( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
لوک سبھا کی نئی عمارت کا تقدس ، بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی یاوہ گوئی نے ملیا میٹ کر دیا ہے ۔ حملہ ذاتی بھی تھا ، مذہبی بھی اور سماجی بھی ۔ اس حملے کو ’ اسلاموفوبیا ‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ، اور نسل پرستی کا بھی ۔ نشانے پر بہوجن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) کے رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی تھے ، اور نشانہ لگانے والے بی جے پی کے ساؤتھ دہلی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی تھے ۔ کنور دانش علی نے جو کچھ سُنا وہ کس قدر اذیت ناک رہا ہوگا ، اس کا اندازہ اُس مکتوب سے لگایا جا سکتا ہے ، جو انہوں نے لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا کو دیا ہے ۔ یہ مکتوب ’ گالیاں ‘ سُننے کے بعد اُن کا ایک طرح سے اظہارِ کرب ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ،’ وہ رات بھر سو نہیں سکے ، اور ایک اقلیتی رُکن کی حیثیت سے یہ سب اُن کے لیے بہت اذیت ناک تھا ۔ ‘ سچ تو یہ ہے کہ جن مہذب لوگوں نے بھی ، بلا لحاظ مذہب ، بی جے پی کے ساؤتھ دہلی کے رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی کے مغلظات سُنے ہوں گے ، مارے کرب کے رات بھر سو نہیں سکے ہوں گے ۔ اس ملک کے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت بھی رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتی رہی ہو گی ، سوائے ان مسلمانوں کے جو وزیراعظم نریندر مودی کے لیے قرآن خوانی کراتے اور دعاؤں کی محفلیں منعقد کراتے ہیں ، یا جو مسلمان بی جے پی ، آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں ، جیسے کہ راشٹریہ مسلم منچ وغیرہ سے جڑے ہوئے ہیں ۔ جمعرات کو لوک سبھا میں چندریان ۳ پر بحث ہو رہی تھی ، بدھوڑی کی تقریر چل رہی تھی ، اپوزیشن کی جانب سے آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ چندریان کا سہرا مودی کے سر نہیں بندھتا ، امروہہ سے ایم پی کنور دانش علی نے بھی یہی بات کہی ، جواب میں اُن پر مغلظات کی بوچھار ہوگئی ۔ کیا اپوزیشن کی طرف سے ، چاہے جو اپوزیشن میں ہو ، اس طرح کی نکتہ چینی معمول کی بات نہیں ہے؟ پارلیمنٹ میں نہ جانے کتنی بحثیں ہوئی ہیں جِن میں حکمراں جماعتوں پر اپوزیشن کی جانب سے سخت نکتہ چینیاں کی گئی ہیں ، شور غل مچا ہے ، ہنگامہ ہوا ہے ، لیکن حکمراں جماعت نے جواب میں کبھی گالیاں نہیں دی ہیں ۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے ، اس کے اندر جمہوری قدروں کا لحاظ رکھا جاتا ہے ، اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اخلاقی قدروں کو پامال نہ کر سکیں ۔ لیکن بدھوڑی نے جو کیا ، جو کچھ کہا ، شاید پارلیمنٹ کی تاریخ میں اِس سے پہلے نہ کسی نے کیا ہے ، اور نہ کہا ہے ۔ جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں چند الفاظ ایسے ہیں جنہیں دنیا کی شاید ہی کوئی پارلیمنٹ ہو جو غیر پارلیمانی نہ مانے ۔ ’ بھڑوا ‘ ، ’ کٹوا ‘، ’ ملّا آتنک وادی ‘،’ ملّا اگر وادی ‘۔ انگریزی کے نیوز پورٹل ’ دی وائر ‘ کی رپورٹ کے مطابق بدھوڑی کہہ رہے تھے ،’’ یہ اُگروادی ، یہ آتنک وادی ہے ، اُگروادی ہے ، آتنک وادی ہے ۔‘‘ اُن کی زبان سے نکل رہا تھا ،’’ باہر پھینکو اس ملّے کو ۔‘‘ بدھوڑی کی زبان سے جب یہ زہریلے الفاظ نکل رہے تھے تب ان کے بغل میں بیٹھے سابق وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کھلکھلا کر ہنس رہے تھے ! بی جے پی کے کئی دوسرے ممبران پارلیمنٹ بھی ہنس رہے تھے ! کیا یہ واقعی ایسے الفاظ ہیں جنہیں سُن کر کوئی بھی مہذب انسان ہنس سکتا ہے ؟ کیا کنور دانش علی کی ، یا اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ میں سے کسی کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تو کسی کو ہنسی آتی ؟ یہ الفاظ اس ملک کی ساری اقلیت کی توہین ہے ، اور سارے اراکین پارلیمنٹ کی بھی ۔ اپوزیشن نے اعتراض جتایا ہے ، اور سخت اعتراض جتایا ہے ۔ ساری اپوزیشن جماعتیں اس معاملہ میں کنور دانش علی کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں ، مطالبے کیے جا رہے ہیں کہ ، بدھوڑی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ، انہیں معطل کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے ۔ رمیش بدھوڑی کی تقریر کے وقت اسپیکر اوم برلا کرسی پر نہیں تھے ، اُن کی جگہ کانگریس کے ایم پی کے سریش اسپیکر کے فرائض ادا کر رہے تھے ، انہوں نے بدھوڑی کے کلمات کارروائی سے حذف کروا دیے ہیں ۔ فی الحال اسپیکر اوم برلا نے بدھوڑی کو سخت انتباہ دیا ہے کہ ، آئندہ ایسے کلمات برداشت نہیں کیے جائیں گے ۔ بی جے پی کے صدر جے پی نِڈّا نے بدھوڑی کو ’ وجہ بتاؤ نوٹس ‘ جاری کر دیا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ رمیش بدھوڑی اپنے ’ کلمات ‘ کے جواز میں کیا وجہ بتا سکتے ہیں ! کیا کسی کو ’ کٹوا ‘ کہنے کی کوئی معقول وجہ ممکن ہے ؟ کوئی معقول وجہ ممکن ہی نہیں ہے ۔ بی جے پی کے بزرگ ایم پی ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں بدھوڑی کی ہرزہ سرائی پر معافی مانگی ہے ، لیکن بدھوڑی کی طرف سے کسی طرح کا اظہارِ افسوس سامنے نہیں آیا ہے ۔ دانش علی کے کرب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ، انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگر اسپیکر اوم برلا نے بدھوڑی کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ پارلیمنٹ چھوڑ دیں گے ، کیونکہ انہیں لوگوں نے اس لیے چُن کر لوک سبھا میں نہیں بھیجا ہے کہ وہ ہیٹ اسپیچ سُنیں ۔ بات سچ ہے ، گیند اب اوم برلا کے پالے میں ہے ، دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)