(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دہلی کے وویک وہار کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں لگنے والی انتہائی بھیانک آگ نے کئی ایسے بچوں کی جانیں لے لی ہیں جو ابھی پیدا ہی ہوئے تھے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس بھیانک آگ میں سات نوزائیدہ بچے اپنی جان سے گیے ہیں ۔ یہ آگ کیوں اور کیسے لگی اس کا قصوروار کون ہے؟ اس سوال پر ذمے داران غور کریں گے ، لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ماضی بلکہ ماضی قریب میں مختلف مقامات پر آگ لگنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ، ان سے ملک کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے کیوں کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ؟ یہ اسپتال جس میں سات نوزائیدہ بچے جل کر مرے ہیں ایک گلی کے اندر ایک ایسی عمارت کے پہلے منزلے پر تھا جہاں آگ لگنے پر بچاؤ کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا ۔ ایک ہی سیڑھی تھی ، اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ سرکاری اہلکاروں اور پولیس سے ملی جانکاری کے مطابق آگ پر قابو پانے والے آلات بھی اسپتال میں نہیں تھے ۔ آگ بجھانے والے عملے نے جان پر کھیل کر بارہ معصوم جانیں بچائیں لیکن سات کو وہ نہیں بچا سکے ! کمروں کے اندر دھواں بھرا ہوا تھا اور ننھی جانیں اندر جل رہی تھیں ، فائر بریگیڈ کا عملہ اندر داخل ہونے کے لیے ہاتھ پیر مار رہا تھا ، لیکن تنگ راستہ اور دھواں اس کے لیے مشکلات پیدا کر رہا تھا ، مگر فائر بریگیڈ کے عملے نے مشکلات کے باوجود ننھی جانیں بچائیں ۔ دو دن کے اندر یہ دوسری بڑی آگ ہے ۔ سنیچر کو راجکوٹ کے ایک گیمنگ زون میں بھیانک آگ لگی تھی جس میں نو بچوں سمیت ٣٣ لوگ جل کر مرے ہیں ۔ اور اس سے پہلے ممبئی کے مضافات میں ڈومبیولی کی ایک کیمیکل فیکٹری بوائیلر دھماکہ سے آگ کی لپیٹ میں آ گئی تھی ، اس میں مرنے والوں کی تعداد دس سے گیارہ بتائی جاتی ہے اور زخمیوں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہے ۔ ان تین بھیانک سانحات کے علاوہ ملک میں آگ لگنے اور فیکڑی میں دھماکہ ہونے کے مزید واقعات ہوئے ہیں جن میں لوگ جان سے بھی گیے ہیں اور زخمی بھی ہوئے ہیں ۔ راجکوٹ میں بھی گیمنگ زون کے اندر وہ آلات نہیں لگائے گیے تھے جن سے آگ پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ ایمرجنسی دروازے بھی نہیں تھے اور نہ ہی آگ پر قابو پانے کے لیے کوئی عملہ ہی رکھا گیا تھا ۔ ڈومبیولی کی فیکٹری میں بھی حفاظتی انتظامات سے لاپروائی برتی گئی تھی ۔ دہلی کے اسپتال ، راجکوٹ کے گیمنگ زون اور ڈومبیولی کی فیکٹری تینوں ہی جگہ کے مالکان پر لاپروائی کے معاملات درج کر کے کچھ کی گرفتاریاں کی گئی ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان گرفتاریوں سے مرنے والے لوٹ آئیں گے یا زخمی ٹھیک ہو جائیں گے یا متاثرین کے اہل خانہ سکون پا جائیں گے ؟ ایک سوال مزید ہے ، کیا گرفتاریاں آئندہ آگ نہ لگنے کا کوئی حل ہیں؟ گرفتار ہونے والے مالدار افراد ہیں ، مقدمے میں وہ بری ہو سکتے ہیں اور پھر یہاں مقدمے اتنے لمبے عرصے تک چلتے ہیں کہ لوگ سانحات کو بھول جاتے ہیں ، اور قصورواروں کو بچنے کے بہت سے مواقع مل جاتے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے کہ سرکاری افسران اور ادارے اپنے کام ٹھیک ڈھنگ سے کریں ، لاپروائی نہ ہونے دیں ، غیرقانونی طور پر چلنے والے اسپتالوں ، گیمنگ زونوں اور ریسٹورنٹوں وغیرہ پر سخت کارروائی کریں ۔ فائر بریگیڈ کے افسران ہر عمارت میں فائر سیفٹی کے لیے جو بھی اقدامات ضروری ہیں ان پر توجہ دیں اور جو ان پر عمل نہ کرے اس کے خلاف سخت کارروائی کریں ۔ زیادہ کمانے کی ہوس میں لوگ قواعد و ضوابط کو نظر انداز کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بھیانک حادثات ہو رہے ہیں ۔ ایک بڑا سبب سرکاری افسران کے ذریعے رشوت لے کر آنکھیں بند کرنا بھی ہے ۔ اس پر روک لگے ، اور ضوابط کے مطابق لائسنس اور منظوری دی جائے تو حادثات اور سانحات پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے ۔