کل 25فروری کو "انداز بیاں اور” کے زیر اہتمام بالی گنج گنپتی ہال کولکاتہ میں مشاعرہ اورکوی سمیلن کا شاندار انعقاد ہوا۔ "انداز بیاں اور” کے ریحان صدیقی شازیہ صاحبہ سمیت پوری ٹیم موجود تھی، میرے اندازے سے” انداز بیاں کا مشاعرہ کلکتہ میں اس نوعیت کا پہلی بار ہوا، ملکی سطح کے تسلیم شدہ ہندی اور اردو کے شعراء شریک ہوئے جن میں انجم رہبر، شبینہ ادیب، محشر آفریدی، ندیم شاد دیوبندی، زبیر علی تابش، ابرار کاشف، ستلج راحت، مرلی دھر طالب، چندن رائے اور پربودھ سوربھ سمیت کئی شعرا قابل ذکر ہیں ، میں نے "اندازبیاں اور” کے چینل پہ خلیجی ممالک کے کئی مشاعرے سنے ہیں، جن سے اس مشاعراتی تحریک کی اردو وابستگی کا شدت سے احساس ہوا تھا، آج جب پوری ٹیم کلکتہ کی ریگزاروں میں اردو کی سبز وشادابی کے پودے اگانے آئی تو شوق دید وشنید مجھے مشاعرہ گاہ تک لے گیا، مشاعرہ گاہ گرچہ شادی ہال تھا، مگر شادی کی طرح مشاعرہ بالکل بھی نہیں تھا،شادیوں میں لوگ صرف کھانے آتے ہیں، یہاں لوگ سننے آئے تھے، البتہ وقفے وقفے سے چائے نوشی کا دور بھی چل رہا تھا، ہال کے باہری گیٹ پہ چائے کا باضابطہ اسٹال لگا تھا،جسے شاعری پسند نہیں آرہی تھی وہ چائے نوشی سے لطف اندوز ہورہا تھا، میں مشاعرے کے اختتام تک بلا مبالغہ 10 سے 12 بار چائے اسٹال پہ گیا، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مجھے شاعری پسند نہیں آرہی تھی!
نظامت عباس رضا نیر نے اپنے خوبصورت اور ادبی لہجے میں کی، اگر کل کے مشاعرے کے سارے محاسن ومحامد کو یکجا کیا جائے تو وہ صرف ” عباس رضا نیر” کے دوران نظامت استعمال کئے گئے برمحل اردو محاورات اور تلمیحات وکنایات اور جملوں کی برجستگی اور زبیر تابش صاحب کے کچھ اشعار کی معنوی اہمیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، شعرا کی شاعری اور منتظمین کی نیت تک کہیں اردو نظر نہیں آئی ورنہ تواردو ہندی کے نام سے منسوب اسٹیج کا بینر اردو اور ہندی میں ضرور ہوتا-
اردو کے فروغ میں”انداز بیاں اور” کا کردار اتنا ہی ہے جتنا ملک کی ترقی میں بی جے پی کا ہے! اسٹیچ کے بینر سے لے کر تشہیری مہم تک کہیں اردو رسم الخط نظر نہیں آیا، اس لئے شعرا کو سننے کا اشتیاق اسی استعجابی اور استفہامی کیفیت کے زیر سایہ تھا کہ انگریزی رسم الخط والے "اردو شاعری” کیسے سنائیں گے؟ جب یکے بعد دیگرے اردو اور ہندی شعرا آتے اور وہی روایتی اور فرسودہ تخیلات کی اردو نما ہندی اور ہندی نما اردو شاعری سنا کر خوب داد وصول کر کے اردو مشاعرے کو تقویت پہنچاتے رہے تو میرے ذہن میں "اردو کا مستقبل روشن اور تابناک ہے” کا عنوان کچوکے لگاتا رہا، کہ مستقبل روشن تو ہے مگر اس میں اردو شاعری کا کوئی کردار نہیں ہوگا – اگر کردار تھوڑا بہت کہیں مل بھی جائے تو اس طرح کی شاعری کا بالکل بھی نہیں۔ ندیم شاد دیوبندی کی شاعری میں معنویت تو تھی مگر دس بارہ سال قبل جو غزل میں نے ان کی زبانی سنی تھی وہی غزل پڑھ کر اہل کلکتہ کو فہم شاعری کا حسین ذوق دے دیا –
ابرار کاشف صاحب اس وقت اردو مشاعرے کے ممتاز ترین شاعر ہیں، مگر ان کے پاس اردو لفظوں کے علاوہ تخلیقی نوعیت عام سی ہے، کوئی انفرادی ملکہ نہیں ہے!
شعری استعارات وکنایات کے بغیر بے لباس یا نیم لباس ہوتی ہے، جب اردو مشاعرے کے ممتاز ترین شاعر کے یہاں استعاراتی پہلو دوردورتک نظر نہ آئے تو "اردو شاعری” کے تحفظ کا دم بھرنا افسوس ناک ہے!
"انداز بیاں اور "کے اسٹیج پر جس طرح کے غالب واقبال شناس شعراء تھے اسی طرح سامعین بھی ذوق وداغ اور میر وخسرو سے کم نہیں تھے، ہر شعر پہ واااہ واہ کی صدائیں مشاعرہ گاہ کی دیواریں ہلا دے رہی تھیں! شبینہ ادیب، انجم رہبر، محشر آفریدی، ستلج راحت جیسے شعراء نے تو اپنی پرانی غزلوں کے بارعب اثرات سے کلکتہ میں ایک نئی جہت کی داغ بیل ڈال دی ہے! یہ الگ بات ہے کہ آئندہ سال بلکہ تاحیات مشاعرے میں یہی شاعری سننے کو ملے گی انشاء اللہ – محترم ریحان صدیقی، شازیہ صاحبہ اور پوری ٹیم کا میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اہل کلکتہ کے لئے اردو مشاعرے کی ایک اور تحریک کا آغاز کیا، گرچہ اردو نہ آپ میں ہے، نہ تحریک میں اور نہ ہی تحریکی سرگرمیوں میں!
مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے