Home نقدوتبصرہ کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا-محمد اویس سنبھلی

کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا-محمد اویس سنبھلی

by قندیل

مصنف:مولانا عبدالعلی فاروقی

سن اشاعت:۲۰۲۵

قیمت:۳۰۰؍روپے

ناشر:مکتبہ البدر ،کاکوری ، لکھنؤ

مولانا عبدالعلی فاروقی کا شمار لکھنؤ کے معزز خانوادۂ فاروقی کے اہم فرد اور عالم دین کے طور پر ہوتا ہے، جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بی اے اور ایم اے کی ڈگری بھی لی اور گورنمنٹ کالج میں لیکچرار کے عہدہ پر منتخب ہوجانے کے باوجود اپنے والد مولانا عبدالحلیم فاروقی کے قائم کردہ دارالعلوم فاروقیہ کاکوروی کو اپنا میدان عمل بنایا اور ان کے خواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے کے لئے دنیاوی مناصب کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا، جس کا تفصیلی ذکر ہمیں ان کی آپ بیتی ’’کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا‘‘ میںپڑھنے کو ملتا ہے، مولانا نے’’چل مرے خامے بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے آپ بیتی قلمبند کرنے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’آپ بیتی قلمبند کرنے کا جواز مجھے مولانا عبدالماجد دریا بادی کی آپ بیتی سے ملا، جسے پڑھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنے قلم سے اپنی سرگذشت کے کمزور پہلوؤں کو جس طرح خود آپ بیتی رقم کرنے والا لکھ سکتا ہے، دوسرا نہیں لکھ سکتا ہے۔‘‘(ص: 7)

مولانا کی یہ بات متعدد سوانح حیات اور خود نوشت کے مطالعہ سے ثابت بھی ہوجاتی ہے کہ بسااوقات کسی شخصیت کی سوانح حیات لکھتے وقت مصنف متعلقہ چیزوں کے ذکر میں بہت کم توازن قائم کر پاتا ہے اور صاحب سوانح سے محبت یا نفرت غالب آجاتی ہے، جس کی ایک مشہور مثال’ حیات جاوید‘ ہے جس کو علامہ شبلی نے مدلل مداحی سے تعبیر کیا ہے۔ البتہ خود نوشت کا معاملہ بھی اس سے سوا نہیں ہے، چونکہ اس میں آپ بیتی لکھنے والے کو بھی یہ اختیار مل جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے متعلق کن چیزوں کو ظاہر کرے اور کن چیزوں کی پردہ پوشی، چونکہ خود نوشت لکھتے وقت صاحب قلم اپنی حصولیابیوں کو نہایت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اپنے کمزور پہلوؤں کے ذکر سے اس طرح پردہ پوشی فرماتے ہیں کہ انسان سے فرشتہ کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں اور آپ بیتی لکھتے ہوئے بہت کم افراد اس سے اپنا دامن محفوظ رکھ پاتے ہیں، جس کی کئی مثالیں اردو زبان وادب میں مل جائیں گی۔ مولانا عبدالعلی فاروقی نے اپنی آپ بیتی میں اس توازن کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پیش نظر کتاب نہ یہ مکمل آپ بیتی ہے نہ اس میں آپ بیتی کے تمام تر فن کی پاسداری کی گئی ہے۔دراصل یہ کتاب کئی سال قبل یادوں اور باتوں پر مشتمل شائع ہونے والی مولانا کی کتاب ’’یادوں کے جھروکوں سے‘‘ کا اضافہ ہے جو نئی ترتیب کے ساتھ اترپردیش اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب میں مولانامحمد زکریا سنبھلی مدظلہ ٗکی تقریظِ معتبر شامل ہے جس میں مولانا نے کتاب کے مشمولات کو زیر بحث لاتے ہوئے مدرسہ نور العلوم بہرائچ کے حوالہ سے اپنی یادوں کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ احمد ابراہیم علوی نے کتاب اور مولانا کے تعلق سے بہت دلچسپ گفتگو کی ہے، لکھتے ہیں:

