کوٹا کے بار ے میں بہت سنا تھا۔ اس کا نام آتے ہی ذہن میں ایک ساتھ بہت سی باتیں آتی ہیں۔ علم کا شہر، وہ شہر جو آگہی کے حصول میں نوجوان اذہان اور شاندار دماغوں سے بھرا ہو اہے۔ اپنی خواہشات کے بر آنے کی چاہ میں سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے۔ یہ شہر آج کل میڈیکل اور انجینئرنگ کی کوچنک کے لیے مشہور ہے۔ گذشتہ دنوں اچانک کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہاں کے سفر کا ارادہ کیا۔ یہ شہر واقعی بہت خوبصورت ہے۔ صفائی ستھرائی نیزکشادہ اور پرکشش عمارتیں دل کو بھاتی ہیں۔ رات کی تاریکی میں یہ شہر مزید پرفریب بن جاتاہے ۔ دور تک روشنیوں کے قمقمے جگنوؤں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ شہر میں ترقی صاف نظر آتی ہے ۔ چمچماتی سڑکیں،پل،گاڑیاں ،عمارتیں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ یہاں کے لوگ کافی خوش حال دکھائی دیتے ہیں۔ حالاں کہ کم ہی علاقوں میں جانا ہوا مگر مکانوں،دکانوں اور رہن سہن سے اندازہ ہوا کہ کے یہاں کےلوگ آسودہ حال ہیں۔
کوچنگ سینٹروں وں کی وجہ سے بڑی تعداد میں طلبہ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں میں کرائے کے کمرے ہوتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ بہت سے لوگوں کا یہی ذریعۂ آمدنی ہے۔ ان علاقوں میں لڑکیوں کے لیے بھی خوبصورت ہاسٹل دستیاب ہیں۔ یہ شہرابھی نیا نیا آباد ہورہا ہے۔ اس کی جدت نظر بھی آتی ہے۔ جگہ جگہ کشادہ و عالی شان شاپنگ مال بنے ہیں جہاں شام ڈھلتے ہی نوجوانوں کا ازدحام شروع ہوجاتا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں تتلیوں کی مانند یہاں سے وہاں اٹکھیلیاں کرتےپھرتے ہیں۔
ادھر چند برسوں سے پورے ہندستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کاجو ماحول بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ شہر بھی اس سے جدا نہیں ہے۔ چنانچہ ابھی حال ہی میں دو مسلم نوجوان یہاں مذہبی اور فرقہ پرست جنونیوں کے ہتھے چڑھ گئے،اس لیے ہم بھی چوکنے تھے، لیکن ٹرین میں ہندو برادران سے اچھی ملاقات اورخوشگوار تجربہ رہا۔ انھوں نے نہ صرف متعینہ جگہ تک پہنچانے میں راہ نمائی کی بلکہ بات چیت بھی ڈھنگ سے کی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ عام لوگوں کے دل ابھی اتنے میلے نہیں ہوئے جتنے میڈیا اور سیاست میں نظر آتے ہیں۔
اسٹیشنوں اور سرکاری محکموں کے سائن بورڈ وغیرہ میں انگریزی اور ہندی کے ساتھ اردو بھی نظر آتی ہے جسے دیکھ کر اندرونی خوشی ہوتی ہے۔ مگر حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ مسلم علاقوں میں شاید ہی کوئی سائن بورڈ اردو میں نظر آئے۔ یہاں تک کہ مدارس اور مساجد میں بھی سائن بورڈ ہندی میں ہی نظر آئے۔ حالاں کہ یہاں مسلمانوں میں اْردو کا چلن ہے اور بیشتر مسلمان اردو جانتے ہیں۔
کھانے پینے اور رہنے سہنے کا طریقہ دہلی سے مختلف نہیں ہے۔ ہوٹل کلچر بھی تقریباً ایک سا ہے،مسلم علاقوں میں بریانی، کباب وغیرہ کی دوکانیں بکثرت نظر آتی ہیں۔ تاہم دہلی کی طرح یہاں لوگ دیررات تک نہیں جاگتے۔ شام ڈھلتے ہی تقریبا نو بجے کے بعد ہرطرف سناٹے کا عالم ہوتا ہے۔ ممکن ہے سردی کی وجہ سے ایسا ہو۔ لیکن صبح ہوتے ہی رونق بازاروں میں عود کر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا شہر پَوپھٹنے کا منتظررہا ہو۔ صبح ہی خوانچے والوں، سبزی فروشوں اور کباڑے والوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بلدیہ کی گاڑیاں اپنے مخصوص انداز میں ’’گاڑی والا آیا گھر سے کوڑا نکال‘‘کے ریکارڈ بجاتے ہوئے گلی کوچوں میں گشت کرنے لگتی ہیں۔ جسے سنتے ہی لوگ اپنے گھروں کے دروازوں پر آکر گاڑی کی ٹرالی میں کوڑا انڈیل دیتے ہیں۔
رات کی تاریکی میں شہر کی سیردل کو بھاتی ہے۔ پورا شہر کسی الھڑ حسین دوشیزہ کی مانند نظر آتا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب عالی شان کوچنگ سینٹروں ،مالوں اورہوٹلوں کے نام رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگ جگمگ کرتے نظرآتے ہیں۔ کوچنگ سینٹروں کے باہرکامیاب طلبہ و طالبات کی تصاویر سے سجے دھجے قد آدم ایستادہ ہورڈنگ مزید اس رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ منظر ریلوے اسٹیشن سے نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جہاں ہر جگہ مختلف کوچنگ سینٹروں کے بینر اور ہورڈنگز نو واردوں کے خلجان کا سبب بنتے ہیں۔ ’ایلن‘ یہاں کا مشہور کوچنگ سینٹر ہے لیکن اس کے علاوہ بھی اَن اِیکیڈمیا، ریزونینس ایجووینچر ، موشن ایجوکیشن ، بنسل کلاسیز ، وائبرینٹ اکیڈمی وغیرہ کی بڑی بڑی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ کہتے ہیں اب’ ایلن‘ کی اجارہ داری ختم ہورہی ہے اور دوسرے کوچنگ سینٹروں نے بھی اچھی خاصی جگہ بنالی ہے۔
آپ جس بھی سڑک سے گزرتے ہیں، 16 سے 20 سال کی عمر کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کندھوں پر بیگ لٹکائے کوچنگ سینٹروں اور ہاسٹلوں کی طرف بھاگتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کوٹامیں زیادہ تر طالب علم یوپی بہار سے ہیں۔ یہاں تقریباً 1.5 لاکھ طلبہ تلونڈی، جواہر نگر، وگیان وہار، دادا باری، وسنت وہار اور راجیو گاندھی نگر علاقے کے آس پاس کے علاقوں میں رہتے ہیں جب کہ تاریخی علاقے میں 60 ہزار تک طلبا رہائش پذیر ہیں۔ شہر میں تقریباً ساڑھے تین ہزار ہاسٹل اور پی جی ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق کوٹامیں کوچنگ کلچر 1980 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب ’وی کے بنسل‘نامی ایک مقامی انجینئر نے اپنی کمپنی بند ہونے کے بعد طلبا کو داخلہ امتحانات کے لیے پڑھانا شروع کیا۔ ان کے ایک طالب علم نے آئی آئی ٹی میں داخلے کے لیے امتحان پاس کر لیا، جس کے نتیجے میں مزید طلبا نے ان سے ٹیوشن لینا شروع کیااور دھیرے دھیرے یہ معمولی ٹیوشن سینٹر کوچنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک چین میں تبدیل ہو گیا اوراس نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ لیکن جلد ہی انھیں ’ایلن‘نامی ایک کوچنگ انسٹیٹیوٹ نے پیچھے چھوڑ دیا۔
پچھلے سال ارب پتی روبرٹ مرڈوک کے بیٹے جیمس مرڈوک اور ’سٹار اور ڈزنی انڈیا‘ کے سابق چیئرمین شنکر نے اس کوچنگ چین میں 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ حالیہ برسوں میں، اسٹارٹ اپ کلچر کے ساتھ نئے حریف، جیسا کہ بائیجوز، اَن اکیڈمیا، فزکس والا نےبھی کوٹا کا رْخ کیا۔ اطلاعات کے مطابق کوچنگ کے ان مراکزمیں چند معروف اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ 2 کروڑ روپے تک ہے۔ تاہم سرکاری اسکولوں کی حالت دیگر ریاستی اسکولوں کی طرح ہی ہے۔
یہاں پر کئی سرکاری اسکولوں کے دورے کا موقع ملا جہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ بظاہر اس ترقی کا ان اسکولوں پر کوئی اثر نہیں ہے۔ وہی ٹوٹے پھوٹے کمرے، دیواروں اور چھتوں پر دراڑیں، پنکھوں میں گرد کی موٹی تہیں جمی ہوئی، لیٹرین باتھ روم کی حالت چوپٹ، نل درست ہے تو لوٹا غائب ، بالٹی ہے تو نل مختلف جگہوں سے ٹپک رہا ہے۔ کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، ٹیوب لائٹ اور بلب خراب پڑے ہیں، جیسے برسوں سے کسی انسان کی آمد ہی نہ ہوئی ہو۔
شاید اسی لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جس نسبت سے اس شہر کو شہر علم کہا جاتا ہے وہ دراصل علم نہیں، بلکہ یہ روایتی قسم کی گھٹیا ترین کوچنگ کا شہر ہے جہاں اخلاقیات کا فقدان ہے، یہاں طلبہ کو ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی سکھائی جاتی ہے اور علم بہت پیچھے رہ جاتا ہے، شاید اسی وجہ سے یہاں طلباء کے درمیان خود کشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ آئے دن یہاں ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کو منظر عام پر آنے سے پہلے دبا دیا جاتا ہے کیونکہ اگر وہ چھپ کر خبر بن گئے تو ان کوچنگ مراکز کا کاروبار متاثر ہو سکتا ہے۔
کہتے ہیں حکومت کو بھی اس کا احساس ہے ۔ لیکن چونکہ یہ اس شہر کی معیشت کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اس لیے اب یہاں پر طلباء کو لبھانے اور ان کے ذہنی دباؤکو کم کرنے کے نام پر بڑے بڑے پارک بنائے جا رہے ہیں۔ جس میں طلباء کی داخلہ فیس، بھی نصف ہوتی ہے، حکومت اسے بڑھاوا دیتی ہے اور پارکوں میں نوجوانوں کے گھومنے پھرنے اور عشق و معاشقہ کرنے کی ترویج کرتی ہے۔ اس لیے ان جگہوں پر سیاح کم طلباء کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس قسم کی رنگینی کو دیکھ کر بھی نئی نسل یہاں پڑھنے کے لیے آنا چاہتی ہے۔ ایک شہر کے طور پر کوٹا کسی بھی دوسرے شہر کی طرح عام ہے، لیکن اگر آپ طالب علم ہیں تو یہ ہر قسم کے طالب علموں کے لیے جنت ہے۔ جگہ جگہ گیمنگ پارلر جانے اور فیفا، ٹیک کن سیریز اور اس جیسے دیگر کھیل کھیلنے کا سنہری موقع ہے۔ کئی مفت 4 جی ٹاوربھی ہیں تاکہ طلباء اپنا وقت اچھی طرح صرف کر سکیں۔
شہر کے مخصوص علاقوں سے ذرا باہر نکلیں تو اس ترقی کی مزید پرتیں کھلنی شروع ہوتی ہیں۔ جہاں جگہ جگہ گائیں، سور اور کتے سڑکوں پر پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ سڑکوں پر گندی نالیاں اور پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ دور سے ہی بدبو کے بھبھوکے ناک کے نتھنوں کو پھاڑے دیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس سے حکومت کے دعووں کی قلعی کھلتی ہے جس میں وہ ریاست کو خوبصورت اور ترقی یافتہ بنانے کی بات تو کرتی ہے لیکن یہ محض ان کا نعرہ ہی ہوتا ہےیا سیاسی بیان، انھیں جن چیزوں کی جانب توجہ دینی چاہیے اس جانب قطعاً دھیان نہیں دیتے۔
اس تحریر میں اگر میں اپنے میزبان محمد شاداب اور مطلب مرزا صاحبان کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہو جائے گی، سچی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں کی محبتوں نے ہی اس سفر کو یادگار بنایا۔ خدا ایسے مخلص دوست سب کو دے اور انھیں ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)