Home ستاروں کےدرمیاں کچھ اینی ایرناکس کے بارے میں-پروفیسر سرورالہدیٰ

کچھ اینی ایرناکس کے بارے میں-پروفیسر سرورالہدیٰ

by قندیل

 

اس سال ادب کانوبل پرائز فرانسیسی ادیبہ اینی ایرناکس کودیے جانے کااعلان کیاگیاہے۔ اعلان کے ساتھ یہ بات کہی جانے لگی کہ وہ اپنی ہی کہانی لکھتی رہی ہیں۔اوراپنی ہی کہانی لکھتے لکھتے نوبل پرائز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔گویااپنی کہانی لکھنایااپنے بارے میں لکھناآسان نہیں ہے اور یہ بھی کہ اپنی کہانی کو دوسروں کی کہانی بنا دینا اور بھی مشکل ہے۔لیکن اپنی کہانی لکھنے کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ لکھنے والاوہ سب کچھ لکھنے میں کامیاب ہے یااس نے وہ سب کچھ لکھ دیاہے جسے عموماچھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔کبھی ایسابھی ہوتاہے کہ جوہماری زندگی کاحادثہ نہیں ہوتاوہ ہماراحادثہ بن جاتاہے ۔ لہذایہ فیصلہ کرنابہت دشوار ہے کہ لکھنے والے نے واقعی کیالکھا ہے اورکیاچھپایاہے ۔اگر اینی ایرناکس کے بارے میں یہ کہاجارہا ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں کو آپ بیتی کی صورت میں پیش کیاہے تو کوئی بات تو ہوگی۔ اینی ایرناکس کے بارے میں اردو حلقے میں عام طور پر کسی دلچسپی کااظہارنہیں کیاگیا۔ممکن ہے آنے والے دنوں میں کوئی اس موضوع پر اظہار خیال کرے۔ڈاکٹرناصرعباس نیر نے اپنے فیس بک پیج پر اینی ایرناکس کے انٹرویوکی ایک اہم بات کو موضوع گفتگو بنا کر ایک اچھی بحث کاآغاز کیاہے۔ اینی ایرناکس نے کہاہے کہ اچھالکھنے سے زیادہ بہتر ہے کہ ایمانداری کے ساتھ لکھا جائے ۔ناصرعباس نیر نے اس ضمن میں جن خیالات کوپیش کیاہے،وہ دلچسپ بھی ہیں اور ایماندارانہ بھی ۔ اینی ایرناکس نے جس موقع پر یہ بات کہی ہے ،اس سے بھی اس بات کااظہارہوتاہے کہ ایک قلم کار کی حیثیت سے انہیں محسوس ہوتاہے کہ لکھنے والے کااپنے تئیں ایماندار ہونابہت ضروری ہے۔یہ بات محض ایک انٹرویو کی نہیں بلکہ پوری تخلیقی زندگی کاحاصل معلوم ہوتی ہے۔ایماندارانہ صرف وہی نہیں ہوتاجس کاتعلق ہماری ذاتی زندگی یاتجربے سے ہے۔ اینی ایرناکس کو یہ تخلیقی بصیرت یاتخلیقی آگہی اپنی ذات کے حوالے سے حاصل ہوئی ہے یا اس میں اپنی یادداشت کازیادہ حصہ ہے۔ذات کو کائنات بنانے کی خواہش ایک معنی میں اپنی ذات کی توسیع ہے۔مگر یہ بات بھی بہت اچھی نہیں کہ ہم ہر سخن اور ہر تخلیق میں کائنات کو تلاش کریں۔اپنی ہی کہانی لکھناآسان نہیں ہے۔ذراکوئی لکھ کر تودیکھے۔نہ جانے کتنی مرتبہ تخلیقی سطح پرمرنا اورزندہ ہوناپڑتاہے۔اپنی ذات کاماتم کرنا آسان ہے مگر اپنی ذات سے ایماندارانہ طور پر پردہ اٹھانامشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے ۔ہر تہذیبی معاشرے میں اینی ایرناکس نہیں ہوسکتی۔اسی لیے وہ تحریریں جوباغیانہ روش کوسامنے لاتی ہیں،انہیں ہم کم یا نگاہ کم سے دیکھتے ہیں۔باغیانہ روش حکومت یاسیاست کے ساتھ ہو تو پھر بھی گواراہے۔ باغیانہ روش سے اخلاقیات کو صدمہ پہنچتاہے اور ایک نئی اخلاقیات سامنے آتی ہے۔کیااپنی کہانی لکھنے میں وہ عناصرپیداہوسکتے ہیں یاداخل ہو سکتے ہیں جو تحریر کو ایماندارانہ بناتے ہیں۔اس سوال کے جواب میں یہ کہاجاسکتاہے کہ عام طور پر جنسی یانفسیاتی مسائل کے بیان سے یہ سمجھا جاتاہے کہ لکھنے والاایماندار ہے۔بعض اوقات لکھنے والے کی زندگی سے ان مسائل کی تائید ہوتی ہے۔ اینی ایرناکس کے تعلق سے جس جد وجہد کی بات کی جاتی ہے ،اس کاتعلق انہی مسائل سے ہے۔انہیں نفسیاتی کہنامناسب معلوم نہیں ہوتا۔نفسیاتی الجھنیں کسی اور طرح سے مطالعے کے رخ کاتعین کرتی ہیں۔کیاہم یہ تسلیم کرلیں کہ اپنے بارے میں جو لکھا جائے گاوہ سچااور ایماندارانہ ہوگا۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ لکھنے والے کے یہاں بغاوت کے ساتھ اپنی ذات سے بے رحمی بھی ضروری ہے ۔اپنی ہی ذات سے لڑنااوراسے تختۂ مشق بنانا کبھی آسان نہیں رہا۔ناصرعباس نیر نے اس مسئلے کو چھیڑ کرنئے سرے سے ادبی معاشرے کوغوروفکرکی دعوت دی ہے۔انہوں نے ادب ،شخصیت،تاریخ اور یادداشت کے رشتوں کے بارے میں جو اشارے کیے ہیں،وہ بھی ان کے وسیع تر مطالعے کی غمازی کرتے ہیں۔ شخصیت ،تاریخ اور یادداشت کاتخلیق میں کیا کردار ہوتاہے اور یہ کن صورتوں میں ادیبوں کے یہاں ظاہر ہواہے،اس ضمن میں ناصر عباس نیر نے بعض اہم حوالے پیش کیے ہیں۔یہ حوالے تفصیلی مطالعے اورتجزیے کاتقاضاکرتے ہیں لیکن یہاں ممکن نہیں تھا کہ ہر ادیب پر الگ الگ گفتگو کی جائے ۔البتہ ایک قاری کی حیثیت سے میر اذہن ان حوالوں کی گرفت سے پہلے بھی آزاد نہیں تھا۔اب مزید گرفتاری کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں ۔عجیب اتفاق ہے کہ ادھرمارسل پروست کو بطورخاص پڑھنے کی کوشش کی ۔ اس ضمن میں کئی مرتبہ ناصر عباس نیر سے گفتگو بھی ہوئی ۔ایک مرتبہ پھر مارسل پروست کاذکر دیکھ کر اس خیال کو تقویت ملی کہ یادداشت کی ایک اجتماعی تاریخ ہوتی ہے لیکن اس کی تشکیل میں انفرادی یادد اشت کااہم کردار ہوتاہے۔ اینی ایرناکس سے یہ سوال کیاجاناچاہیے کہ کوئی تحریر ایماندارانہ یافراڈ ہے ،اس کی پہچان کس طرح ممکن ہے؟ پھر زبان کے اس تصور کاکیاہوگا، جومثبت اظہار سے قاصر ہے اور جو مصنف کی ارادی معنویت کوکمزور یابے دخل کرتی ہے۔افسانوی نثر میں ارادی معنویت کوزبان کے اس داخلی نظام سے خطرہ لاحق ہے۔ غیر افسانوی نثرتخیلاتی نہ ہونے کی وجہ سے ارادی معنویت کابوجھ اٹھالیتی ہے۔ناصرعباس نیر سے یہ اختلاف بھی کیاگیاکہ اب بھی ہمیں یہ بتایاجارہاہے کہ ہمیں کس طرح لکھنا چاہیے ۔یہ ایک طرح کی نوآبادیاتی فکر ہے ۔ناصرعباس نے اس کابہت منطقی جواب دیاہے۔یہ وقت تو ایسا ہے کہ ہم اینی ایرناکس کی بات پر آزادانہ طور پر غورکرتے۔مشرق اور مغرب کے درمیان میں اتفاق اور اختلاف کے مواقع تو آتے ہی رہتے ہیں۔اصل میں تحریر ہی سب سے بڑی سچائی ہے۔چاہے تحریر میں جتناہی جھوٹ ہو۔لہذایہ بات بہت بنیادی ہے کہ تحریر ہی سب سے بڑی سچائی ہے ۔چاہے صاحب تحریر جتنابھی جھوٹ بولتاہویاعملی زندگی میں فراڈ ہو۔مختلف اسالیب میں سچائی کااظہار ایک ہی طرح سے ممکن نہیں۔اور یہ کہ اس کی پہچان بھی ایک طرح سے نہیں کی جاسکتی۔اس ضمن میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سب سے بڑی سچائی تحریر ضرور ہے مگر مصنف کی طرف سے جو ہوشیاری برتی گئی ہے ،اس کی پہچان ہوجاتی ہے۔یہ ہوشیاری تکنیک اور زبان کے لباس میں ہوتی ہے،جومصنف کے فراڈ ہونے کااظہار کرتی ہے۔ اینی ایرناکس نے The Super 8 Yearsکی پیشکش کے موقع پر کہاتھاکہ ایک عورت لکھتی ہے اور بس۔اس ڈکیومنٹری کاتعلق اینی ایرناکس کی زندگی اورخاندان سے ہے۔اس میں جوتفصیلات ہیں ،ان سے پتہ چلتاہے کہ فرانس کی جوصورت حال تھی، اس میں اینی ایرناکس نے خود کوکس طرح ایک اہم قلمکار کے طور پر پیش کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کی ریکارڈنگ 1972-1980 کے درمیان ان کے سابق شوہر نے کی تھی۔ایک عورت جو کسی کی بیوی بھی ہے اور قلم کار بھی وہ ان دو حقائق کے درمیان کس طرح خود کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے ۔وہ اس ڈکیومنٹری میں موجود ہے۔اس کاایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”یہ دس سال میری زندگی کے لیے سب سے اہم رہے ۔کیونکہ ان سالوں میں قلم کار بننے کے لیے میری خواہش پختہ ہوئی۔ساتھ ہی اس لیے بھی کیونکہ میں نے آزادی پائی ،میں نے آزادی کی تکلیف جھیلی ۔وہ بھی تب جب کہ میری شادی پیاری تھی۔یہ میری زندگی کی کہانی ہے،تب ان ہزاروں عورتوں کے لیے جو خود بھی آزادی کی کھوج میںہیں ۔“
اینی ایرناکس کی پرورش بہت ناز ونعمت میں نہیں ہوئی ۔ان کے والدین کی ایک کرانے کی دکان تھی اور وہ کیفے بھی چلاتے تھے۔1940میں فرانس کے ایک چھوٹے سے شہرمیں پیداہوئیں۔اور یہ شہر تاریخ کے اس موڑ پرعالمی شہرت کاحامل ہوگیاہے۔والد کے مزاج کی سختی کا اینی ایرناکس کے ذہن پر گہرااثر ہوا۔وہ جب بارہ سال کی تھیں تو ان کے والد نے ان کی ماں کو مارنے کی کوشش کی ۔وہ اپنی یادداشت ’شرم‘ میں لکھتی ہیں۔”میرے والد نے جون میں ایک اتوارکومیری ماں کوقتل کرنے کی کوشش کی۔“انہوں نے ادبی زندگی کاآغاز خود نوشت سوانح عمری سے کیا تھاجوافسانے کی ہیئت میں تھی۔انہوں نے یہ دعوی بھی نہیں کیا کہ وہ یادداشت کی بنیاد پر کوئی نیاپلاٹ پیش کررہی ہیں۔ان کی تحریروں کے بارے میں سوانحی عناصرپرخاصازور دیاجاتاہے۔لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں پر افسانوی یاغیر افسانوی کالیبل لگانے کی مخالفت کی ۔1980-1990کے درمیان جو کچھ انہوں نے لکھا،اس کاتعلق بنیادی طور پر ناپسندیدہ اور اسقاط حمل سے ہے۔عصر حاضر میں اورحان پامک کے فکشن کوان کے شہراستنبول کے حوالے سے شہرت ملی ۔اب اینی ایرناکس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے ذاتی تجربات اور یادوں کو فرانسیسی ثقافت اور معاشرے کے تناظر میں پیش کیا۔1974میںclean outکے نام سے خودنوشت سوانحی ناول لکھ کر ایک زاویۂ نظرفراہم کیا ۔کہاجاتاہے کہ اس پروجیکٹ پر انہوں نے اپنے شوہر سے کام کرنے کی اجازت نہیں لی اور اسے انہوں نے چھپایا۔1981میں ان کی تیسری کتابA Frozen Womenآئی ،جس میں ولادت کے تعلق سے نہایت ہی تکلیف دہ صورت حال کاذکر تھا۔ 1992میں simple passsionشائع ہوئی۔ اس کتاب میں کسی غیر ملکی سفارت کار کے ساتھ ایک شادی شدہ عورت کے تعلقات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔

 

 

 

ابتدا ہی سے ان کے یہاں تبدیلی کی خواہش موجود تھی۔تبدیلی کی یہ خواہش سیاسی تحریک کے وسیلے سے نہیں تھی۔اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ لکھناایک سیاسی عمل ہے۔سوئیڈش اکادمی نے اپنے بیان میں اس بات پر زور دیا کہ اینی ایرناکس اپنی تحریر میں مختلف زاویوں سے جنس ،زبان اورطبقے سے متعلق عدم مساوات کی نشانیوں کواجاگر کرتی ہیں۔قلم کار بننے کے لیے ان کا راستہ لمبااور مشکل رہاہے۔یہ بھی کہاگیاکہ اینی ایرناکس کی تحریر کی زبان صاف اور شفاف ہے اورتخلیقیت سے کسی طرح کی مفاہمت نہیں کی گئی ہے۔ان کااسلوب جذباتیت سے پرے ہے۔
سوئیڈش اکادمی نے پہلے بھی کسی ادیب اورقلم کار کو نوبل پرائز سے نوازتے ہوئے اس مشکل مرحلے کاذکر کیاہوگامگراس بار اینی ایرناکس کے بارے میں مشکل مرحلے کاذکرانفرادیت کاحامل ہے۔کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ حوصلہ، اخلاقیات کے ساتھ اپنی یادوں کی جڑوں کی تلاش اورسماجی بندشوں کو اجاگر کرنے کے لیے انہیں نوبل پرائز کے لیے منتخب کیا گیاہے۔اس سے پتہ چلتاہے کہ عصر حاضر میں اس کمیٹی کو اینی ایرناکس کی صورت میں ایک ایسی ادیبہ مل گئی ،جو یادوں کو سماجی پابندیوں کے سیاق میں دیکھنے کاسلیقہ رکھتی ہے۔یہ یادیں اینی ایرناکس کی زندگی سے گہرے طور پر وابستہ ہیں۔یعنی پیار،اسقاط حمل اوراپنے والدین سے الگ ہوجانا۔اس ضمن میں یہ بھی کہاگیاکہ اینی ایرناکس نے سادہ بیانی کے ذریعہ ان تلخ حقائق کو پیش کیاہے ۔ یہ سادہ بیانی عورتوں کے لیے زندگی فراہم کرنے کاوسیلہ بن گئی۔میراخیال ہے کہ اینی ایرناکس نے ایماندارانہ لکھنے پر جوزور دیاہے،اسی رویے نے انہیں اس مقام تک پہنچایاہے۔میں لکھ چکاہوں کہ مختلف شعری اور نثری اسالیب میں سچائی کااظہار مختلف طرح سے ہوتاہے ۔ اینی ایرناکس کی جو سوانحی کتابیں اور تحریریں ہیں ،ان میں جس طرح سچائی اور ایمانداری کے ساتھ حقائق کوپیش کیاگیاہے وہ فکشن سے مختلف ہے۔کمال یہ ہے کہ ان کی زندگی کی جو تلخ یادیں ہیں وہ خواتین کی تلخ یادوں سے ہم آہنگ ہوگئیں ۔خصوصاجن کاتعلق اسقاط حمل سے ہے۔آج بھی ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر گفتگو جاری ہے۔ اینی ایرناکس کی ایک کہانی The Happeningکارشتہ بھی اسقاط حمل سے ہے۔ اینی ایرناکس کوفلموں میں دلچسپی تورہی مگر وہ اس میں کام کرنااپنی تخلیقی حسیت کے منافی سمجھتی تھیں۔ The Super 8 Yearsمیں جس کاذکر آچکاہے،یہ پہلی فلم ہے جس میں ایک ڈائرکٹر کی حیثیت سے انہوں نے فلم کودیکھا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ان کی تحریروں کو فلموں میں استعمال کیاجاتارہا۔اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اینی ایرناکس کی تحریروں کے مسائل فلمی دنیا کی ضرورت سے کتنے قریب ہیں۔ان کی ایک ڈکیومینٹری کانام I have loved living hearہے ،جوفرانس کے شہروں کے بارے میں ہے۔اس میں ان کی آواز بھی سنی جاسکتی ہے۔The end of ideasکے مصنف ایڈورڈ لوئیس نے کہاہے:

 

 

”اینی ایرناکس نے اس بارے میں مفروضووں کو بھی رد کیا کہ ادب کیا ہوسکتاہے ،اس نے ادب میں ایک انتہائی اہم رسمی انقلاب حاصل کیا۔استعاروں ،خوبصورت جملوں اور کرداروں سے ہٹ کر۔“لوئیس نے یہ بھی کہاکہ ”اینی ایرناکس نے ادب کی موجودہ تعریفوں میں فٹ ہونے کی کوشش نہیں کی۔“
اینی ایرناکس کے تعلق سے یہ چندخیالات شاید سامنے نہ آتے ،اگر ناصر عباس نیر نے اینی ایرناکس کی ایک بات کو موضوع گفتگو نہ بنایاہوتا۔ان تفصیلات کے باوجود میراذہن اینی ایرناکس کی اسی بات کی گرفت میں ہے کہ اچھا لکھنے سے زیادہ بہترہے ایمانداری کے ساتھ لکھنا۔یہ بات بظاہر کتنی عام سی معلوم ہوتی ہے،مگرآج کی صورت حال میں کتنی نئی اوراہم ہے۔عام سی بات ان کے لیے ہے جوبہت مختلف لکھناچاہتے ہیں۔مختلف لکھنے میں بھی ایمانداری ہوسکتی ہے، لیکن اکثر اوقات تحریرکاکوئی اسلوب چالاکی کاتاثر پیش کرتاہے،جوموضوع کی ضرورت سے کہیں زیادہ مصنف کی کوئی عصری اورفوری ضرورت معلوم ہوتی ہے۔یہ اسلوب وقت کے ساتھ مفاہمت اس بنا پر کرتاہے کہ اس جیساکوئی لکھنے والانہیں ہے۔یہ غرورعلم واحساس سے تشکیل پاتاہے اور اس کی طاقت کااپنا ایک جواز ہے لیکن ہر غرور سچانہیں ہوتا۔وہ دھیرے دھیرے ذات پرست بن جاتاہے اور اپنی ذات کے علاوہ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔اینی ایرناکس کی تحریروں کی شفافیت اور تخلیقیت سے وہ لوگ بھی کچھ سیکھ سکتے ہیں جو کچھ مختلف سوچنا اور لکھناچاہتے ہیں ۔

You may also like

Leave a Comment