’’مولانا نے یہ بڑا غضب کیا کہ سب کچھ لکھ کر بھی وہ نہ لکھا، جس سے ہم ان کو اپنا جیسا عام آدمی سمجھ سکیں ،بس یہی بات ہم کو ان سے دور کر دیتی ہے۔ ہم کیسے یقین کریں کہ مولانا کبھی بہکے ہی نہیں؟ پردہ نشین شریف بہو بیٹیوں کی طرح گھر میں رہے اور اس چہار دیواری سے باہر بھی قدم نہیں نکالا۔ حد یہ ہے کہ وہ اپنی پسند تک کا اظہار کرنے سے گریزاں ہی رہے۔ بڑے نیک، شریف، مہذب پر خلوص ایمان دار ہی رہے۔ عشق کی منزل تو وہ ہے جہاں بڑے بڑے بہک کر بڑوں بڑوں کو بہکا دیتے ہیں تب جا کر غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ توبہ کی جاتی ہے، توبہ ہوتی ہے تب ایک عام آدمی انسان بن کر نمایاں ہوتا ہے تو قابل رشک ہوتا ہے۔ مولانا نے بغیر بہکے قابل رشک بن کر ہم جیسے شیطان صفت لوگوں کو پریشان کیا ہے۔ ہم مجبوراً تعریف کر رہے ہیں۔ واقعی مولانا کی تحریر پرکشش دل نشین قابل تحسین ہے۔‘‘(ص: 18)

حالانکہ مولانا عبدالعلی فاروقی کی خودنوشت’کچھ یاد رہا کچھ بھول گیا‘ احمد ابراہیم علوی کی مذکورہ فکر سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی۔

مولانا عبدالعلی فاروقی نے پیش نظر کتاب کو سات شہ سرخیوں میں تقسیم کیا ہے، جس کی ابتداء ’’میری کار گاہ رنگا رنگ — دارالعلوم فاروقیہ‘‘سے ہوتی ہے، جس کے تحت آٹھ ذیلی عناوین کچھ اس طرح سے ہیں:

زندگی کا انقلابی موڑ

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

میرے ناقابلِ فراموش اساتذہ

عملی زندگی کا آغاز

ہماری حصول یابیاں

البدر کا اجرا

دارالعلوم فاروقیہ کی بنا کا اصل جوہر اور اس کی برکتیں

دارالعلوم فاروقیہ کی کچھ غیر تدریسی سرگرمیاں

جس میں’’کار گاہ رنگا رنگ‘‘ کے تحت مولانا عبدالعلی فاروقی نے دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کے بعد والد صاحب مولانا عبدالحلیم فاروقیؒ کے قائم کردہ دارالعلوم فاروقیہ کاکوری میں بطور استاذ تقرر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مدرسہ تجوید الفرقان، مدرسہ نور العلوم اور دارالمبلغین کے ابتدائی تعلیمی ایام کااور’’ہماری حصول یابیاں‘‘کے نام سے دارالعلوم فاروقیہ میں منعقد ہونے والی ہفتہ واری شعری نشستوں کا دلچسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے جہاں شعر نہ کہنے کی صورت میں بطور جرمانہ احباب کی ضیافت کی ذمہ داری ہوتی، ان ادبی وشعری نشستوں سے مرتب ہونے والے اثرات کا مختصر حال مولانا کی زبانی ملاحظہ ہو جس کی مثال اب بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے:

’’مہینے میں دو مرتبہ جمعرات کے دن بعد نماز ظہر تا نماز عصر سجنے والی ان شعری نشستوں کی ترتیب یہ رہتی کہ ایک مرتبہ نعت کا کوئی مصرع اور دوسری مرتبہ غزل کا کوئی مصرع طبع آزمائی کے لئے باہمی مشورہ سے دیا جاتا اور پھر پندرہ دن کے بعد ہر شاعر یا متشاعر کی شاعری امتحان کے مرحلہ سے گزرتی۔ اپنی سمجھ میں آنے والے اچھے شعروں پر کھل کر داد دی جاتی، اور کمزور یا ناموزوں قرار دیئے جانے والے شعروں پر باقاعدہ ہوٹنگ بھی ہوتی۔‘‘(ص: 54)

ان نشستوں میں کیسی کیسی کمال کی شاعری ہوتی تھی؟۔ اس کا اندازہ جرمانہ بھرنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی نعت شریف کے ساتھ شرکت کرنے والے مولا نا محمد فضل الرحمن نعمانی کے اس ’’بے مثال مقطع‘‘ سے کیا جا سکتا ہے کہ

اے نعمانیؔ آؤ ’’آب زمزم‘‘ پئیں ’’حوض کوثر‘‘ کا مجھ کو پتہ مل گیا

’’آب زمزم‘‘ سے ’’حوض کوثر‘‘ کا یہ بے مثال و نادر جوڑ جبری شاعری کی صرف ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ ورنہ ایسی کئی دیگر مثالیں بھی ذہن میں کلبلا رہی ہیں؟۔ ان نشستوں کا بہر حال یہ فائدہ تو ہوا ہی کہ مولانا محمد کاظم ندوی، اور مولانا جمیل احمد نذیری با قاعدہ اور ’’با کتاب‘‘ شاعر بن گئے۔ بڑی حد تک قاری حبیب الرحمن بھی شاعر بن گئے تھے جو اپنی شاعری کواب تک پروان چڑھانے میں مشغول ہیں۔ مولا نا فضل الرحمن گونڈوی مرحوم تو پہلے ہی سے باقاعدہ اور بہرائچ کے زمانہ طالب علمی میں جمال بہرائچی کے تلمذ میں رہ کر شاعر بن چکے تھے۔

بعد میں مولانا محمد کاظم ندوی نے اپنے ذوق کے مطابق انتخاب کر کے اس نشست کے لئے کہی گئی نعتوں کا ایک مختصر مجموعہ ’’گلدستہ نعت‘‘ کے نام سے اپنے مکتبہ ایوب سے شائع کیا تھا۔ جس میں تین یا چار نعتیں راقم الحروف کی بھی شامل ہیں۔‘‘ (ص: 55)

’’دارالعلوم فاروقیہ کی بنا کا اصل جوہر اور اس کی برکتیں‘‘اور ’’دارالعلوم فاروقیہ کی کچھ غیر تدریسی سرگرمیاں‘‘۔ ان دو عناوین کے ذیل میں مولانا نے دارالعلوم فاروقیہ کی بنا کے مقصد اور محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے نیز مدرسہ کے اساتذہ، کارکنان اور افراد سے وابستہ کئی واقعات بھی شامل کئے ہیں جو کتاب کو دلچسپ بناتے ہیں۔

’’جاری ہے زندگی کا سفر‘‘کے تحت چار ذیلی عناوین ہیں جس میں لکھنؤ کی اہم سیاسی اور سماجی شخصیات ،زندگی کے لمحوں میں رنگ بھرنے والے دوست احباب، ملنے، بچھڑنے والی عظیم شخصیات و بزرگوں کی وفات نیز ان کی یادوں اور باتوں کا ذکر ملتا ہے، خصوصا مرحوم والدین کا تذکرہ،اعزاز رضوی، عبدالقدوس ہاشمی ، مست حفیظ رحمانی، مولانا قاری صدیق احمد باندوی، شاہ مصطفی حیدر عرف اڈن میاں ، مولانا متین الحق اسامہ قاسمی اور دیگر کا نام شامل ہے۔’’تجربات زندگی‘‘ کے ذیل میں مولانا نے 6؍ عناوین قائم کئے ہیں جس میں اپنی زندگی سے جڑے کئی اہم واقعات اور والد صاحب کی جانب سے کی گئی نصیحتوں کا ذکر ملتا ہے۔ جو بہت سے نئے سبق دے جاتا ہے۔

’’کیا یاد رہا ایک مثال‘‘کے عنوان سے مولاناعبدالعلی فاروقی نے بچپن کی یادوں میںمولانا حسین احمد مدنی کی جھلک، زیارت اور ان کے دعائیہ کلمات کا ذکر کرتے ہوئے، محض یاد داشت کی بنیاد پر حسین احمد مدنی کی قلمی تصویر اتنی مشاق اور عمدگی سے کھینچی ہے کہ نگاہوں میں مولانا مدنی کے نورانی چہرے کا عکس اُبھر آتا ہے۔

’’کیا بھول گیا ایک مثال‘‘ کے نام سے ممبئی میں اپنے ایک شاگرد کا واقعہ اور کاکوری میں اپنے خانوادہ کے مورث اعلی حکیم فضل علی صاحب مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے دیگر خاندانی حالات نیز اپنی پیدائش، تعلیم وتربیت کے متعلق تفصیل سے بیان کیا ہے، جو ایک طرح سے کتاب کی پہلی شہ سرخی ’’کار گاہ رنگا رنگ‘‘ کا تتمہ ہے، اس حوالہ سے مولانا لکھتے ہیں:

’’میں نے اپنی داستان زندگی کے اس حصہ کو پہلے قلم بند کر دیا جو اس حصہ کی تحریر سے آگے کا ہے، کیوں کہ اس وقت جو یاد آ گیا یہ سوچ کر لکھ دیا کہ کہیں یہ بھی ’’جو بھول گیا‘‘ کی نذرنہ ہو جائے۔ اس لئے ممکن ہے کہ کچھ باتوں کی تکرار ہوگئی ہو؟ مگر میں اب اس میں کوئی قطع و بُرید نہیں کروں گا جو لکھ گیا وہ لکھ گیا۔‘‘(ص: 197)

البتہ میری رائے ہے کہ مولانا تحریر میں(قطع و بُرید)کتربِیوت کئے بغیر، کتاب کی ترتیب میں معمولی سی رد وبدل کردیتے تو کتاب مزید بہتر اور دلچسپ ہوجاتی اور اس کی اہمیت وافادیت میں کسی طرح کی کوئی کمی بھی نہ آتی نیز قاری ذہنی تشنُّج میں بھی مبتلا نہ ہوتا اور بعض باتوں کی تکرار سے بھی بچ جاتا، جس کا اعتراف انہوں نے خود مذکورہ سطور میں کیا ہے۔

مذکوہ عنوان کے تحت مولانا نے لکھنؤ کی تہذیب وثقافت، شرفاء کا رہن سہن، آپسی بھائی چارہ اور بھولی بسری لکھنوی تہذیب کا بھی سرسری ذکر کیا ہے، مزید یہ کہ کھانے پینے کی اشیاء میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر بھی ملتا ہے جن کا اب لکھنؤ میں کوئی تصور نہیں، ملاحظہ ہو:

’’کھانے پینے کے لئے فروخت ہونے والی اشیاء میں ایک قسم کی ندرت ہوا کرتی تھی۔ مثلاً گنے کو باقاعدہ چھیل کر اس کے چھوٹے چھوٹے برابر سائز کے ٹکڑے کئے جاتے۔ پھر انہیں تھالی نما ایک جھلی میں سجا کر رکھا جاتا۔ اور ان پر عرق گلاب یا کیوڑہ چھڑک کر در میان درمیان کئی جگہ ان پر گلاب کے پھول رکھے جاتے اور پھر اسے ’’گنڈیری گلاب‘‘ کی صدا لگا کر فروخت کیا جاتا۔

برسات کے موسم میں گلی گلی صدالگا کر’’کھویا پٹی‘‘ بیچنے والے بھی رات کے وقت آتے، جن کا ہم بچے والہانہ استقبال کرتے۔ اور ہمارے طفیل میں گھر کے بڑے بھی لکھنو کی ’’خاص ڈش‘‘ کھو یا پٹی سے لطف اندوز ہوتے۔‘‘(ص: 204-205)

’’ایک طلسماتی شخصیت‘‘ کے تحت مولانا پالن حقانی مرحوم جیسی عظیم شخصیت کے بارے میں لکھ کر انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید کردیا ہے۔’’ایک بڑا خسارہ‘‘ اور’’یہ بھی ہونا تھا‘‘کے عنوان سے مولانا عبدالعلی فاروقی نے بالترتیب اپنے چھوٹے بھائی مولانا عبدالولی فاروقی اور جانشین امام اہلسنت مولانا عبدالعلیم فاروقی کے سانحہ ارتحال پر اپنے احساسات وجذبات کا بیان کرتے ہوئے ان کا سوانحی خاکہ پیش کیا ہے۔

مولاناعبدالعلی فاروقی کا اسلوب عمدہ اور زبان شستہ ہے، ان کی تحریر میں پرانے لکھنؤ کی چاشنی اور نئی تہذیب کی آہٹ بھی شامل ہے، قارئین کتاب کے مطالعہ سے مایوس نہیں ہوں گے۔

پیش نظر کتاب 248 صفحات پر مشتمل ہے، جس کو لونا پرنٹنگ پریس نے زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے، کتاب کی قیمت تین سو روپے ہے جسے مکتبہ البدر کاکوری سے فون نمبر(9415775044) پررابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

You may also like