نئی دہلی:اردو اکادمی،دہلی کے زیراہتمام جشن ِیوم آزادی کے موقع پرامبیڈکرکالج میں کل ہندمشاعرہ جشن آزادی کا انعقاد کیاگیا۔اردو اکادمی ہر سال یوم آزادی کے جشن کی مناسبت سے مشاعرے کا انعقاد کرتی رہی ہے،لیکن اس سال کی خاص بات یہ ہے کہ اکادمی مشاعرہ جشن آزادی کا ایک سیریزمنعقد کررہی ہے اور اس کے تحت چارمشاعرے چارالگ الگ مقامات پر منعقد ہورہے ہیں۔پہلامشاعرہ ’بزم سخن ‘کے عنوان سے 23 اگست کو ہندی بھون میں منعقد ہواتھا۔اسی سلسلے کا آج دوسرامشاعرہ ’رنگ سخن ‘کے عنوان سے منعقد ہوا۔تیسرااورچوتھامشاعرہ ’ایک شام شاعری کے نام‘ اور’محفل شعر وسخن‘ کے عنوان سے 29 اور30 اگست کو غالب اکیڈمی اورانصاری آڈیٹوریم جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوں گے۔
اس موقع پر اردو کادمی، دہلی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے شعراو سامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہاکہ آج کا یہ مشاعرہ جشن آزادی کے تعلق سے منعقد ہورہاہے،جشن آزای کے موقع پر پورے ہندوستان میں تقریبات منعقد ہورہے ہیں اس لیے آج کا یہ مشاعرہ ان تقریبات کی ہی ایک کڑی ہے۔آزادی ایک ایساجذبہ ہے کہ کوئی ذی روح اور کوئی جاندار ایسانہیں ہے کہ جس کے دل میں آزادی کا جذبہ نہ ہو،آزادی اگر سلب ہوجائے تو اس سے بڑاکوئی حادثہ نہیں ہوسکتا، ہندوستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔ہندوستان کئی برسوں تک غلام رہا،اس کے بعد ہرطبقے کے لوگو ں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے غیرمعمولی کوششیں کیں اورملک کی آزادی کے لیے قربانیاں دیں اور جان کے نذرانے پیش کیے تب جاکر ہماراملک 1947میں آزاد ہوا۔اسی لیے آج ہم اس کا جشن منارہے ہیں تاکہ نوجوان نسل ان کی جدوجہد اورقربانیوں سے سیکھے اورملک کی ترقی اورناموری کے لیے اپنے طور پرکوششیں کرے۔ انھوں نے شعرا اورادبا کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آزادی کی جدوجہد میں ارد و شعراو ادباکا اہم کرداررہاہے۔انقلاب زندہ باد کا نعرہ اردو کے مشہورشاعرحسرت موہانی نے دیاتھاجو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مجاہدآزادی بھی تھے۔انھوں نے مزیدکہاکہ ہندوستان کے مختلف شہروں سے اردو اکادمی دہلی کی دعوت پر بہت اہم شعرایہاں تشریف لائے ہیں، میں تمام حضرات کو صمیم قلب سے خوش آمدیدکہتاہوںاوران کا استقبال کرتاہوں۔انھوں نے تمام سامعین کا بھی شکر یہ اداکیا اور کہاکہ آپ لوگ اپنی مصروفیات کے باوجود کثیر تعداد میں تشریف لائے یہ آپ کی ادب نوازی اوراردو سے محبت کا بین ثبوت ہے۔ڈاکٹر کلیم قیصر نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے تمام شعراکے پیش کیے گئے اشعار کی تعریف کی کہ ان لوگوں نے آزادی کے تعلق سے بہت اچھے اور معیار ی اشعار پیش کیے،ساتھ ہی اکادمی کا بھی شکریہ اداکیاکہ اس نے جشن آزاد ی کے موقعے پر اتنے اہم اورپروقار مشاعرے کا انعقاد کیاجس میں ملک کے نامور شعرانے اپناخوبصورت کلام پیش کیا۔
مشاعرے میں اردو اکادمی کی گورننگ کونسل کے ممبرشیخ علیم الدین اسعدی،ضیاء اللہ ،محمدعارف کے علاوہ اکادمی کا پوراعملہ اور علاقے کی معزز شخصیات شریک تھیں۔امبیڈکرکالج کا پرشکوہ آڈیٹوریم سامعین سے تقریباً بھراہواتھا۔ مشاعرے کی نظامت معروف ناظم معین شاداب نے کی اورشکریہ کی رسم پروفیسر شہپررسول نے اداکی۔مشاعرے میں پڑھے گئے منتخب اشعار پیش ہیں:
کوشش یہ زیادہ سے نہ کم سے ہوئی ہے
تعمیر وطن ’میں ‘ سے نہیں ’ہم‘ سے ہوئی ہے
کلیم قیصر
میری آنکھیں بھی نہ پہچان سکیں مجھ کو نسیم
بعد مدت جو مری خود سے ملاقات ہوئی
نسیم نوری
ہم جو منزل کو ترستے تھے ترستے ہی رہے
تم تو رہبرتھے کوئی راہ دکھاتے جاتے
منظر بھوپالی
آتی ہے فلک سے شہیدوں کی یہ صدائیں
مل جل کررہوگے تو وطن شاد رہے گا
وجے تیواری
ساری دنیامرید ہے اس کی
عشق والوں کی شان ہے اردو
منیش شکلا
مختلف مذاہب کے لوگ ساتھ رہتے ہیں
ایک ملک ہے ایساجس کو ہندکہتے ہیں
سریندرشجر
میری نظر سے دیکھیے اپنے جمال کو
سوبار کہہ چکاہوں کہ باطل ہے آئینہ
جاوید مشیری
ہمارے شہر کا احساس ایک دم ہوچکامردہ
یہاں پر لوگ ایمبولینس کو بھی رستہ نہیں دیتے
معین شاداب
سینے سے لگاکر میں رکھتی ہوں ترنگے کو
ہے کون مرے جیسابیٹی ہوں میں بھارت کی
انادہلوی
نفرت بھلاکے سب کو گلے سے لگائیے
روٹھاہے گرچہ کوئی اسے بھی منائیے
انجم جعفری
ساراجیون بن میں گذاراجاسکتاہے
آن کی خاطر سب کچھ ہاراجاسکتاہے
راجیوریاض
اداس ہیں جو حسین چہرے
میں ان کو ہنسناسکھارہاہوں
انس فیضی