے تو کتنوں ہی کو متاثر کریں گے،لاکھوں کو! ان میں سے نہ جانے کتنے مریں گے، بھلا یہ جو لاشیں بچھیں گی (اللہ نہ کرے) ان کا وزن کس کے کندھوں پر ہوگا؟ مودی اور کیجریوال سرکار کی بے حسی اور لاپروائی اس کا سب سے بڑا سبب ہو گی اور یہ انسانیت کا قتل عظیم ہو گا ۔
ایک بات جو پہلے کہنا تھی اب کہے دیتا ہوں ۔ٹرمپ کی آمد کے دوران دہلی کا جو مسلم کش فساد شروع ہوا تھا، وہ کیا تھا؟ زعفرانیوں کا الیکشن میں ہارنے کا ’انتقام‘ ۔کورونا وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی لیکن مودی سرکار بھی اور کیجریوال سرکار بھی، این پی آر، آین آر سی اور سی اے اے کی تحریکوں اور شاہین باغ سمیت ملک بھر کے شاہین باغوں کو کچلنے کے لیے سارا زور لگا رہی تھی ۔کاش اس وقت حکمراں جاگ اٹھے ہوتے تو شاید کورونا وائرس کی شدت اتنی نہ بڑھتی ۔مگر اس وقت مسلمان نشانے پر تھے اس سب سے آنکھیں موندے تھے۔اور آج پھر مسلمان نشانے پر ہیں! کورونا وائرس کی وباء کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے، گویا کہ ان مسلمانوں نے جو اس ملک میں رہنے کے لیے شہریت کے کالے قانون کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں اس وائرس کو لا کر اپنی اور اپنے بچوں ہی کی موت کا انتظام کیا ہے؟!! تبلیغی مرکز نظام الدین کے، ان دنوں کے اجتماع کا کسی بھی صورت میں دفاع نہ کیا جا سکتا ہے نہ کوئی کر رہا ہے، لیکن میڈیا کے اس زہریلے پروپیگنڈے کو بھی قطعی جائز نہیں مانا جا سکتا اور نہ مانیں گے کہ یہ ’کورونا جہاد‘ ہے۔یہ بات قبول نہیں کہ کوئی کسی مسلمان کو دیکھ کر اسے ’کورونا بم‘ کہے۔یہ قبول نہیں کہ اس بہانے مسجدوں اور مدرسوں پر چھاپے مارے جائیں اور گھر کی چھت پر باجماعت نماز ادا کرنے والوں پر مقدمہ درج کیا جائے ۔اور داودی بوہرہ جماعت کے مسلمانوں کی’تھال دعوت‘کی تصاویر پھیلا کر یہ گھٹیا الزام عائد کیا جائے کہ’مسلمان کورونا وائرس پھیلانے کے لیے برتن جھوٹا کر رہے ہیں‘! اور نہ ہی یہ قبول ہے کہ مختلف ریاستوں میں جو ’پکڑے‘ گئے ہیں انہیں تبلیغی مرکز کا بتا کر ’کورونا بم‘ کہہ کر ذلیل کیا جائے اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔جانتے ہیں کہ کورونا کے ممکنہ مریضوں میں بہت سے غیر مسلموں کو بھی تبلیغی کہہ کر اور مان کر پکڑا گیا ہے!! یہ نفرت کا وائرس ہے، یہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہے ۔ہم یہ سوال دریافت کر سکتے ہیں کہ بھلا 30 مارچ تک یہ جو بنارس کے مندر سے لے کر جموں اور تروپتی کے مندر تک (اپریل میں کیرال اور شرڈی میں رام نومی کی پوجا بھی اس میں شامل کر لیں) بے شمار شردھالو آتے جاتے رہے ہیں، اور یہ منادر کھلے رہے ہیں تو کیا اس سے کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ نہیں بڑھا، کیا لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرکے گوبراورگئوموتر پارٹی سے ملک خطرے میں نہیں آیا، کیا یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی نے ’دیش بندی‘ توڑ کر ایودھیا میں جورام للا کی پوجا کی جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک تھے اس سےوباء کا خطرہ نہیں بڑھا، شیوراج چوہان کی حلف برداری کی پر ہجوم تقریب اور یدی یورپا کی بھیڑ بھاڑ والی شادی کی دعوت میں شرکت سے یہ خطرہ نہیں بڑھا، 23 مارچ تک پارلیمنٹ چلی تو کیا دیش خطرے میں نہیں پڑا، پر ہم یہ سب دریافت نہیں کریں گے کیونکہ کوئی جواب نہیں ملے گا۔ مگر یہ سب تقریبات اسی قدر ملک کو خطرہ میں ڈالنے والی تھیں جس قدر کہ تبلیغی جماعت کا اجتماع ۔لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں، ان میں بہت سارے ہندو ہیں، کہ صرف تبلیغی جماعت ہی کیوں ’مجرم‘، کیجریوال اور مودی سرکار کیوں نہیں، امیت شاہ اور وزارت خارجہ کیوں نہیں؟ یہ غیر ملکی جنہیں اب بلیک لسٹ کیاگیا ہے کیسےبھارت آئے، ویزے کس نے دئے، ائرپورٹ پر غیر ملکیوں کی اسکریننگ کیوں نہیں ہوئی؟ اور دہلی پولس کیوں سوئی رہی؟
تبلیغی مرکز نے لاپروائی کی، نادانی کی بلکہ مجرمانہ غفلت برتی جس کے اثرات تین طرح سے پڑ سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ جوتبلیغی متاثرین یہاں وہاں پھیلے گی وہ لاتعداد افراد میں کورونا وائرس پھیلائیں گے۔جان بڑی قیمتی ہوتی ہے اس کا خیال جماعت نے نہیں رکھا، دوسرا اثر یہ کہ مسلمان معتوب ٹھہریںگے بلکہ معتوب ٹھہرنے لگے ہیں،ممکن ہے کہ ’لنچنگ‘ جیسے حالات نہ پیدا ہو جائیں، اور تیسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ نےخلوص اور لگن سے جس تحریک کوپروان چڑھایا وہ خطرے میں پڑ جائے گی، مرکز پر تالا ڈال دیا گیا ہے یہ کیسی افسوس ناک خبرہے اور یہ صرف نادانی، ہٹ دھرمی اور من مانی کی وجہ سے مشورے نہ ماننے کے سبب ہوا ہے۔ مگر صرف مرکز پر جو ٹھیکرا پھوڑا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہے کیونکہ اس نے انتظامیہ سے خط و کتابت جاری رکھی تھی، بھلا یہ سرکاری ذمےداران، افسران، پولس، کیجریوال اور مودی سرکار کیوں حرکت میں نہیں آئی؟ کیا اس کا مقصد تبلیغی جماعت کو پھنسانا تھا؟ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب کے سب ’مجرم‘ ہیں۔جو لوگ کورونا وائرس سے مرے اور جو مریں گےیہ ان سب کے ’قاتل‘ ہیں۔اور ہم سب بھی کہ ہم احتیاط نہیں کر رہے ہیں، سڑکوں پر میلے لگا کر اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔اب بھی وقت ہے احتیاط برت لیں، وباکو ہندو اور مسلم نہ بنائیں مل جل کر متحد ہو کر اس سے لڑیں ورنہ لاشیں اٹھانے والے نہیں ملیں گے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment