حضرت علامہ منصور پوری کسی زمانے میں، جب ندوے میں تھے، تو اپنے وقت کے بخاری و مسلم، ابن حجر، ابن تیمیہ اور پتہ نہیں کیا کیا تھے۔ ہر جگہ اور ہر اسٹیج پر ندوے اورناظم ندوہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ کی نمائندگی کا دعوی کرتے تھے۔ ہر مسئلے میں ان کی ہر بات فیصلہ کن اور آخری ہوتی تھی۔ جہاں جاتے اپنا تعارف حفید الشيخ کی حیثیت سے کراتے اور ہر اسٹیج پر اپنا لوہا منوانے کی کوشش کرتے۔ غلط بات بھی اتنی طاقت سے اور اتنے مدلل انداز میں کہتے کہ کسی کو ان سے اختلاف کی ہمت نہیں ہوتی۔ اگر ان کی شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ نرگسیت کا شکار ہیں، خود پسندی اور غرور علم نے ہمیشہ ان کو مضطرب رکھا اور بالآخر ندوے سے نکلنے کا سبب بنا۔
ندوے سے نکل گئے یا ان کو نکال دیا گیا، اس کے بعد بھی ان کے پاس ایک بڑا ادارہ تھا، جس کو وہ ندوے سے بڑا سمجھتے تھے اور دعوی کرتے تھے کہ ایک مثالی ادارہ ہے، جو ندوے سے فائق ہوگا، لیکن وہ مثالی ہی رہ گیا۔ اس کے قیام کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر اب تک اس کا کوئی مثالی یا غیر مثالی پروڈکٹ سامنے نہیں آیا۔
علامہ ندوے سے نکل گئے، مگر ندوہ ان کے اندر سے نہیں نکلا، اس لیے وہ آج بھی نسبت اسی کی طرف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جانشین سید ابو الحسن علی ندوی کہتے ہیں، اگر ندوہ ان کے اندر نہ ہوتا تو کم از کم اس جانشینی کا دعوی تو نہ کرتے، خاص طور پر اس وقت جب اپنا قبلہ و کعبہ بھی بدل دیا۔
جب تک ندوے میں رہے استاذ فقہ و حدیث رہے اور حدیث میں استاذیت کے مرتبہ پر فائز رہے، اپنے شاگردوں کو قوی اور ضعیف حدیث اور حق و باطل کا فرق بتاتے اور سمجھاتے تھے، بدعات و خرافات کے خلاف دھواں دھار تقریر کرتے اور دوسروں کو خس و خاشاک سمجھتے تھے، لیکن ندوے سے نکلتے ہی حیرت انگیز طور پر اور ناقابل یقین حد تک بدل گئے۔ اب صرف اہل بیت کی حمایت کا دم بھرتے ہیں اور حضرت معاویہ اور ان کے ساتھیوں کو، جو جلیل القدر صحابہ تھے، ظالم باغی اور طاغی کہنے لگے اور تمام اہل سنت کو، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و تقدس کے قائل ہیں، ناصبی کہا۔
اہل سنت تو ان کو ناصبی نظر آئے، مگر خواجہ اجمیری اور دوسری درگاہوں کے بے دین، بے عمل اور بد کردار مجاورں کو اہل بیت کا حامی و ناصر سمجھا، اس لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مل کر اہل بیت کے دفاع کا عہد کیا اور پلان بنایا۔ پتہ نہیں اہل بیت کی شان میں کس نے گستاخی کی اور ان کو اچانک اہل بیت، یعنی اپنے آبا و اجداد، کے دفاع کا خیال اتنی تاخیر سے کیوں آیا؟ اہل سنت نے کب اہل بیت اور آل رسول کی شان میں گستاخی کی؟ علامہ چالیس پینتالیس سال تک ندوے میں، جو اہل سنت کا ادارہ ہے، مسند تدریس پر فائز رہے اور حدیث کی خدمت کرتے رہے، اس طویل مدت میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہاں اہل بیت مظلوم ہیں اور یہ ناصبی، جن کو وہ حدیث پڑھاتے رہے اور جن کے ساتھ رہے، ان کی عظمت و تقدس کے قائل نہیں ہیں۔ اگر اس پوری مدت میں علامہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ یہ سب کے سب ناصبی اور اہل بیت کے دشمن ہیں تو وہ یا تو بڑے غبی اور احمق ہیں یا بہت بڑے عیار و مکار اور مفاد پرست۔ غبی یا احمق تو نہیں ہیں، البتہ مفاد پرست ضرور ہیں، اپنے مفاد کے لیے شیعوں کی طرح اپنا عقیدہ چھپائے رکھا اور ندوے سے نکلتے ہی اپنی حقیقت ظاہر کردی۔
ابھی حال ہی میں 27 – 28 فروری کو خانقاہ حضرت سید شاہ پیر دمڑیا، بھاگلپور، میں دو روزہ صوفی کانفرنس ہوئی، جس میں علامہ اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ شریک ہوئے، علامہ کا تعارف سجادہ نشیں خانقاہ سید احمد شہید، لکھنؤ، کی حیثیت سے کرایا گیا اور ساتھ ہی ان کو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ کا جانشین بتایا گیا۔ حیرت ہے کہ حضرت مولانا رحمہ اللہ کے اصل نسبی و روحانی اور علمی جانشین استاذ گرامی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی موجودگی میں علامہ اپنے رشتے کے نانا کی جانشینی کا دعوی کیوں اور کیسے کرتے ہیں؟
بات در اصل وہی ہے کہ ندوے سے تو نکل گئے، مگر ندوہ ان کے دل سے نہیں نکلا۔ جہاں کہیں بھی وہ روحانیت کا ذکر کرتے ہیں یا اہل بیت کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں وہ در اصل ندوے کے خلاف غم و غصہ کا در پردہ اظہار ہے، صاف طور پر کہنے لیے ان کے پاس اخلاقی جواز نہیں ہے۔
صوفی کانفرنس میں حضرت نے فرمایا کہ تمام سلاسل تصوف اہل بیت بیت پر منتہی ہوتے ہیں، سب کا سرچشمہ وہی ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول نے خلافت ربانی، ملکوتی، روحانی اور سری سے سرفراز فرمایا۔
سوال یہ ہے کہ دین کا سرچشمہ تو کتاب و سنت ہے اور اس کے اولین ترجمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ہیں، جن میں سر فہرست خلفائے راشدین، بشمول حضرت علی ہیں، ان کی فضیلت بھی بترتیب ہے؛ یعنی سب سے افضل حضرت ابو بکر، ان کے بعد حضرات عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ علامہ نے سب کو گول کردیا اور خلافت کو اہل بیت میں محصور کردیا، اس سے بڑی دھاندلی اور گمراہی اور کیا ہوگی؟
قرآن کریم کی آیت صریح ہے کہ نبی کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں تزکیہ نفوس شامل ہے، ارشاد باری ہے:
ربنا وابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلمهم الكتاب والحكمة ويزكيهم، إنك أنت العزيز الحكيم ( البقرة: ١٢٩ )
اسی تزکیہ نفوس کے لیے عہد نبوی اور عہد صحابہ کرام کے بعد اولیائے کرام اور مصلحین عظام نے تصوف کی اصطلاح استعمال کی، جو اہل سنت کے درمیان رائج ہوئی، موضوع بحث بھی رہی اور اس پر کتابیں لکھی گئیں۔
تصوف بمعنی تزکیہ نفوس کا کوئی منکر نہیں ہے، لیکن علامہ جس تصوف کی بات کر رہے ہیں اور جس کی اہمیت پر پورا روز صرف کر رہے ہیں وہ کھلی گمراہی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ ان مزاروں پر حاضری دے رہے جہاں کھلا شرک ہوتا ہے اور جو بدعات و خرافات کے اڈے ہیں اور وہاں سے تزکیہ نفوس کی صدا بلند کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ سید احمد شہید کے نام سے جو جامعہ قائم کی اب وہ جامعہ نہیں، خانقاہ بن گئی اور حضرت اس کے سجادہ نشین نام زد ہوگئے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ یہ جامعہ یا خانقاہ آپ نے کیسے قائم کی اور کس پیسے سے تعمیر کی؟ حقیقت یہ ہے کہ حضرت نے اہل خیر کے چندے اور قومی سرمائے سے جو جائیداد بنائی ہے اب اس کو بچانے تدبیر سوچ رہے ہیں اور کوشش میں لگے ہیں اور اسی مقصد کے لیے مختلف درگاہوں پر جاکر ان کے مجاروں سے، جن کا یہی پیشہ ہے، دوستی کر رہے ہیں، تاکہ اپنی جائیداد بچاسکیں۔ جب شرم و حیا ختم ہوجائے اور ضمیر مرجائے تو آدمی عزت و آبرو اور دین و ایمان کا سودا کرنے لگتا ہے۔
اللہ تعالی اپنے دین پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