Home تجزیہ کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے !-پروفیسر مشتاق احمد

کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے !-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

اس ہفتے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے دو ایسے بیانات جاری ہوئے ہیں جس کو نہ صرف قومی ذرائع ابلاغ میں بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اور ان دونوں بیانات پر مختلف تنظیموں اور بالخصوص کئی مسلم تنظیموں اور رہنماؤں کی جانب سے بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں اور ان کے حالیہ بیانات کو مثبت قرار دیتے ہوئے خیر مقدم بھی کیا جا رہاہے اور اس میں مختلف سیاسی جماعتوں اور خود مختار قومی وملّی رہنما شامل ہیں ۔سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ شری بھاگوت کے بیانات کیا ہیں۔ اول بیان ۱۹؍ دسمبر کو موہن بھاگوت کے ذریعہ دیا گیا کہ ’’ایودھیا میں رام مندر بننے کے بعد کچھ لوگ ایسے ایشوز کو اچھال کر خود کو ہندوؤں کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔ اور دوسرا بیان گذشتہ دن مہاراشٹر کے امراوتی میں مہانوبھاؤ آشرم کی صد سالہ تقریبات کو خطاب کرتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا کہ ’’مذہب کے نام پر جو بھی ظلم اور جبر ہوا ہے وہ صرف غلط فہمی اور مذہب کے بارے میں نا مکمل معلومات کی وجہ سے ہوا ہے ‘‘ ان دونوں بیانات کا خیر مقدم کیا جانا فطری عمل ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کی مسموم فضا ہے اور بالخصوص مسلم اقلیت طبقے کے لیے فتنہ انگیزی اپنے شباب پر ہے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے مسلم اقلیت کی حمایت میں کھڑے ہونے کی امیدیں ختم ہوگئی ہیں ایسے وقت میں اگر آر ایس ایس چیف اس طرح کا بیان دے رہے ہیں تو اس سے پُر امید ہونا لمحاتی عمل تو ہے مگر ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ان دونوں بیانات کی ٹائمنگ کو دیکھیں گے تو پھر اس طرح کے بیان کے پسِ پردہ کی حقیقت خود بخود عیاں ہو جائے گی ۔ واضح ہو کہ اولاً حال ہی میں دنیا کی مختلف رضا کار تنظیموں اور بالخصوص امریکہ جیسے سوپر پاور ملک نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے لیے جس طرح اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز بیانات حکمراں جماعتوں کے لیڈروں کے ذریعہ دیا جا رہاہے وہ تشویشناک ہے۔ دوئم ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت کویت کے دورہ پر ہیں اور اس دورہ کو نہ صرف ہندکویت کے درمیان مستحکم رشتوں کی وکالت کی جا رہی ہے بلکہ یہ کہا جا رہاہے کہ اس دورے سے مسلم ممالک میں ایک مثبت پیغام جائے گا۔ظاہر ہے کہ تقریباً ۴۳؍ برسوں کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم کا کویت دورہ ہوا ہے کیوں کہ ۱۹۸۱ء میں آنجہانی محترمہ اندرا گاندھی کویت گئی تھیں البتہ اس طویل عرصے میں دونوں ممالک کے وزراء کا وفد آتا جاتا رہا ہے لیکن نریندر مودی کا وہاں جانا ایک تاریخی دورہ تو ضرور ہے کہ کویت کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’’دی آرڈر آف مبارک الکبیر‘‘ سے انہیں نوازا گیاہے۔میرے خیال سے اب یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ موہن بھاگوت نے اپنے مذکورہ دونوں بیانات کے لیے یہ وقت کیوں منتخب کیا ہے۔

بہر حال! آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کے بیانات پر آمنّا صدقنا یقین کرنا نہ صرف تاریخی حقائق سے نا واقفیت ہوگی بلکہ خوش فہمی میں مبتلا ہونا سمجھا جائے گا۔اگر ہمارے قارئین کی یادداشت مستحکم ہے تو انہیں یہ یاد ہوگا کہ موہن بھاگوت نے ۲۰۲۲ء میں اسی طرح کا ایک بیان گیان واپی مسجد کے تعلق سے بھی دیا تھا کہ ’’رام مندر کی تعمیر کے بعد اب ہر مسجد کے نیچے شیو لنگ نہ ڈھونڈا جائے ‘‘۔لیکن اس بیان کے بعد کیا کچھ ہوا وہ سامنے ہے اور اس پر موہن بھاگوت جی کی خاموشی بھی اظہر من الشمس ہے ۔ اس لیے حالیہ بیان کو بھی ہندوستانی سیاست کی شطرنجی چال کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کیوں کہ جس وقت موہن بھاگوت جی کا بیان قومی ذرائع ابلاغ میں سرخیاں بن رہا تھا اسی وقت اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت وسواشرما کے بیانات بھی سرخیاں بن رہے تھے۔ اگر واقعی موہن بھاگوت جی کا مقصد ملک میں امن وامان بحال کرنا ہے اور مبینہ طورپر ہندو مذہب کو بدنام کرنے والوں پر نکیل کسنا ہے تو پھر مختلف ریاستوں میں ان کے نظریے کے علمبرداروں کی حکومت ہے اور ملک کی قیادت بھی ان ہی کے نظریوں کو فروغ دینے والوں کے ہاتھوں میں ہے ۔ اگر وہ چاہیں تو منٹوں میں ملک کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ جہاں تک ان کے حالیہ بیان کہ مذہب کے نام پر ظلم وستم محض اس لیے بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ مذہب کی ناواقفیت ہے۔ بلا شبہ ان کا یہ بیان حرف بہ حرف صداقت پر مبنی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسان سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا اور نہ مذہبی جنون پیدا کر انسانی معاشرے کو تباہیوں کا شکار بنانے کی اجازت دیتا ہے۔موہن بھاگوت جو سناتن دھرم کے مبلغ ہیں اس دھرم میں تو انسان ہی نہیں بلکہ چرند پرند اور درختوں کو بھی پوجنے کی روایت ہے ۔ سناتن دھرم کا عالمی منتر ہے کہ ’’بسودیو کٹمبھ کم‘‘ یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے ۔ ظاہر ہے جس دھرم میں پوری دنیا کو ایک خاندان کا تصور ہے اس میں مذہب دیوار کہاں بنتی ہے ۔مذہب اسلام میں بھی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی وکالت کی گئی ہے اور عیسائی مذہب میں انسانیت کی پاسداری کو اولیت حاصل ہے۔سکھوں کے یہاں بھی سب انسان ایک ہے کا نعرہ گونجتا رہتا ہے اس لیے موہن بھاگوت نے جو بیان دیا ہے وہ ایک ازلی اور ابدی حقیقت ہے اورا س کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگران کے ذریعہ اس طرح کے بیانات ماضی میں بھی دیے جاتے رہے ہیں اور اس کے بعد ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں تو کیا مذکورہ دونوں بیانات کو ماضی کے بیانات سے جوڑ کر دیکھا نہیں جانا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ہمارے ملک میں جس طرح کا بیانیہ قائم کیا جا رہاہے ۔ تعلیم گاہوں سے لے کر سرکاری دفاتر میں اور اب تو عدالتی نظاموں میں بھی جس طرح کی زہر فشانی دیکھی جا رہی ہے ، کیا ایسے حالات میں ہمارا وطن عزیز ہندوستان ’’وشو گرو ‘‘بن سکتا ہے اور ہم ترقی یافتہ ملک کی قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں ؟ جس ملک کی بیس فیصد آبادی اضطرابی کیفیت کی شکار ہو ، وہ موب لینچنگ کے خوف سے ہراساں ہو ، لباس اور کھان پان کے نام پر اسے اپنی جان گنوانی پڑے ، سفر میں مذہبی شناخت کی بنیاد پر زدو کوب کیا جائے ، کیا ایسے ماحول میں ملک کی معیشت مستحکم ہو سکتی ہے؟اگر واقعی آدرنیہ موہن بھاگوت جی چاہتے ہیں کہ ان کا ملک سناتن دھرم کا علمبردار بنا رہے تو انہیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہمارا دھرم پوری دنیا کو ایک خاندان مانتا ہے اور ملک کے ہر شہری کو باعزت زندگی جینے کا موقع فراہم کرے گا کہ جب تک یہاں کا ہر شہری خوف وہراس کی دنیا سے نجات پا کر بھائی چارے کے ماحول میں زندگی گزارنے کو آزاد نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارے ملک کی معیشت کو استحکام بخشنے میں اس کی حصہ داری یقینی نہیں بن سکتی۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اس لیے موہن بھاگوت جی کے بیان کو مرزا اسدا للہ خاں غالبؔ کے اس شعر کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ صرف ’’خط‘‘ کی جگہ ’’بیان‘‘ لکھ کر دیکھیے اور اس کی معنویت پر سنجیدگی سے غور کیجیے تو خود بخود بھاگوت جی کے بیانات کی زیریں لہروں تک ہم پہنچ جائیں گے ؎

دے کے خط ،منہ دیکھتا ہے نامہ بر کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like