حالانکہ کہ یوروپ کے گلیاروں میں رپورٹنگ کرتے ہوئے اس نے کبھی نہیں سوچا کہ اسے آج کس لباس میں ہونا چاہئے لیکن آج وہ صبح سے پریشان تھی کہ اسے کون سا لباس پہننا چاہیے اور اس کا حلیہ کیسا ہو ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آج اسے دوحہ قطر میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کی رپورٹنگ کرنے تھی ۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ طالبان میڈیا والوں سے دور ہی رہتے ہیں پھر بھی اس کے دفتر کی طرف سے اسے یہ ذمداری سونپی گئی تھی کہ اگر کسی بھی طرح وہ طالبان سے رابطہ کرنے کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔اسی امید پر اس نے طالبان کی پسند کا اسلامی لباس زیب تن کرتے ہوئے قطر میں طالبان کے ہیڈ کوارٹر کی طرف نکل پڑی ۔وہ اس تشویش میں تھی کہ اگر وہ طالبان سے رابطے میں آ بھی گئی تو کہیں وہ اسے جھڑک نہ دیں لیکن وہ ہمت کر چکی تھی کہ آج ان کا کوئی بھی بندہ اگر کہیں لابی میں مل گیا تو وہ اس کا دو پانچ منٹ تو لے ہی لے گی ۔ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس نے دیکھا طالبان کے دو تین ساتھی گیلری میں کھڑے ہو کر گفتگو کر رہے ہیں وہ جھٹ سے ان کی طرف بڑھی اور سوال داغ دیا کہ میں بی بی سی پختون کی صحافی شازیہ حیا ہوں کیا آپ مجھے دو منٹ وقت دے سکتے ہیں ۔طالبان نے بہت ہی خندہ پیشانی سے اس خاتون جرنلسٹ کا استقبال کیا اور وہ ان کے مختلف عنوانات پر تین منٹ تک سوالوں کی بوچھاڑ کرتی رہی وہ اطمینان بخش جواب بھی دیتے رہے ۔وہ سارے سوالات جو خاتون جرنلسٹ نے طالبان سے پوچھا وہ تو اس نے بیان ہی کیا جو بات سیکولر اور لبرل میڈیا کیلئے اہم نہیں ہو سکتی تھی اس خاتون جرنلسٹ نے وہ بات بھی لکھی ۔اس نے لکھا کہ میں تین منٹ تک ان سے گفتگو کرتی رہی لیکن میرے سوالوں کا جواب دیتے وقت وہ اپنا سر جھکائے رہے اور میری طرف توجہ بھی نہیں دی ۔شاید وہ دوبارہ مجھے دیکھیں تو پہچان بھی نہ سکیں ۔ خاتون نے اس بات کا خلاصہ تو نہیں کیا لیکن اس نے یہ پیغام دینے کی کوشش ضرور کی ہے کہ طالبان کی اصل طاقت کا راز ان کا اخلاق اور ایمان ہے ۔اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جو لوگ افغانستان کے ستر فیصد علاقوں پر حکومت کر رہے ہیں یہ صرف ان کے ہتھیار اور جنگی صلاحیت نہیں بلکہ ان کا اخلاق اور ایمان ہی ہے جس کی وجہ سے وہ عوام کی مدد سے امریکہ جیسی طاقت کو پسپا ہونے پر مجبور کر سکے ۔شازیہ حیا سے پہلے برطانیہ کی خاتون صحافی یون ریڈلی کا نام اب کسی تعرف کا محتاج نہیں جس نے پہلی بار یوروپ کے گلیاروں میں افغان طالبان کی ایک مثبت تصویر پیش کی تھی اور پھر یون ریڈلی خود بھی اسی تصویر میں ڈھل گئیں ۔یہ وہ طالبان ہیں جو اپنے علاقوں میں ہمیشہ ہتھیار بند ہوتے ہیں اور دنیا انہیں دہشت گرد کہتی ہے ۔اب میں آپ کو بر صغیر کے مدرسوں کے ان اچھے طالبانوں کی طرف لے کر چلتا ہوں جن کے بازو ہتھیار سے نہیں کتاب اور قلم سے آراستہ ہوتے ہیں ۔انہیں پیار سے حضرت اور فضیلت الشیخ کہا جاتا ہے ۔دو دن پہلے کی بات ہے
سوشل میڈیا کے گلیاروں سے گزرتے ہوئےفیس بک کے نکڑ پر رکا تو دیکھا کچھ مدرسے کے بچوں میں تکرار ہو رہی ہے ۔تھوڑی دیر ٹھہر گیا اور ان کی گفتگو سے محفوظ ہوتے ہوئے اس گفتگو کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرلیا ۔اگر وہ بند کمرے میں یہ گفتگو کر رہے ہوتے تو شاید میں ان کی یہ گفتگو یہاں شیئر نہیں کرتا مگر یہ لوگ یہ گفتگو ایک ایسے مقام پر کر رہے تھے جسے سیٹلائٹ کے دروازے سے ساری دنیا دیکھ رہی تھی ۔دنیا نہ بھی دیکھے تو بھی یہ بچے جس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن مولوی حضرات کی تربیت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا کرچکے ہیں کیا یہ زبان اس ادارے اور ادارے سے فارغ طلبا کی شایان شان کہی جاسکتی ہے ۔ان تمام بچوں کے نام پر بھی غور کریں تو آپ کو ان میں حضرت ابوبکر عمر فاروق علی اسداللہ خالد اور سلمان جیسے ایسے صحابہ کرام کے نام کی نسبت ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت ہی قریبی ساتھیوں میں سے تھے ۔انہیں نہ تو اپنے مدرسے کا خیال ہے نہ ان صحابہ کرام کا جن کی نسبت سے ان کے والدین نے ان کا نام رکھا تاکہ ان میں نام کی تاثیر پیدا ہو سکے ۔دل میں یہ بھی خیال آیا کہ مدرسوں کے بچے ایسے نہیں ہو سکتے ہو سکتا ہے کچھ لوگ فیک آئی ڈی سے بھی انہیں بدنام کرنے کیلئے متحرک ہوں لیکن اسی فیس بک پر کچھ اچھے بھلے عالم فاضل فضیلت الشیخ حضرات کی اسی اسلوب سے قریب تر تحریریں بھی پڑھنے کو ملیں اور ان کے بارے میں یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت کے نہ صرف فیس بک پر ہزاروں فالورس ہیں اکثر مساجد میں خطبہ جمعہ کے دوران سیرت صحابہ پر بیان دیتے ہوئے زارو قطار آنسو بھی بہا لیتے ہیں ۔اس لئے یقین نہ کرنے کی وجہ بھی نہیں ہے ۔سوچتا ہوں کہ جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتی کیا وہ اپنے اخلاق کی حفاظت کر سکتی ہے ؟جو لوگ اپنے اخلاق کی حفاظت نہیں کرسکتے وہ توحید کے پابند اور اپنے ایمان کے محافظ کیسے ہو سکتے ہیں ۔جو اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتے وہ کرہ ارض کے محافظ کیسے ہو سکتے ہیں۔شازیہ حیا نے ایک تصویر دکھائی ہے میں نے یہ دوسری تصویر صرف مفکر اسلام علامہ اقبال کے ان اشعار کی تشریح کیلئے پیش کیا ہے کہ:
پرواز ہے دونوں کی مگر ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور