9654882771
خاکہ نگاری اردو زبان و ادب کی ایک مقبول صنف ہے۔مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، عصمت چغتائی، شوکت تھانوی، خواجہ حسن نظامی، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی وغیرہ ایسی شخصیات ہیں جن کے ذکر کے بغیر خاکے کا تصور بھی محال ہے۔ اس فہرست میں پروفیسر عتیق اللہ کا نام بھی شامل ہوگیا ہے ۔ گو کہ ان کی اصل شناخت ایک عمدہ شاعر، اعلیٰ نقاد، مترجم اور ڈراما نگار کے طور پر مسلم ہے، مگران کی خاکوں پر مشتمل دوکتابیں’کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے‘ اور ’کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے‘ کے مطالعے سے قارئین کو یہ کہنے میں تامل نہ ہوگا کہ پروفیسر عتیق ایک عمدہ خاکہ نگار بھی ہیں۔
زیرنظر کتاب ’کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے ‘ میں 28 خاکے شامل ہیں جن میں عبدالستار دلوی، صدیق الرحمن قدوائی، شارب ردولوی، عبدالحق، اشعر نجمی، صادق، شین کاف نظام، خالد جاوید، شاہد لطیف، شہناز نبی، پروین شیر، قاضی عبیدالرحمن ہاشمی، کوثرمظہری، خواجہ محمد اکرام الدین، شیخ عقیل احمد، آفتاب احمد آفاقی، فاروق مضطر، حمید سہروردی، خالد محمود، محمد نعمان خان، شہزاد انجم، قمرالہدیٰ فریدی، کوثر صدیقی، ارتکاز افضل، انتخاب حمید، خان سعید زیدی، خان شمیم خان، خان مقیم خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ کتاب میں جن شخصیات کے خاکے شامل ہیں ان میں کچھ پروفیسر عتیق اللہ کے ہم عصر ہیں، کچھ ان کے بے تکلف دوست ہیں تو کچھ ان کے شاگرد۔ کتاب میں شامل تمام خاکے زندہ شخصیات پر ہیں۔البتہ شارب ردولوی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت یہ کتاب تقریباً چھپ چکی تھی۔ ایسے میں اس خاکے کو الگ کرنا ممکن نہیں تھا۔
پروفیسر عتیق اللہ کے خاکوں کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے روایتی خاکہ نگاری کی تکنیک سے گریز کیا ہے، سوانحی معلومات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔بیشتر خاکوں میں شخصیت کے ذکر کے ساتھ ادبی پہلوؤں کو نمایاں طور اجاگر کیا گیا ہے۔ ان خاکوں میں کچھ حسین یادیں ہیں تو کچھ بھول جانے والی باتیں بھی، کچھ شوخیاں ہیں اور کچھ شرارتیں بھی۔ دوستوں سے چہل بازی بھی ہے اور طنز و مزاح کی جھلکیاں بھی، صرف خوبیاں ہی نہیں بلکہ خامیوں کو بھی شگفتہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ان خاکوں میں افسانوی اور ڈرامائی انداز کا خاص خیال رکھا ہے جس سے کہ یہ قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
پروفیسر عتیق اللہ کی خاکہ نگاری کے اوصاف کو صحیح معنوں میں کتاب کے مطالعے سے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ضمناً میں کچھ خاکوں کے اقتباسات تحریر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ کتاب میں شامل پہلا خاکہ عبدالستار دلوی پر ہے۔ عبدالستار دلوی کی شخصیت اور ادبی خدمات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔ تراجم میں انھوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ دلوی صاحب نے اقبال کے ایک ممدوح بھرترہری کے 200 شلوکوں کا ترجمہ کرکے اقبال اور بھرترہری کی ذہنی مماثلتوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ دلوی صاحب اس عمر میں بھی فعال ہیں۔ عتیق اللہ صاحب ان کے تعلق لکھتے ہیں:
’’بوڑھوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا (حالانکہ دلوی صاحب خیر سے بوڑھے نہیں ہیں) لیکن دلوی صاحب نے مستقبل کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا ہے، وہ مستقبل بین ہیںا ور مستقبل کا استقبال کرتے آئے ہیں۔ حال، ماضی اور مستقبل کی منطق کو وہ بھی نہیں مانتے۔ یہی چیز انھیں بوڑھا نہیں ہونے دیتی اور وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے کیونکہ وہ ہی نہیں ان کے الفاظ بھی جوان ہیں اور ان کی یادداشت بھی بفضلِ خدا تازہ دم اور جوان ہے۔‘‘ (کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے، ص 19)
ایک خاکہ صدیق الرحمن قدوائی پر بھی ہے۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت اور باغ و بہار ہے۔ اس وقت وہ 90 کی دہائی پار کرچکے ہیں، مگر ان کا علمی کام ہنوز جاری ہے۔ عمر کے اس پڑاؤ میں بھی ان میں لکھنے پڑھنے کا ویسا ہی جنون ہے جیسا کہ جوانی کے دنوں میں تھا۔سمیناروں میں ان کی شرکت ان کے زندہ دلی کا ثبوت ہے۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے پروفیسر عتیق اللہ لکھتے ہیں:
’’قدوائی صاحب کی شخصیت ہے ہی ایسی جسے علم نے حلم کی توفیق عطا کی ہے۔ انھوں نے علم کو اسلحہ بنایا، نہ اس کی تشہیر کی، نہ تحسین و توصیف کی کسی سے امید رکھی اور نہ انعام واکرام کے لیے فضا بندی و فرش بندی کی۔ جو آپ ہی آپ ملا اس پرقانع ہی نہیں ہوئے بلکہ حیرت کا اظہار بھی کیا۔‘‘(ایضاً، ص20)
شارب ردولوی صاحب کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ پروفیسر عتیق اللہ کا تنقید کی طرف میلان ان کی کتاب ’جدید اردو تنقید اصول و نظریات‘ کے مطالعے کے بعد ہی ہوا۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
میں انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد اردو ادبیات میں ایم۔ اے کیااور اسی دوران اردو میں ادبی تنقید کی تاریخ یا تنقید: معنی و مفہوم کے عنوان سے تلاش کرنے کے بعد آل احمد سرور کی کتاب ’تنقید کیا ہے‘ دستیاب ہوئی۔ بہت جلد خوشی مایوسی میں بدل گئی… دوسری کتاب عبادت بریلوی کی ’اردو تنقید کی تاریخ‘ میسر آئی اور میں نے اپنا سر پیٹ لیا… اسی اثنا میں شارب ردولوی صاحب کی ’جدید اردو تنقید اصول و نظریات‘ سے سابقہ پڑا۔ یہ ایک تحقیقی و تنقیدی کارنامہ تھا۔ اس میں شارب صاحب کا اندازِ نظر سائنٹفک ہے… میں اس سے مستفیض بھی ہوا… اس کتاب کو دیکھنے اور پڑھنے کے بعد یہ خیال بھی گزرا کہ اردو تنقید کے مختلف دبستانو ںپر شارب صاحب کی کتاب کے بعد مغربی تنقید کے ارتقا پر کام کیا جاسکتا ہے۔ تقریباً 50 برس بعد آخرکار میری کتاب ’مغرب میں تنقید کی روایت‘ منظرعام پر آگئی۔ دیکھا جائے تو شارب صاحب ہی اس کے محرکِ اوّل تھے اور یہ بات میں کبھی نہیں بھول سکا۔ ‘‘(ایضاً، ص 30-31)
قاضی عبیدالرحمن ہاشمی جو قاضی صاحب یا ہاشمی صاحب دونوں سے مشہور ہیں۔ عتیق اللہ صاحب کے بے تکلف دوست ہیں۔ ہاشمی صاحب سچ میں بہت بھلے آدمی ہیں، ان کی سادگی کو بہت سارے لوگ ان کی بیوقوفی میں شمار کرتے ہیں۔عتیق اللہ اس تعلق سے لکھتے ہیں:
’’قاضی جی کو میں اپنے گہرے دوستوں میں شمار کرتا ہوں۔ وہ مجھے مفید مطلب سمجھیں نہ سمجھیں لیکن اس صحرائے بے آب و گیاہ میںان کی موجودگی میرے لیے نخلستان سے کم نہیں۔ وہ جتنے بے نفس، بے نیاز اور صوفیانہ مزاج کے نظر آتے ہیں، وہ طبعاً اور اصلاً ویسے ہوں نہ ہوں لیکن میں نے انھیں ہمیشہ ادل بدل کرکے دو شرٹوں میں دیکھا ہے۔ تیسری شرٹ اگر تحفۃً انھیں ملتی ہے تو اسے دوسرے ضرورت مندوں کو نذر کردیتے ہیں۔‘‘ (ص 124-25)
اس خاکے میں قاضی عبیدالرحمن کی شخصیت کے تقریباً تمام پہلوؤں کا بے حد عمدہ طریقے سے احاطہ کیا گیا ہے، اس خاکے میں مزاح بھی ہے، طنز بھی ہے۔ ان کی سادگی کا بھی ذکر ہے اور ان کی دریادلی کا بھی۔
جب عتیق اللہ صاحب کے دوستوں کا ذکر ہورہا ہو تو اورنگ آباد کا نام یوں بھی ضروری ہے کہ اس شہر میں عتیق اللہ کے احباب کی ایک طویل فہرست ہے۔ پروفیسر انتخاب حمید، ارتکاز افضل، خان سعیدی زیدی، خان مقیم و خان شمیم کا ذکر تو بارہا میں ان کی زبان سے سنتا رہتا ہوں۔ ان تمام شخصیات کے خاکے اس کتاب کا حصہ ہیں۔ خان مقیم پر تو عتیق اللہ صاحب اتنا عمدہ خاکہ تحریر کیا ہے کہ ان کی پوری شخصیت کی نمایاں خوبیاں ہوبہو سامنے آجاتی ہیں۔ خان مقیم خان مہمان نوازی کے لیے بہت مشہور ہیں، کوئی بھی ان کے دروازے پر پہنچ جائے، اس کی خاطر تواضع وہ ضروری سمجھتے ہیں اور جب عتیق اللہ صاحب کی بات آجائے تو پھر کیا پوچھنا۔ اس تعلق سے عتیق اللہ صاحب نے بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں:
’’خان مقیم خان، حال مقیم اورنگ آباد، ماضی مقیم اورنگ آباد، مستقبل مقیم اورنگ آباد۔ کمال کی شخصیت، کمال کی آواز، کمال کی بیگم شائستہ جو ضرورت سے زیادہ شوہر نامدار کے تئیں وفادار، خدمت گزار، اطاعت گزار جتنے بھی گزار لاحقے سے اسمائے صفات بنتے ہوں وہ سب ان پر صادق آتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے صبح سویرے چولھا جلتا ہے تو دیر رات تک اس کے شکم کی آگ نہیں بجھتی۔ خان مقیم کا حلقۂ احباب بھی ان کے قلب نامعقول کی طرح نہایت وسیع ہے… خان مقیم دوستوں کے پیٹوں پر جان فدا کرتے ہیں۔ ویسے اہلِ اورنگ آباد مہمان نوازی میں کچھ زیادہ ہی زیربار ہونے کے عادی ہیں۔ پیٹ پر جان فدا کا کلمہ میں نے انھیں کے لیے ایجاد کیا تھا۔جواب سکۂ رائج الوقت ہے۔‘‘(کچھ یاد رہا، ص 243)
شیخ عقیل احمد کے خاکے کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ یہ عتیق اللہ صاحب کے شاگرد بھی ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے طویل عرصے تک وابستہ رہے ہیں۔ شعبے سے جڑی بہت سی کھٹی میٹھی یادیں آج بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ شعبۂ اردو کے صدر کی حیثیت سے عتیق اللہ صاحب کے بہت تلخ تجربات رہے ہیں۔ انھوں نے شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ کی آپسی چپقلش کا ذکر اس خاکے میں بہت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’مولانا آزاد کالج اورنگ آباد (1971) میں جب اردو پڑھانے پر مامور ہوا وہاں بھی ایک مہاجر تھا اور پھر عاشقی میں کامیابی کیا ملی اس پاداش میں پھر دوسری ہجرت کرنی پڑی تو دہلی میں خیمہ زنی اختیار کی اور دہلی یونیورسٹی کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بھی پڑھایا۔ گویا گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اور پھر اپنی پگڑی سنبھالتے اور ذلتوں کی ایک گٹھری کاندھوں پر اٹھائے ہوئے 2 جولائی 2005 کو سبکدوش بھی ہوگیا۔ وہ میری رہائی کا دن تھا…‘‘(ص 150)
پروفیسر عتیق اللہ کے تمام خاکوں کا اسلوب نہایت دلکش ہے۔ زبان و بیان میں جاذبیت ہے۔ خاکوں میں اس قدر تسلسل اور روانی ہے کہ قاری کسی خاکہ کو شروع کرنے کے بعد ختم کرکے ہی دم لے گا۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ پروفیسر عتیق اللہ کے یہ خاکے قارئین کو چونکانے کے ساتھ مہمیز بھی کریں گے۔
اس کتاب کے مرتب ڈاکٹر محمدسلیم ہیں۔ یہ ان کی پہلی کتاب ہے جسے انھوں نے ترتیب دیا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ کے خاکوں کے تعلق سے ’عرض مرتب‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ:
’’پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے خاکوں میں اشخاص کی تصویرکشی ہی نہیں کی ہے بلکہ ان اشخاص کی گفتگو کو بھی جگہ دی ہے جس سے ان خاکوں میں بت گری کی صورت نہیں ملتی بلکہ چلتی پھرتی زندگیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم ان کے قریب ہیں اور انھیں سن رہے ہیں۔(ایضاً، ص 8)
ڈاکٹر محمد سلیم لائق مبارک باد ہیں کہ انھوں نے پروفیسر عتیق اللہ جیسی ہمہ جہت شخصیت کے خاکوں کو ترتیب دینے اور قارئین تک پہچانے کا فریضہ انجام دیا۔
248صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 350 روپے ہے۔ دبستانِ ہمالہ، راجوری (جموں اینڈ کشمیر) کے زیراہتمام اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ خاکوں سے شغف رکھنے والے قارئین اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں گے۔
(یہ تبصرہ ماہنامہ ’آجکل‘اپریل 2024کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے)