Home قندیل کیابی جے پی طلبہ سے خوف زدہ ہے؟

کیابی جے پی طلبہ سے خوف زدہ ہے؟

by قندیل

مودی،امیت شاہ اور سیتارمن کےطلبہ پرنشانہ سادھنے کے بعد اب فروغ انسانی وسائل کے وزیرمنیش پوکھریال نے کہاہے کہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کوکسی قیمت پربرداشت نہیں کیاجائے گا

نایاب حسن

پورے ملک کی تعلیم گاہوں اور عام لوگوں کے درمیان مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کردہ نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف پائی جانے والی شدید ناراضگی اور احتجاجات کے بیچ آج مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل رمیش پوکھریال نے کولکاتا میںبی جے پی کی ٹیچرس سیل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت تعلیمی اداروں میں سیاسی گرمیوں کوکسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔انھوں نے کہاکہ ہر شخص سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے آزاد ہے مگر کالج اور یونیورسٹی جہاں دوردراز سے طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں انھیں اس قسم کی سرگرمیوں سے پاک رکھنا ہوگا۔انھوںنے سختی سے کہاکہ نریندر مودی حکومت اسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ انھوں نے اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس پر الزام لگایاکہ وہ سی اے اے کے حوالے سے لوگوں میں غلط معلومات پھیلاکرماحول خراب کررہی ہے۔انہوں نے بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر بھی نشانہ سادھا۔نئی تعلیمی پالیسی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ تینتیس سال کے بعد حکومت کے ذریعے تیار کردہ نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان اَساس ہوگی اوراس میں ہماری قومی قدروں کے تحفظ پر زور دیاجائے گا۔قابل ذکرہے کہ گزشتہ دوہفتے سے زائد سے دہلی کی جے این یو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،دہلی یونیورسٹی اور ملک کی دیگر دسیوں یونیورسٹیوں کے طلبانئے قانون کے خلاف سڑکوں پر ہیں اوران کے سپورٹ میں بیرون ہندکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہندوستانی طلبہ بھی احتجاجی مارچ نکال رہے ہیں۔اس سے پہلے خود وزیر اعظم مودی،وزیر داخلہ امیت شاہ ،وزیر خزانہ نرملا سیتارمن بھی طلبہ کے احتجاجات کولے کر سخت بیان بازی کرچکے ہیں،اب فروغ انسانی وسائل کے وزیر نے بھی جس لہجے میں یہ کہاکہ تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کوبرداشت نہیں کیاجائے گااس سے حکومت کی منشاپر سوال اٹھنے لگے ہیں۔کیاحکومت طلبہ کی سیاست کو ختم کرنا چاہتی ہے؟پھر یونیورسٹیوں میں اسٹوڈینٹ یونینز کاوجود کیوں ہے؟اور مختلف مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں ان کی سرپرستی کیوں کررہی ہیں؟جہاں کانگریس اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا طلبہ ونگ یونیورسٹیز اور کالجز میں سرگرم ہے وہیں خود بی جے پی کا سٹوڈینٹ ونگ بھی آل انڈیاودیارتھی پریشدکے نام سے سرگرم ہے،توکیاحکومت یونیورسٹیوں سے طلبہ یونینز کوختم کرناچاہتی ہے یا حکومت کے وزراصرف ایک قسم کے طلباپر نشانہ سادھ رہے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں اور اس کے طریقۂ کارپر سوال اٹھاتے ہیں؟اگر ایسی بات ہے،توہندوستانی جمہوریت کے لیے شرمناک ہے۔خاص طورپر اس وجہ سے بھی کہ بی جے پی کی پیدایش خود طلبائی سیاست اور احتجاجات کی دین ہے۔ ستر کی دہائی میں ایمرجنسی سے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات میں ملک کے بیشتر تعلیمی ادارے اور ان کے طلبہ اس وقت کی اندراگاندھی حکومت کے خلاف برسرِ احتجاج تھے،جن میں کئی وہ لوگ بھی شامل تھے جوآج بی جے پی کا نمایاں چہرہ ہیں۔شاید بی جے پی کو بھی طلبہ کے ذریعے چھیڑی گئی اس تحریک سے اقتدارکی کرسی کھسکنے کا خطرہ محسوس ہونے لگاہے،اس لیے مودی سمیت سارے وزرااسے ہر قیمت پر کچلناچاہتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment