توصیف القاسمی،مقصودمنزل، پیراگپور، سہارن پور
موبائل نمبر8860931450 :
جی ہاں! اس دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ نسل کشی Genocideکے واقعات آسمان کے نیچے ایک مرتبہ نہیں کتنی ہی مرتبہ پیش آچکے ہیں،کوئی ضدی مفکر نہ مانے تو اس کا کوئی علاج نہیں، دراصل ایسے ضدی مفکر نسل کشی کو ایک فرقہ ، نسل، ذات، اہل مذہب کے ’مکمل خاتمہ ‘ کے طورپر لیتے ہیں اور ایسا ہونا ناممکن ہے یعنی مکمل خاتمہ زمین کے فرعونوں کے بس میں نہیں ورنہ یہ فرعون ایسا کر گزرتے۔
ہمارے نزدیک نسل کشی سے مرادکسی ایک فرقے ، ذات یا نسل پر زمین محدود کردینا یا زمینی وسعت اور اس پرموجود اسباب زندگی کا تنگ کردینا ہے۔ کیا ہمارے ملک بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہوسکتاہے ؟ کیا بھارت میں اندلس Spainکی تاریخ دوہرائی جاسکتی ہے؟ جی ہاں! بالکل ، مگر مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اس قسم کے خیال و اندیشوں کو نہ صرف سرے سے خارج کیاہے بلکہ ان کا مذاق بھی اڑایاہے۔ مثلاً ایک جگہ و ہ لکھتے ہیں :
’’یہ بات پچھلی نصف صدی سے مختلف شکلوں میں کہی جارہی ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے دینی اور علمی حلقوں میں اس کا بار بار چرچا کیاگیاہے، مسلم خطیبوں نے اپنی تقریروں میں اور اصحاب قلم نے اپنی تحریروں میں مسلمانوں کو اس مفروضہ خطرے سے ہوشیارکرنے کی مسلسل کوشش کی ہے،ملی تشخص کی حفاظت اور نئی نسل کے مستقبل کے تحفظ کی تحریکیں زیادہ تر اِسی مخصوص ذہن کی پیداوار ہیں۔
یہ سراسر بے بنیاد خوف ہے، جو لغویت کی حد تک بے معنی ہے، یہ ویسی ہی بات ہےجیسے کسی دیہاتی سے ایک شخص نے کہا کہ ’تمہارا کان کوّا لے گیا ‘ وہ دیہاتی آدمی کوّے کے پیچھے دوڑنے لگا، اس نے اپنے کان پر ہاتھ رکھ کر یہ دیکھنے کی کوشش نہ کی کہ اس کا کان بدستور اس کے سر پر موجود ہے۔ ‘‘
(کتاب: ہندوستانی مسلمان، صفحہ ۶۹)
مولانا وحیدالدین خاں کے فکری تانے بانے اور اُن کی استدلالی لہریں نسل کشی کے اندیشے کو ماننے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے قدیم اندلس Old Spain میں پیش آئے مسلم نسل کشی کے واقعے کی ضرب و تقسیم بھی کی ہے اورپھر انھوں نے بھارت میں مسلم خاتمۂ نسل کے لیے 40ہزار سال کا اندازہ قائم کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اب فرض کیجیے کہ ہندوستان میں قدیم اسپین کی تاریخ دوہرائی جاتی ہے اور یہ بھی فرض کیجیے کہ یہ عمل کسی بھی اندرونی یا بیرونی مداخلت کے بغیر بلا روک ٹوک مسلسل جاری رہتا ہے، تمام خلاف قیاس باتوں کو فرض کرنے کے بعد جوصورت حال پیش آئے گی وہ تاریخی معلومات کے مطابق یہ ہوگی:
’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1984) نے اپنے آرٹیکل اسپین کی تاریخ (History of Spain) میں بتایاہے کہ مسلمانوں کی فتح کے وقت اسپین کے باشندوں کی کل تعداد تخمیناً 40لاکھ تھی،جو عرب مسلمان اسپین میں داخل ہوئے، ان کی تعداد تقریباً 50ہزار تھی، اس تعداد میں دو طریقے سے اضافہ ہوا، ایک ،توالد و تناسل کے ذریعے اور دوسرا ، اُن عیسائیوں کی شکل میں جو اسلام قبول کرکے مسلمانوں کی جماعت میں داخل ہوگئے۔اس طرح آخری دور میں اسپین کے 5بڑے شہروں میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ ستاسی ہزار (3,87000) تھی۔ (EB-17/419)حساب کی آسانی کے لیے اسپین سےمسلمانوں کے خاتمے کی مدت کو ایک سو سال مان لیجیے اور اسپینی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرکےاس کو پانچ لاکھ فرض کرلیجیے، اب دیکھیے کہ اسپین کی آزمودہ تدبیر کو اگر ہندوستان میں اختیار کیاجائے تو یہاں کے 20کروڑ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کتنی زیادہ مدت درکار ہوگی۔ علم الحساب بتاتا ہے کہ خاتمہ نسل کے اس عمل کے پورا ہونے میں چالیس ہزار سال لگ جائیں گے۔ ایک سو سال میں پانچ لاکھ انسانوں کو ہلاک کرنے کی رفتار سے جو مدت قرار پاتی ہے، وہ یہی ہے۔ واضح ہو کہ خاتمہ نسل کے لیے چالیس ہزار سال کی یہ مدت بھی اُس وقت ہے ، جب کہ اس درمیان میں کوئی بھی ناموافق صورت حال پیش نہ آئے، مثلاً توالد و تناسل کے ذریعے مسلمانوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہ ہو، ہندو اپنی موجودہ طاقت کو مسلسل چالیس ہزار سال تک برقرار رکھیں،کوئی عالمی واقعہ اس رفتار میں خلل نہ ڈالے ، ہندوئوں کے ساتھ وہ واقعہ نہ ہو جو تاتاری ظالموں کے ساتھ ہوا، جنھوں نے پچاس برس کے اندر اسلام قبول کرلیا، حتیٰ کہ چالیس ہزار سال تک قیامت کی آمد بھی رُکی رہے،وغیرہ۔ ‘‘
(ہندوستانی مسلمان،صفحہ 70-71)
مولانا کوکوئی بتلائے کہ ’’تمہارا لگایا ہوا حساب فیل ہوچکاہے، جس عمل (خاتمۂ نسل) کے لیے چالیس ہزار سال کا اندازہ قائم کرکے بے بنیاد خوف کی بات کہی ہے، اب وہ خاتمہ نسل صرف اور صرف پارلیمنٹ کے آدھے گھنٹے کی کارروائی ہے، اس کے بعد قانون و انتظام کی پوری چین آپ کےگرد لپٹنی شروع ہوجائے گی اور بچوں کے جوان ہونےسے پہلے اور جوانوں کے بوڑھا ہونے سے پہلے آپ ڈٹینشن کیمپ میں ہوں گے ۔ ڈاکٹریاسرندیم الواجدی نے ماضی قریب کے چند واقعات کوسامنے رکھتےہوئے بالکل صحیح اندازہ قائم کیاہے،یعنی 30-32سال کے اندر یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسپین کی تاریخ دوہرائی جانے کے لیے نہ دو سو سال اور نہ چالیس ہزار سال، یہ طویل عرصہ حیات 4Gکے زمانے میں لطیفۂ محفل بن چکا ہے،اب اس تھکادینےوالےانتظار کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ رہی بات اقوام متحدہ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل اور عالمی پریشر کی یا عالمی میڈیا کی تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب خوبصورت الفاظ اپنے اندر انتہائی بدبودار معنی رکھتے ہیں۔
مذکورہ اداروں کے ہوتے ہوئے ہی دس لاکھ روہنگیا مسلم بنگلہ دیش میں پناہ گزیں ہیں اور وہ بھی صرف دومہینے میں۔ مقتول ومہلوک کی تعداد الگ۔ مذکورہ اداروں کے ہوتے ہوئے ہی پورا شام تباہ ہوچکا، مذکورہ اداروں کے ہوتے ہوئے ہی چین کے صوبے سنگیانگ میں ایغور مسلم بدترین زندگی گزار رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں ظلم و شروفسادکے طریقوں نے ترقی نہیں کی تھی ، موجودہ وقت میں انسانی دنیا نےہر میدان میں ترقی کی ہے، اس لیے ظلم ،شر و فساد و خاتمۂ نسل کے طریقوں میں بھی ترقی ہوچکی ہے۔ معلوم نہیں مولانا وحیدالدین خاں نے یہ معکوس حساب کیوں لگایا۔
مایوسی نہیں مقابلہ کیجیے!
خوفناک اندیشے اور ڈرائونے خواب ضروری نہیں کہ حقیقت ہی بن جائیں، اس لیے مایوس ہونے کی بالکل ضرورت نہیں، مزید یہ کہ مایوسی اہل ایمان کے نزدیک ’’علامت کفر ‘‘ ہے۔ہر بُرےوقت کو اچھی تدبیروں کے ذریعے ختم کیاجاسکتا ہے، بعض تدبیریں:
1۔ ہندوئوں میں طبقاتی نظام ایک اٹل حقیقت ہے ، اکثر وبیشتر ماہرین کے مطابق یہی طبقاتی سسٹم ہندو راشٹر کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، مسلم پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ اس طبقاتی نظام کے خدوخال کو مزید واضح اور متعین کرکے ہندو راشٹر کے ’’خواب و خیال ‘‘کو پیچیدہ قسم کا بلیک ہول بنادیں۔
2۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر ہم دلتوں اور سکھوں کے ساتھ اسلامی اخلاق و سلوک والامعاملہ کرتے ہیں تو وہ ہر میدان میں ہمارے ساتھ کھڑے رہتے ہیں خیال رہے کہ وہ بھی برہمن ازم کے ہم سے زیادہ ستائےہوئے ہیں۔ وہ تمام دلت، سکھ لیڈر حضرات جو جنونی ہندوئوں کے خلاف لکھتے، بولتے اور میدان عمل میں متحرک ہیں، ان کی حوصلہ افزائی اور انعام و اکرام کے لیے کھلے اسٹیج منعقد کیےجائیں۔
3۔ ہم ووٹ کی اہمیت اور ووٹ کی یکجائی کو جتناجلدسمجھ لیں گے اتنا ہی جلد ہمارا مسئلہ حل ہوجائےگا۔
4۔ قومی سطح پر ہماری ایک سیاسی پارٹی ہونی چاہیے، M.L.A, M.P کی سیٹوں پر قبضہ کیے بغیر ہماری آواز نہیں سنی جائے گی۔
5۔ تعلیم یافتہ اور باشعور افراد کو تلاش کرکے ان کو قیادت کا پلیٹ فارم دیاجائے۔آج حالت یہ ہے کہ خوشامدی وراثتی اور داغدار قائدین آگے ہیں اور ’’ اہل ‘‘ حضرات پیچھے ۔ یعنی ’’سچے کا منھ کالا ، جھوٹے کا بول بالا ‘‘۔
6۔ دین اسلام کو ’’مسلک و حضرت ‘‘ کےبدترین چنگل سے نکال کر ’’ما اُنزل من ربک ‘‘ بنایا جائے اور بعینہٖ اسی دین کی دعوت دی جائے اور یہی دین قابل عمل نظریۂ حیات ہے اور یہی دین ’’دین رحمت ‘‘ ہے، باقی سب کچھ تفرقہ بازی یا انتہا پسندی ہے۔
7۔ غیرمسلموں میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیاں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہیں یا جان بوجھ کر پھیلادی گئی ہیں، ان غلط فہمیوں کو نشان زد کرکے باقاعدہ طورپر دور کیاجائے۔ تحریروں سے،تقریروں سے،ویڈیو زسے مطالعہ بین المذاہب وغیرہ سے۔
بروزجمعرات،9؍جنوری 2020ء