Home تجزیہ کیوں ہے قرآن خوانی پر اعتراض ؟-شکیل رشید

کیوں ہے قرآن خوانی پر اعتراض ؟-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

کوئی دن رات ڈی جے بجا کر کسی سوسائٹی میں بھجن گاتا رہے کوئی مسٔلہ نہیں پیدا ہوگا ، لیکن اگر کسی نے اپنی سوسائٹی میں تلاؤتِ قرآنِ پاک کا اہتمام کر لیا تو مسٔلہ کھڑا ہو سکتا ہے ، جیسے کہ غازی آباد کی ایک سوسائٹی میں مسٔلہ کھڑا ہو گیا ہے ۔ غازی آباد میں ’ چتراؤن سوسائٹی ‘ میں ، جو کہ ایک ہائی فائی سوسائٹی ہے ، ایک خاتون نے اپنی بیمار بچی کی صحت یابی کی غرض سے اپنے فلیٹ میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا تھا ، مدرسے کے بچے جمع ہوکر فلیٹ میں قرآن کریم کی تلاؤت کر رہے تھے ، جس کا ویڈیو بنا کر وائرل کر دیا گیا اور آناً فاناً ساری سوسائٹی تلاؤتِ قرآن کے خلاف صف آراء ہوگئی ۔ پولیس میں شکایت درج ہو گئی ہے ، مدرسہ کے بچوں پر سوسائٹی کے گارڈ کی طرف سے مار پیٹ کرنے کا الزام لگادیا گیا ، اور یہ خبر بھی پھیلا دی گئی کہ باہر سے آئے مسلمانوں نے حملہ کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ دس بارہ بچے جو قرآن خوانی کے لیے آئے تھے اب پریشان کیے جائیں گے ۔ اس معاملہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جس خاتون نے قرآن خوانی کروائی ہے وہ اپنی بیٹی کی صحت یابی کے لیے مندر بھی جاتی رہی ہے ۔ وہ خاتون کس مذہب کی ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چل پایا ہے ، لیکن چونکہ اس کا نام کسی خبر میں نہیں لیا جا رہا ہے ، اس لیے گمان ہے کہ وہ غیر مسلم ہے ۔ کسی کے مشورے پر اس نے اپنے فلیٹ میں قرآن خوانی کا اہتمام کرایا تھا ۔ اگر وہ خاتون مسلم ہوتی تو ممکن تھا کہ ہنگامہ مزید شدید ہوجاتا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہانہ بنا کر کہ سوسائٹی سے اجازت نہیں لی گئی تھی ، کسی کے گھر کے اندر ہونے والی کسی سرگرمی پر اس طرح سے ہنگامہ کیا جانا جائز ہے کہ پولیس تھانے کی نوبت آ جائے ؟ کیا ہندو سوسائٹیوں میں لوگ اپنے گھروں کے اندر جو چھوٹے منادر بنا کر پوجا پاٹ کرتے ہیں ، وہ جائز ہے ؟ اگر وہ جائز ہے تو کسی فلیٹ کے اندر قرآن خوانی کا عمل کیسے ناجائز ہوگیا ؟ اگر اس طرح کے اعتراضات کو درست اور جائز مان لیا جائے تو کسی بھی سوسائٹی میں لوگ اپنے گھروں کے اندر کسی بھی طرح کا مذہبی عمل نہیں کر سکیں گے ۔ اُن مسلمانوں کے لیے تو بالخصوص ، جو کسی ایسی سوسائٹی میں رہتے ہیں جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے ، پریشانیاں شدید ہو جائیں گی ، گھر کے اندر خواتین کا یا بیماروں کا نمازیں پڑھنا دشوار بلکہ ناممکن بن جائے گا ۔ یہ نفرت اور عصبیت کی انتہا ہے ! بی جے پی نے اپنی حکومت میں یہ جو نفرت کا زہر بویا ہے وہ کس طرح سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ، بلکہ بعض لوگوں کے مطابق لپیٹ میں لے چکا ہے ، مذکورہ واقعہ اس کی ایک واضح مثال ہے ۔ اس ملک میں اب آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں ، کبھی کسی سوسائٹی میں بقرعید کے موقع پر بکرے باندھنے یا گھروں کے اندر بکرے ذبح کرنے پر ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے ، تو کبھی رمضان المبارک کے مہینے میں تراویح کی نمازیں روکی جاتی ہیں ۔ میلاد کی محفلیں تو بالکل ہی ٹھپ کر دی گئی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کسی کے گھر کے اندر کیا ہو رہا ہے یہ دیکھنے کا فرض کب سے ان نفرت فروشوں کے ذمے ہو گیا ہے ! کیوں یہ دوسروں کے گھروں کے اندر جھانکتے ہیں ؟ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ وہ اگر گوشت کھانے سے روک دیں تو ساری سوسائٹی گوشت نہ کھائے ، سبزی کھائے ؟ کیوں وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے وہی لباس پہنیں جو وہ چاہتے ہیں ؟ ان سوالوں کے جواب سامنے آنا ضروری ہیں ، تاکہ پتا تو چلے کہ اصل مسٔلہ کیا ہے ، معاملہ کیا ہے ، کیوں یہ نفرت ہے ۔ افسوس کہ اس نفرت نے سارے ملک کو کئی دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ، اور اس کے نتیجے میں ملک بڑی تیزی کے ساتھ بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو کون کیا کھا رہا ہے ، کیا پہن رہا ہے اور کس طرح سے عبادت کر رہا ہے اِن سب باتوں کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔ اور اس کے لیے اندھ بھکتی چھوڑنا ہوگی ، اور باشعور انسانوں کی طرح سوچنا ہوگا ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like