اپنے لائق دوست سہیل وحید کا قصہ شروع کرنے سے پہلے اردو کے البیلے ادیب اور صحافی ظ۔ انصاری کا ذکر کرنا چاہوں گا، جن سے میں نے ایک باربمبئی میں ان کے نام کا پس منظرمعلوم کیا توانھوں نے دلچسپ جواب دیاتھا ”بھائی میرا اصل نام’ظل حسنین زیدی‘ہے اور میں سہارنپور کے’محلہ انصاریان‘ میں پیدا ہوا تھا۔ جب لکھنا لکھانا شروع کیا تو مجھے اپنا نام غیرشاعرانہ محسوس ہوا، لہٰذا میں نے اپنے نام کے پہلے لفظ ’ظ‘ کے ساتھ محلہ انصاریان کی مناسبت سے ’ظ۔ انصاری‘ لکھنا شروع کردیا اور یہی میری شناخت بن گیا۔“ حالانکہ اس واقعہ کا کوئی تعلق سہیل وحید سے نہیں ہے۔ نہ تو ان کے نام میں ’ظ‘ ہے اور نہ ہی سیتا پور کے اس محلہ کا نام انصاریان ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ دہلی سے بچھڑنے کے برسوں بعدجب لکھنؤ کے محکمہ اطلاعات میں ان سے ملاقات ہوئی تو ان کی نیم پلیٹ دیکھ کر ضرورت تعجب ہوا تھا۔ اس پر لکھا تھا ”سہیل وحید انصاری“۔ اس نیم پلیٹ کو دیکھ کر ہمیں ان کے کمرے میں داخل ہونے پر کچھ تامل تھا،لہٰذا ہم نے انھیں باہر کھڑے ہوکر ایک بار پھر فون کیا کہ یہ تو کسی انصاری صاحب کا کمرہ ہے، کہیں ہم غلط جگہ تو نہیں آگئے۔ اس پر انھوں نے اپنے مخصوص لکھنوی لہجے میں کہا کہ ”اماں، یہی ہے۔اندرآجاؤ، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔“ کمرے میں داخل ہوکر ہم نے ان کا جائزہ لیا کیونکہ دہلی کے زمانہ طالب علمی میں ان سے جب ملاقاتیں ہوتی تھیں تو انھوں نے اپنی اس نسبت کو چھپائے رکھا تھا۔
ہمیں ان کی نیم پلیٹ دیکھ کر ایک واقعہ یاد آیا۔ جس زمانے میں ہم ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ میں کام کررہے تھے تو میرٹھ میں خوفناک فساد برپا ہوگیا۔فسادزدگان کی مدد کے لیے ایک ریلیف فنڈ قایم کیا گیا اور قارئین سے تعاون کی اپیل کی گئی۔ یہ اپیل اتنی کارگر ہوئی کہ بھدوہی سے اخبار کے ایک قاری نے ایک لاکھ روپے کا ڈرافٹ بھیجا۔ڈرافٹ بھیجنے والے نے یہ تاکید کی تھی کہ”میرا نام اخبار میں نہ چھاپا جائے۔“ اس ہدایت کے مطابق ہم نے ایک اخباری نوٹ میں لکھا کہ ”نئی دنیا کے ایک ’قاری‘نے ایک لاکھ کا روپے کا ڈرافٹ بھیجا ہے، اس سے دیگر لوگ بھی تحریک حاصل کریں۔“ اس پر ڈرافٹ بھیجنے والے نے ناراضگی سے بھرا خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ ”میں نے آپ سے نام نہ چھاپنے کی التجا کیا تھی مگر آپ نے میرا نام چھاپ دیا اور مجھے ’قاری‘ لکھا ہے جبکہ میں ’انصاری‘ہوں۔
خیر یہ تو ایک تمہید تھی جو زیب داستاں کے لیے لکھی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دوست سہیل وحید بڑی لائق وفائق شخصیت کے مالک ہیں۔اردو میں ایسے لکھاریوں کی تعداد بہت کم ہے جو اردو سے زیادہ ہندی ادب و صحافت میں بھی عمل دخل رکھتے ہوں ۔انھوں نے ’آؤٹ لک‘ اور’نوبھارت ٹائمز‘جیسے بڑے ہندی اخبارات و جرائد میں سلگتے ہوئے مسلم مسائل پر لکھ کر داد وتحسین وصول کی ہے۔ہندی والوں میں ان کا جلوہ اردو سے زیادہ ہے۔ اردو میں یوں بھی لوگ اپنے سوا کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم سہیل وحید کی صلاحیتوں کے اس لئے قائل نہیں ہیں کہ ہم جب کبھی لکھنؤ جاتے ہیں تو وہ ہماری تواضع میں بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور چوک کی اس تنگ وتاریک گلی میں جانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے، جہاں ٹنڈے کبابی کی اصل دکان ہے۔ یہاں ایک بار صفدر امام قادری کے ساتھ مل کر ہم نے ان کی خاصی جیب ڈھیلی کرادی تھی۔
سہیل وحیدسے ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں اردو پڑھ رہے تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ یونیورسٹیز کے اردو شعبوں میں اردو کے علاوہ سب کچھ پڑھایا جاتا ہے، لیکن سہیل وحید کی خوبی یہ تھی کہ وہ پڑھنے لکھنے میں بڑے چاق وچوبند تھے اور انھوں نے پروفیسر قمررئیس کی سرپرستی میں وہاں ادب وصحافت کا خاصا گیان حاصل کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی پہلی کتاب ’صحافتی زبان‘ شائع ہوئی تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہ دراصل ان کا تحقیقی مقالہ تھا جو انھوں نے پروفیسر قمررئیس کی نگرانی میں مکمل کیا تھا اور غالباً اردو صحافت میں زبان کے استعمال سے متعلق پہلی کتاب تھی جو جنوری 1996 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کی پہلی اشاعت کمپیوٹر کی کمپوزنگ سے ہوئی تھی، لیکن اشاعت میں تاخیر کے لیے انھوں نے کاتب کو ذمہ دار قراردے کر غلطیوں کی ساری ذمہ داری اس کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دی تھی۔ پہلے زمانے میں یہی ہوتا تھا کہ ادیب اپنی خامیوں کے لیے بے چارے کاتبوں کو ہی ذمہ دار قرار دیتے تھے۔انھوں نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ
”یہ کتاب ڈیڑھ برس پہلے ہی چھپ جانی چاہئے تھی۔لیکن بھلا ہو حضرت کاتب کا جنھوں نے اس کی کتابت کی۔گزشتہ ڈیڑھ برس سے ان کے لکھے ہوئے جملوں کی اصلاح کئی دوسرے کاتب کرتے رہے۔ اس کے باوجود ڈھیروں غلطیاں اس کتاب میں باقی ہیں، لیکن اب میری ہمت جواب دے چکی ہے۔کاتبوں نے بھی اردو پر کم احسان نہیں کیا۔“
ظاہر ہے جب کاتب کے لکھے ہوئے کی اصلاح ایک نہیں کئی دوسرے کاتبوں سے کرائی جائے گی تو اس میں غلطیاں تو باقی رہیں گی ہی اور اس کام میں مصنف کی ہمت بھی جواب دے جائے گی،جیسا کہ سہیل وحید کی جواب دے گئی۔دراصل یہ اس دور کی بات ہے جب مصنّفین اپنی غلطیوں کا سہرا بھی کاتبوں کے سرباندھتے تھے۔اپنی غلطیوں کا دوش سہیل وحید کسی کاتب کے سرنہیں ڈال سکتے۔انھیں ان غلطیوں کی ذمہ داری تو بہرحال قبول کرنی ہی ہوگی۔اس طرح کی غلطیاں ہر کتاب میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے کاتب سے زیادہ خود صاحب کتاب ذمہ دار ہوتا ہے ۔
صحافت کے فن سے انھیں ہمیشہ لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے اپنا ایم فل کا مقالہ بھی”عصری اردو صحافت“ کے موضوع پر لکھا تھا۔
سہیل وحید کی ایک خاص ادا یہ ہے کہ انھوں نے پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود اپنے نام کے ساتھ کبھی ’ڈاکٹر‘ کا لاحقہ استعمال نہیں کیا۔وہ بھی ایک ایسے دور میں جب اردو ادب کے مریض بھی اپنے نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ واقعی ’ڈاکٹر‘ سمجھ کر انھیں اپنی نبض دکھانا شروع نہ کردیں۔ سہیل وحید کا پہلا عشق صحافت تھا اور انھوں نے اس میں کمال بھی حاصل کیا۔ وہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں کی صحافت میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہیں بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ انھوں نے اپنا کیریر 1987میں روزنامہ ’قومی آواز‘ سے شروع کیا تھا،جہاں انھیں اپنے عہد کے جید صحافیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد وہ ہندی کے سب سے بڑے اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ سے جڑے۔ پھر وہ ریڈیو جرمنی کی اردو نشریات سے وابستہ ہوکر جرمنی چلے گئے اور وہاں سے خاصے صاف ستھرے ہوکر واپس آئے۔ بعدازاں وہ اترپردیش حکومت کے محکمہ اطلاعات میں آگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی جگہ ان کا دل نہیں لگااور ہر چیز میں کچھ نہ کچھ کمی کا احساس انھیں ستاتا رہا۔انھیں دیکھ کر مجھے اکثر شہریار کا یہ شعر یاد آتا ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
سہیل وحید کی ادبی صلاحیتوں اور مدیرانہ چابک دستی کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب انھوں نے یوپی حکومت کے ادبی جریدے ماہنامہ ”نیا دور“ کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کی ادارت میں ’نیادور‘ میں جو نیا پن ہمیں محسوس ہوا، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ” نیادور ” واقعی نئے دور کا ترجمان بن گیا تھا۔
انھوں نے نہ صرف ادارتی سطح پر اس کا معیار بلندکیا بلکہ طباعت کے معاملے میں بھی اسے یکتا بنادیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی سرکاری جریدے کا مدیر فن کارانہ صلاحیتوں کا حامل ہو تو وہ اس میں بھی چارچاند لگاسکتا ہے۔ مگر ان کی یہ ادا لوگوں کو پسند نہیں آئی اور لکھنو کی ادبی سیاست کا شکار ہوئے۔جلدہی وہاں سے ان کا تبادلہ کرادیا گیا۔اس دوران انھوں نے کئی خصوصی شمارے بھی شائع کئے، جو ان کی صلاحیتوں کے گواہ ہیں۔اس میں ایک خصوصی شمارہ ’لکھنؤ کی عزاداری‘پر بھی تھا، مگر وہ بھی ان کے کام نہ آسکا۔
سہیل وحید کی ایک اور خوبی ہمیں عزیز ہے اور وہ ہے بڑے بڑے خواب دیکھنا۔ وہ ہمیشہ اونچی منصوبہ بندی کرتے ہیں، لیکن مور کی طرح اپنے پاؤں دیکھ کر شرمندہ ہوجاتے ہیں۔انھوں نے فکشن میں بھی زورآزمائی کی ہے۔ان کی کہانیوں کے مجموعہ ’پرستش برق کی“ کے تین اڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔جرمنی کے سفرنامے پر مبنی ان کی کتاب ’یادوں کی بارات‘ بھی شائع ہوچکی ہے(اس کتاب کا کوئی تعلق جوش کی آپ بیتی سے نہیں ہے)۔’شموئل احمد کی تخلیقات‘کے عنوان سے ان کی ایک کتاب گزشتہ سال منظرعام پرآئی تھی۔وہ بیک وقت اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں لکھنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ ’مسلم معاشرے میں ذات پات کی تفریق‘ ان کا خاص موضوع ہے، جس پر وہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں کافی ماتھا پچی کرچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس تفریق اور تعصب میں کوئی کمی واقع نہیں کرپائے ہیں ۔ خدا انھیں ہمیشہ خوش رکھے۔