Home نقدوتبصرہ کلیاتِ مظفر حسین عظیم آبادی – اشتارالحق حبَاب

کلیاتِ مظفر حسین عظیم آبادی – اشتارالحق حبَاب

by قندیل

ملے گی جب وہ خاصوں کو تو ہوگی حور بھی اچھی
مگر حسنِ بتاں میں بھی نہیں جائے سخن ساقی

یوں تو عظیم آباد نے بہت سے باکمال شعرا پیدا کیے ہیں، جنہوں نے اردو زبان کی خدمت میں اہم ترین رول ادا کیے ہیں، لیکن اسی عظیم آباد نے ایک ایسے عظیم شاعر کو بھی جنم دیا ہے جو فن شاعری کی تمام تر جہات و نکات سے خوب واقف تھا، جس کی شاعری دیگر شعرا کی شاعری سے بہت مختلف ہے، جس کا شعورِ تغزل اوروں سے بہت اعلٰی، دل چسپ، نیرنگ، اور خیالات کی نزاکت و بلند ترین پرواز لیے ہوئے ہے، جو مظفر حسین عظیم آبادی کے نام سے خوش نام ہے، آپ خوش نام کی جگہ بدنام یا گمنام بھی کہہ سکتے ہیں، گمنام اس لیے کہ ان کے اشعار جلد ہی منظر عام پر آئے ہیں، اور میرے علم کے مطابق اس سے پہلے اس نے گمنامی کی ہی زندگی گزاری ہے، رہی بات بدنام کہنے کی، تو اس کی وجہ آنے والی سطروں میں بیان کی جائے گی، جسے شیفتہ کی زبانی یوں سمجھیے :

بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

حسن و عشقِ بتاں پر اس کے تمام ہی اشعار بلند معیاری ہیں، جن میں اس نے عورتوں کے تمام تر محاسن کو باریک خیالات اور ان کی بہترین ادائیگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ فن شاعری میں شعور کی پختگی اور خیال کی نیرنگیوں کا بہت دخل ہے، اور پھر ان کے اظہار کا اہم ترین کردار ہے، اور یہ تمام تر خوبیاں مظفر حسین عظیم آبادی کی غزلیہ شاعری میں موجود و نمایاں ہیں۔ مظفر حسین عظیم آبادی کے نعتیہ کلام بھی ہیں، جو بہت طویل اور عمدہ ہیں۔
مظفر حسین عظیم آبادی کی باریک بینی، نازک خیالی، اور ان کے حسنِ ادائیگی کا آپ ان کے اشعار پڑھ کر بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حسن بتاں کی جس قدر حسین و دلکش مشاطگی شاعر موصوف نے کی ہے شاید اردو زبان کا کوئی شاعر اس مقام کو پاسکے، اور یونہی عشق بتاں میں جتنے بہترین، معنی خیز، دل آویز اور دلچسپ اشعار موصوف کے نوک خامہ سے نکلے ہیں اب شاید ہی کوئی اس تک پہونچ سکے۔
ملاحظہ کیجیے حسن و عشق بتاں پر اس کے چند بہترین اشعار :

یہ مانا میں نے اس میں احتمال شرک ہے لیکن
مٹادوں کیسے دل سے نقشِ جذبِ بنتِ حوا کو

ہزار بار پڑھی ہوگی سورۂ یوسف
عجب شغف ہے حسینوں کی داستاں سے ہمیں

خلاف‌ِ نظمِ فطرت تھا نہ مرنا حسنِ یوسف پر
عبث بدنام کر رکھا ہے یاروں نے زلیخا کو

خدارا حسن والوں کا، یہ حسنِ فکر تو دیکھو
کیا خوش نام کیسے اپنے یوسف کو زلیخا نے

اک قیامت ہم کریں گے ان کو لا کر سامنے
ختم واعظ کا قیامت کا بیاں ہونے تو دو

ادا و ناز سے چٹکی میں دل اڑا لینا
ستم گروں کو یہ گھاتیں نہ تھیں بتانے کی

ادا و ناز سے پھر لیجیے گا انتقام اس کا
نیاز و لطف سے دل لیجیے تو مہرباں پہلے

کیوں نہ چاہیں گے خدا وند صنم آرا کو
وہ مشاطہ ہے حسینوں کا زمانے بھر کے

شکر کے سجدے بجا لائیں گے مسجد جاکر
خلوتِ نازِ بتاں سے جو فراغت ہوگی

شراب حسن پینے کا نہیں ہے ظرف ناداں کو
زلیخا سے نہ سنبھلا نشہ حسن ماہِ کنعاں کا

لیلیٰ و شیریں و بلقیس و زلیخا سب بہم
حشر کے دن کا تماشا جاں ستاں ہوجائے گا

دل میں بتوں کی یاد اور آنکھوں میں ان کا حسن
جنت میں روتے جائیں گے کوئے بتاں سے ہم

ملے گی جب وہ خاصوں کو تو ہوگی حور بھی اچھی
مگر حسنِ بتاں میں بھی نہیں جائے سخن ساقی

غم کرلو غلط مل کے حسینانِ جہاں سے
بچھڑے ہو جو بَن باس میں حورانِ جناں سے

کچھ ایسی کم نہیں حوّا کی بیٹی بھی تو حوروں سے
کہ آخر اس کے مورث بھی تو تھے خلد آشیاں پہلے

کون سی اس کی ادا ہے جو زمیں زاد نہیں
کب وہ مخمورِ مئے حسنِ خدا داد نہیں

بہشت سے میں بتوں کی سن کر سفر پہ دنیا کے آگیا ہوں
پہونچ کے پٹنہ بھٹک رہا ہوں یہاں پہ کوئے بتاں کدھر ہے

جیسے کنارِ بحر کا موجوں کو شوق ہے
مجھ کو ہے ویسے شوق بتوں کے کنار کا

قضا نے کیوں رخ و زلف بتاں کو رنگ و بو بخشا؟
خدا نے کیوں سکھائی کافروں کو دلبری میری؟

کیا‌ جانے کیا پلا دیا ساقی نے ہنس کے رات
شب بھر قیامِ خلد کا آیا مزہ مجھے

بارِ خدا میں اعتبارِ ملت و مذہب نہیں
کافر بتوں کے چہرے پہ کیا نور ہے مہتاب سا

کاش قائم رہے حسینوں میں
جیسے ٹھہرا ہے مہر و مہ میں شباب

جس رات، ترے گال ہوئے لال حیا سے
کیوں جانے، مرے دل میں لگی آگ اسی رات

آنکھوں سے گری قدر، مئے بنت عنب کی
اک دخترِ حوا کی مئے وصل جو پی رات

کیوں یوسفانِ شہر کے دامن ہیں برقرار
کیا مہوشوں میں کوئی زلیخا نہیں ہے آج

ہر پیمبر کے معجزے دو اک
میرے کافر کی سو ادا اعجاز

کیسے دکھلائیں تمہیں حسنِ بتاں میں جادو
آنکھ ہوتی ہے فقط عشق کے بیمار کے پاس

قیس و فرہاد بنا، لیلیٰ و شیریں بن جا
کیا زلیخا سی چلی یوسفِ بیزار کے پاس

بلبل کے شورِ عشق پہ ہیں خندہ ہائے گل
اب ہائے عندلیب، کہیں ہم کہ وائے گل

نازک بتوں کو تو پتھر کے دل ملیں
ہم کو ملے یہ شیشہ کا ناپائدار دل

زلفوں کی برہمی میں بھی سنتے ہیں لطف ہے
اک دن تمہارے زلف پریشاں کریں گے ہم

یہ تبسم، یہ تکلم، یہ سلیقہ، یہ ادا
تجھ کو ہے دین کسی کی، ترا ایجاد نہیں

ہر حسیں کا یہ تقاضا، دل میں ہم کو دے جگہ
شرم آتی ہے کہ عذرِ تنگ دامانی کریں

مسجدوں میں، حسن کا حوروں کے تو جائز ہو وعظ
متّہم ٹھہریں جو ذکرِ حسنِ نسوانی کریں

گر واقعی بھی حسن پرستی ہو اک گناہ
سو بار اس گناہ سے دامن کو تر کریں

واعظ جو تجھے دیکھ لے، کافر کہیں مجھ پر
جنت سے بھگا لانے کا الزام نہ آئے

یہ برہمن بھی ہیں کمبخت کہے کو کافر
یہ حسینوں کے بجا رکھتے ہیں بت پتھر کے

دامِ حورانِ بہشتی سے چھڑایا ہم کو
صدقے سو بار حسینانِ پری پیکر کے

ہونے دو حوریں بھریں زاہد کے قصرِ خلد میں
وہ پری کیا کم ہے جو عاصی کے کاشانے میں ہے

کچھ بتوں سے عشق کا مجھ کو قضا سے حکم ہے
آپ کا بھی نام لکھا اس کے پروانے میں ہے

عشق کو بھی تو بتا دل کے بچانے کے طور
حسن کو حور کے اطوار سکھانے والے

رکھ چکے مدت تلک تو دل کو حوروں میں لگا
اب طلب گار حسینانِ جہاں ہونے تو دو

مجھ کو آذر بنا کے چھوڑیں گے
تیرے عارض یہ آفتابی سے

وہی بہتر، وہی احسن، حسینوں کو جو بھاجائے
دلِ ناصح کو سمجھاتی رہی شوریدگی میری

ان حسینوں کو اک دل بھی دینا تھا
کوئی بندہ خدا کو یہ سمجھائے

تم نے خراب کردی ہماری تمام رات
تم پر ہزار بوسے کا جرمانا چاہیے

اسی طرح اشعار میں حور و خلد کا استعمال مظفر حسین عظیم آبادی سے بہتر میں نے کہیں نہیں پایا، جہاں اس نے حور و خلد کے افسانے بیان کئے، وہیں بتانِ جہان و دنیا کو بھی بہترین اسلوب میں بیان کیا، کہیں تو حوروں کا ایسا حسن بیان کیا کہ پڑھ کر دل کھل اٹھا، جب کہ بیشتر جگہ حسینانِ جہاں، اور پری پیکرِ جہانِ فنا کو حوروں سے بھی حسیں ترین، افضل و اکمل، اور ان سے کہیں زیادہ دلربا اور ہوش ربا بیان کیا ہے۔

اشعار ملاحظہ کیجیے:

یہ وعظِ گرم کالی کالی آنکھوں والی حوروں کا
ترے رندوں کو یہ شوشے، نہ کردیں بد چلن ساقی

خدایا کم ذرا رکھنی تھی قیمت اپنی حوروں کی
بھلا دیں کیسے ہم حوروں کے پیچھے پیاری دنیا کو

لے کے پیغامِ خدا کاش کہ حوریں آئیں
دیکھیں تو کیسے ہیں ایمان نہ لانے والے

کہ واقعی ہے بتوں ہی کی جیسی حوریں حسیں
یقین اس کا نہیں شیخ کے بیاں سے ہمیں

ملک نکلا، بشر نکلا، نہ نکلی حور جنت سے
خدایا حور پر کر اب کے قہرِ ناگہاں اپنا

کس سے فریاد، یہ آدم کی ہم اولاد کریں
کہ ہیں جنت کے سب اسباب ہمارے ترکے

اسی طرح شاعر موصوف نے واعظوں اور ناصحوں سے بے جا اور خوب پنگے لیے ہیں، ان کی شان و عقیدت کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے!
موصوف کے نزدیک واعظ اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے، موصوف بتانِ شہر و جہاں پہ مرتا ہے اور واعظ حورانِ جناں پے۔ ذرا موصوف کے طنزیہ اشعار ملاحظہ کیجیے، اور واعظینِ شہر دل تھام کر پڑھیے اور ملاحظہ کیجیے موصوف کے وہ اشعار جن میں ذکر حور کے ساتھ واعظوں پر خوب طنز بھی ہے۔

کلامِ پاک میں جس جس جگہ وعدے ہیں حوروں کے
وہی آیات پڑھتا ہے یہ زاہد پنجگانے میں

پھر دیکھ تیرے دین کو ہوتا ہے کیا فروغ
جنت سے ایک حور تو واعظ اُڑا کے لا

ہر کوئی لائے کہاں سے واعظوں کے فکر و فن
حور کے ارماں میں مرنا تم کو کہنا جانِ من

یہ حور و خلد کے افسانے تو مجھ کو نہیں بھائے
الگ ان مومنوں سے ہے مذاقِ داستاں اپنا

جہاں بھی خلد کا واعظ کے لب پہ نام آیا
مرے گماں میں کسی نازنیں کا بام آیا

مہ جبینوں کے بجا حور پہ مرنے لگنا
دینِ مومن میں ہے یہ مردِ خدا ہوجانا

میری بتوں پر آنکھیں تو واعظ کی حور پر
یاں فکر ابتدا کی ہے واں انتہا کی ہے

یہ شیخ و برہمن مرغِ خرد کے پر کترتے ہیں
بہت ہشیار ان دونوں سے ہے طَیرِ گماں اپنا

کوٹھے پر آسمان کے حوروں کے ساتھ مے
کیا خوش ہے خوابِ مومنِ پرہیزگار دیکھ

یہ وعظِ گرم کالی کالی آنکھوں والی حوروں کا
ترے رندوں کو یہ شوشے نہ کردیں بد چلن ساقی

ہم سے بگڑے ہوئے مفتی ہیں زمانے بھر کے
جاری فتویٰ ہیں اڑانے کے ہمارے سر کے

افلاک کی بھی حور بھی پہ ڈورے جو ڈال دیں
ان مومنوں سے سیکھنی کچھ گھات چاہیے

شراب و شہد و غلام و قصور و کوثر و حور
نہ جانے کیا کیا یہ مردانِ با خدا لیں گے

کیا خوب کہ وہ وعظ کہے ترکِ بتاں کا
جو آپ ہے دل باختہ حوروں کی خبر سے

میں نہ مانوں گا کہ وہ شخص ہوسناک نہیں
حور کے وعدے پہ دنیا سے جو بیگانہ بنے

یہ دین تو چلنے کا نہیں مومنو جب تک
حوروں کے عوض وعدۂ اصنام نہ آئے

کیوں جھونپڑے میں شیخ سا دیکھیں محل کا خواب
کیوں دل لگائیں حورِ فلک آشیاں سے ہم

جس پر پڑا وہ دیکھتا حوروں کے خواب تھا
ہاں بوسہ دوں گا شیخ کے اس بوریا کو میں

مسجد میں حسنِ حور کے وعظوں کے باوجود
مجھ سے تو غیر جنس کا ارماں نہ ہوسکا

بہشت و حور و کوثر کے علاوہ
بتا ساقی خدا کا کچھ نشاں اور

اس پہ تاثیرِ دعائے سحری مشکل ہے
شیخ کے شیشے میں اترے وہ پری مشکل ہے

ہم کوئی اور نہیں آلِ براہیم سے ہیں
بھول جاتے ہیں یہ دوزخ سے ڈرانے والے

مظفر حسین عظیم آبادی کی پیدائش سنہ ١٩٠٣ عیسوی میں ہوئی، انہوں نے پٹنہ سے تعلیم حاصل کی اور وکیل بن کر وکالت کا پیشہ اختیار کیا، لیکن زندگی ایمان سے محرومی اور الحاد کی گود میں گزری، ساری زندگی وہ بینا رہے، لیکن آخری عمر میں بینائی جاتی رہی۔
پہلے ملاحظہ کیجیے موصوف کے توحید اور ایمان و یقین پر مبنی اشعار

آنکھیں بتوں کی لاکھ پرستش کیا کریں
مرقوم لا الہ ہے دل کی کتاب پر

کیوں نہ چاہیں گے خداوندِ صنم آرا
وہ مشاطہ ہے حسینوں کا زمانے بھر کے

اب ملاحظہ کیجیے موصوف کے کفر پر مبنی اشعار

وعدے کا حور و قصر کے کس کو یقیں ہے آج
کچھ معتبر خدا کا کہا بھی کہیں ہے آج

جس پہ مرتے ہیں آپ وہ جنت
اک گماں زادی خواب کی سی ہے

قرآن بیچیے پڑھیے رنگیلے افسانے
خدا کو چھوڑیے بنیے بتوں کے دیوانے

لکھ رہا ہوں کاتبِ قسمت کی معزولی کا حکم
منتقل دیوانِ قسمت خود یہاں ہوجائے گا

اب کہاں جاکر مٹے گا کہیے یہ طبقوں کا فرق
خلد میں بھی ہائے جب ادنیٰ و اعلیٰ کردیا

مردے کو پھر جلا کے جہنم میں ڈالنا
کوئی بھلا جواب ہے دل کے بخار کا

کیا نہ جانے حضرت موسیٰ نے دیکھا طور پر
اور بدہوشی میں کیا ہونے کا چرچا کردیا

چومنے کو حرم میں رکھتے کاش
چند اصنامِ مرمریں اندام

خود پرستی ہی جب نہیں مذموم
بت پرستی میں کیا برائی ہے

خاکم بدہن، بارِ خدا سے یہ گلہ ہے
آنے تھے جو احکام، وہ احکام نہ آئے

سچ تو یہ ہے کہ بحیثیت شاعر یہ ایک عظیم شاعر ہے، اور بحیثیت انسان و مسلمان کیسا تھا۔۔۔خدا جانے! کیوں کہ آخرِ وقت کا علم اسی کے پاس ہے۔ ہاں البتہ میں اپنی طرف سے اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ شاعر تو باکمال ہے، انسان کم بخت تھا۔

چوں کہ شاعری میں جام و مینا اور ساغر و ساقی کا ذکر ضروری ہے اس لیے اس موضوع پر موصوف کے چند اشعار ذکر کیے جاتے ہیں، پڑھیے اور اپنے ذوق کو داد دیجیے

ہوگی تحریم مے ناب کی آیت منسوخ
مے پرستوں کو معافی کی بشارت ہوگی

ناداں اذان روکو صبوحی کا وقت ہے
کچھ بھی تو دل میں حرمتِ مے خانہ چاہیے

یقیں نہ ہو تو مرے ساتھ چلیے مے خانے
بہشت و حور ہیں برحق، نہیں یہ افسانے

آنچل ڈھلا ہوا نہ گریباں کھلا ہوا
ساقی بنے تو طَور بھی مستانہ چاہیے

کتاب "کلیات مظفر حسین عظیم آبادی” شاعر موصوف کو زمانوں تک زندہ و تابندہ رکھنے لیے ایک بہترین کتاب ہے، جسے ڈاکٹر واحد نذیر نے بڑی سعی و کاوش کے بعد جمع و مرتب کیا ہے۔ یقیناً یہ کتاب ڈاکٹر واحد نذیر کی نیک نامی کو بھی کافی ہے، لیکن نہ جانے کیوں مرتبِ موصوف نے کتاب کی پشت پر شاعر کے بجائے اپنا عکس چسپاں کرکے شاعر کے گناہوں کی سزا اپنے سر لی ہے!

خیر قابل شاعر کے مختلف موضوعات پر مبنی چند اور چیدہ و چنیدہ اشعار ملاحظہ کیجیے اور اپنے ذوق سخن شناسی کو داد دیجیے

ہزاروں خوں کیے، لیلائے علم کے پیچھے
ہزاروں شمع کے خوں سے ہے ہاتھ لال مرا

میرے استاد ہیں کتنے، کوئی تعداد نہیں
کوئی یعنی نہیں جس سے مجھے ارشاد نہیں

آؤ تازہ خلد کی وہ عریانی کریں
برملا پھر عرضِ حسنِ جسمِ انسانی کریں

کچھ مرا ٹھنکا تھا ماتھا جب ازل میں یہ لکھا
دو فرشتے دفترِ عصیاں میں دیوانی کریں

تہذیب ہی دل کی مرے پاکیزہ ہے ایسی
دشمن کا بھی نام آئے تو دشنام نہ آئے

موسی سی ہائے، جرأت رندانہ اب کہاں
دیکھیں خدا کی دید کا دعویٰ کرے کوئی!

شاعر موصوف اپنے کمال فن کی تعریف کچھ اس انداز میں کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے

ہوائے عشق لگ جاتی ہے سادہ لوحوں کو اس سے
نہ ہر محفل میں کہیے بے تکلف داستاں میری

شعروں سے میرے لطف اٹھانے کے واسطے
ذوقِ جمال و طبعِ حکیمانہ چاہیے

یہ علمِ مے کدہ اور ہر تماشا جامِ صہبا ہے
نگاہِ شوق مے کش، شورِ مستی شاعری میری

رہی ہے صحبتِ اقبال و غالب و سعدی
شرف ہے درس کا حافظِ نکتہ داں سے ہمیں

You may also like