Home نقدوتبصرہ کتاب التجرید: ایک تجزیاتی مطالعہ ـ محمد خالدضیا صدیقی ندوی

کتاب التجرید: ایک تجزیاتی مطالعہ ـ محمد خالدضیا صدیقی ندوی

by قندیل

(استاد:مدرسہ معینیہ عظمت العلوم،صاحب گنج،مظفرپور،بہار)

کتاب التجریدچوں کہ علم الخلاف یا فقہ مقارَن سے تعلق رکھتی ہے،اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کے تعارف سے پہلے فقہ مقارَن کے بارے میں چند ضروری باتیں ذکرکردی جائیں۔
فقہ کے لغوی معنی:
لغت میں فقہ کے معنی فہم اور سمجھ بوجھ کے آتے ہیں۔ اسی مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے: وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِي یَفْقَهُوْا قَوْليْ.(طہ:۲۷) اور حدیث شریف میں ہے: من یرد اللّٰه به خیراً ، یفقِّهه في الدین.
فقہ کا اصطلاحی مفہوم:
اصطلاح شرع میں فقہ کی تعریف یوں کی گئی ہے: ” هو العلم بالأحکام الشرعیة العملیة المكتسب من أدلتها التفصیلیة”.
(یعنی تفصیلی دلائل سے عملی شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے)
مقارَن کی لغوی تعریف:
لغت میں مقارَنۃ کے معنی آتے ہیں: الجمع والوصل. یعنی جمع کرنا،ملانا۔
فقہ مقارَن کی اصطلاحی تعریف:
"هو دراسة الآراء الفقهیة المختلفة في المسألة الواحدة مع مستنداتها من الأدلة الشرعیة، وتقویمها ، وبیان مالها وما علیها بالمناقشة ، وإقامة الموازنة بینها، توصلاً إلی معرفة الراجح منها، أو الجمع بینهما، أوالإتیان برأيٍ جدیدٍ أرجحَ دلیلاً منها، وبذلك تتحق نقاط الاتفاق بین الآراء والمذاهب، وتحدد نقاط الاختلاف ، ویکشف عما هو خلاف صوري أو شکلي أو اصطلاحي ، وما هو اختلاف واقعي ، مع بیان الأ سس والأصول والقواعد التي انبنی علیه کل قول ، وتکون سببًا للخلاف بین الآراء، ویرجع إلیها الاختلاف في الأ قوال والمذاهب” .
(یعنی فقہ مقارن نام ہے کسی ایک مسئلے میں فقہی آرا کا ان کے شرعی دلائل کے ساتھ مطالعہ کرنے،ان کی جانچ پرکھ کرنے،ان کے محاسن ومعائب پر گفتگو کرنے اور ان کے درمیان اس مقصد سے موازنہ کرنے کا کہ قول راجح کی جان کاری ہوسکے،یاان تمام آرا کو معمول بہا بنایا جاسکے یا ان سے زیادہ قوی رائے سامنے لائی جاسکے۔اس طرح آراومسالک کے اتفاقی نقطے معلوم ہوجاتے ہیں اور اختلافی جہتیں بھی واضح ہوجاتی ہیں،اور جو جزوی یا ذیلی یا اصطلاحی اختلاف ہے وہ اصلی اختلاف سے ممیز بھی ہوجاتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان اصول وقواعد کی وضاحت کرنا بھی فقہ مقارن کا حصہ ہے جن پر ہرقول کی بنیاد پڑی ہے،اور جن کی وجہ سے آرا کا اختلاف سامنے آیا ہے)
مختصر لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ فقہی مسائل میں مختلف مسالک ومکاتب فکر کی آرا کو جمع کرکےان کا تقابلی مطالعہ کرنا” فقہ مقارن” کہلاتا ہے۔
فقہ مقارن، فقہ اسلامی کا نہایت اہم پہلو ہے۔اس کو ابتدائی دور میں "علم الخلاف” کہا جاتا تھا،جس میں شرعی دلائل بیان کرنے،دلائل پر وارد ہونے والے شبہات اور فریق مخالف کے دلائل کا قطعی اور یقینی دلائل کے ساتھ جواب دینے کے طریقوں سے بحث کی جاتی تھی ۔
لیکن جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں زندگی کے ہر میدان میں نئے نئے مسائل سامنے آئے ،اور تیز رفتار ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانی طرز زندگی کو یکسر تبدیل کردیا،تو ایسے میں فقہ اسلامی کو بھی کئی مسائل اور چیلینجز کا سامنا کرنا پڑا،اور ایک ہی مسلک کے دائرے میں رہ کر ان کے حل میں دشواری پیش آنے لگی۔اس کے نتیجے میں یہ رجحان پیدا ہوا کہ تمام فقہی مسالک کا تقابلی مطالعہ کیا جائے اور اپنے مسلک پر باقی رہتے ہوئے دوسرے فقہی مسالک سے استفادہ کرکے جو رائے دلائل کی روشنی میں راجح معلوم ہو،اس کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔فقہی مسالک کے اسی تقابلی مطالعے کو دور حاضر میں ” فقہ مقارن” یا "فقہ تطبیقی” کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا۔
عصر حاضر میں فقہ اسلامی کے مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے تقابلی مطالعہ کا رجحان اہل علم کے حلقوں میں کافی بڑھ گیا ہے۔ مختلف حلقوں اور اداروں سے یہ صدا لگائی جارہی ہے کہ زمانے کا تقاضا ہے کہ فقہ اسلامی کے مختلف ابواب میں فقہا کے بنیادی اختلافات سے آگاہی حاصل کی جائے ،اور عصر حاضر کے پیدا کردہ نت نئے مسائل میں کسی خاص مکتب فکر کی بجائے فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کو سامنے رکھ کر ان مسائل کا آسان اور اقرب الی الصواب حل نکالنے کی کوشش کی جائے ۔

فقہ مقارن پر لکھی گئی چند اہم کتابیں:
فقہ مقارن پر علمانے ہر دور میں اہم اور جامع کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔متقدمین کی کتابوں میں قاضی عبدالوہاب مالکی بغدادی کی کتاب ” الإشراف علی نکت مسائل الخلاف”، علامہ دبوسی کی”تاسیس النظر فی اختلاف الائمۃ”، ابن ھبیرہ کی "الإفصاح عن معاني الصحاح”، ماوردی کی "الحاوی الکبیر”، ابن حزم اندلسی کی ” المحلی”، ابن رشد مالکی کی "بدایۃ المجتہد”، امام بیہقی کی "الخلافیات”،علامہ کاسانی کی ” بدائع الصنائع "، ابن قدامہ حنبلی کی "المغنی” اور امام قدوری کی "کتاب التجرید” خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
دور حاضر میں بھی اس موضوع پر قابل قدر کوششیں ہوئی ہیں اور بہت سی مفید تصنیفات منظر عام پر آئی ہیں۔ان میں سب سے زیادہ مشہور اور اہم کتاب ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی ” الفقہ الاسلامی وأدلتہ” ہے ،جس میں مصنف نے فقہ کے تمام ابواب میں مذاہب اربعہ اور ان کے دلائل کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔ ائمہ کی آرا کو بیان کرنے کے بعد انھوں نے اپنی رائے اور موقف کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔فقہ مقارن پر ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب موسوعی اور منفرد انداز کی کتاب ہے۔معروف مصری عالم شیخ عبدالرحمن جزیریؒ کی کتاب”الفقہ علی المذاہب الأربعۃ” بھی فقہ اسلامی کے تقابلی مطالعے کے لیےایک اہم کتاب ہے۔ ڈاکٹر محمود ابواللیل اور ڈاکٹر ماجد ابو رخیہ کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں فقہ مقارن پر ایک عمدہ اور وقیع کتاب "بحوث فی الفقہ المقارن” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ڈاکٹر محمد فتحی درینی کی کتاب ” بحوث مقارنۃ فی الفقہ الإسلامی وأصولہ” بھی فقہ مقارن پر ایک شاندار کتاب ہے۔ اسی طرح کویت سے شائع ہونے والے عظیم موسوعہ "الموسوعۃ الفقہیۃ ” میں بھی تمام مسالک کے بیان کا التزام کیا گیا ہے۔اردو میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی کتاب ” قاموس الفقہ” بھی فقہ اس موضوع پر گراں قدر ذخیرہ ہے ۔
اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے سب سے مفصل تصنیف جامعہ امام محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم النملہ کی کتاب”المہذب فی أصول الفقہ المقارن” ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی کتاب ” أصول الفقہ الإسلامی” میں چاروں مذاہب کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔اردو میں ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کی طرف سے شائع کردہ کتاب” اصول فقہ-ایک تعارف” اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے مفید کتاب ہے۔
متقدمین کی کتابوں میں امام قدوری کی کتاب التجرید کو فقہ مقارن میں بڑا امتیاز حاصل ہے۔اس مقالے میں اسی کتاب کا تعارف کرانا مقصود ہے؛مگر اس سے پہلے مصنف کتاب کا مختصر تعارف ضروری ہے۔
امام قدوریؒ – مختصر تعارف:
چوتھی صدی ہجری میں جن عظیم شخصیات نے جنم لیا ان میں امام قدوری ؒبھی ہیں۔آپ کا پورا نام : ابوالحسین ،احمد بن محمد بن جعفر بغدادی،قدوری ہے۔سنہ۳۶۲ھ/ ۹۷۳ء کو آپ بغداد کی زرخیز اور علم ریز سرزمین میں پیدا ہوئے، اور ۴۲۸ھ/ ۱۰۳۷ء کو ۶۶/ برس کی عمر میں چشم عالم سے نہاں ہوگئے۔
آپ نے علمی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔آپ کے والد ماجد وقت کے عالم جلیل اورمحدث کبیر تھے۔اس وقت بغداد کی سرزمین علم سے مالا مال اورعلما سے نہال تھی۔ہر طرف علمی چرچے اور ہر سو علمی حلقے تھے۔ایسے ماحول میں آپ پلے بڑھے اور درجہ بہ درجہ علمی منازل طے کرتے رہے۔اللہ نے ذہن کی زرخیزی اور حافظے کی قوت سے نوازا تھا،جس کے نتیجے میں آپ نے بہت جلد وہ مقام حاصل کرلیا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
علمی مقام:
آپ کو یوں تو علم کی بیشتر شاخوں میں دسترس حاصل تھی ؛مگر” فقہ وتفقہ” کی دولت سے خاص طور پر آپ مالا مال تھے ، جس کا اعتراف آپ کے معاصرین نے بھی کیا ہے۔آپ کا شمار فقہائے احناف کے پانچویں طبقے یعنی اصحاب الترجیح میں ہوتا ہے۔ خطیب بغدادی نے آپ کے فقہی مقام اور علمائے احناف کے درمیان آپ کے علو مرتبت کے بارے میں لکھاہے:
” کان ممن أنجب في الفقه لذکائه ،و انتهت إلیه بالعراق رئاسة أصحاب أبي حنیفة ،وعظم عندهم قد ره وارتفع جاهه”.
آپ کے علمی مقام اور عظمت شان کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے شاگردوں میں خطیب بغدادی جیسے حافظ حدیث اورناقدو مؤرخ شامل ہیں۔
آپ کےمعاصرین:
آپ کے معاصرین میں بڑے ممتاز علما وفقہا شامل ہیں:
علمائے احناف میں سے: شیخ ابو زید دبوسی،شمس الائمہ حلوانی،ابو جعفر نسفی، ابواللیث سمرقندی۔ شوافع میں سے : ابو حامد اسفرائینی،ابو اسحاق شیرازی،قاضی ابو بکر باقلانی۔مالکی علما میں:ابوالولید باجی اندلسی، اور حنابلہ میں:ابویعلی الفراء وغیرہ خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔
چند اہم تصنیفات:
آپ کے قلم سے کئی اہم اور قیمتی کتابیں نکلیں، جن کی وجہ سے علمائے احناف میں آپ کو نمایاں مقام حاصل ہوا۔ان میں التقریب،شرح المختصر، المختصر (قدوری) اور التجرید خاص طور سے قابل ذکرہیں۔
کتاب التجرید- ایک تعارف:
امام قدوری کی یہ کتاب” علم الخلاف "سے تعلق رکھتی ہے، جس میں انھوں نے احناف اور شوافع کے درمیان پائے جانے والے مختلف فیہ مسائل کو ایک خاص ترتیب سے جمع کیا ہے ۔دونوں مسالک کے مسائل اور دلائل پیش کرنے کے بعد مسلک احناف کی ترجیح ثابت کی ہے ۔ مصنف نے اس کتاب کا املا ۲۳/ذی قعدہ ۴۰۵ھ کو شروع کرایا تھا، جوکتاب الطہارۃ سے شروع ہوکر کتاب ادب القاضی پر ختم ہوا۔ کتاب شروع میں صرف ایک ضخیم جلد میں تھی۔ پھریہ سات جلدوں میں طبع ہوئی ۔ اس کے بعد ۲۰۰۴ءمیں دارالسلام ،قاہرہ سے اس کا ایک محقق ایڈیشن شائع ہوا ہے جو ۱۲/جلدوں پر مشتمل ہے۔اور یہی میرے پیش نظر ہے۔کتاب کے مواد ومباحث کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ علم الخلاف اور فقہ مقارن کے موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے؛مگر افسوس کہ علمی حلقوں میں اسے وہ مقام حاصل نہیں ہے،جو اسے ملنا چاہیے۔
کتاب کی اہمیت:
کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے محقق کتاب لکھتے ہیں:
۱۔ یہ پہلی فقہی کتا ب ہے جس میں فقہ مقارن کے خدوخال کو اچھی طرح نمایا ں کیا گیا ہے۔
۲۔ یہ کتاب فقہی انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔جس میں احناف کے دلائل کو جمع کیا گیا ہے اور ان کی
بھرپوروکالت کی گئی ہے۔ شوافع کے دلائل کے استقصا کے لحاظ سے بھی یہ کتاب موسوعہ کا درجہ رکھتی ہے ۔
۳۔ کتاب میں احناف اور شوافع کے فقہی نصوص کا اس قدر وافر حصہ اس میں جمع ہوگیا ہے کہ آج تک کسی کتاب میں اس قدر احاطہ نظر نہیں آتا۔
۴۔ اگر یہ دیکھنا چاہیں کہ مختلف فقہی مسالک کے مابین علمی مناقشہ کا اسلوب اور لب ولہجہ کیسا ہونا چاہیے ،تو اس کے لیے یہ کتاب بہتر ین نمونے کا کام دے سکتی ہے۔امام قدوری نے اس کتاب میں امام شافعی اور ان کے اصحاب کے موقف کا رد کرتے ہوئے جس قدرنرم لہجہ اور عمدہ اسلوب اختیار کیا ہے ،وہ قابل تقلید ہے۔
۵۔ امام قدوری نے مسلک احناف پر وارد کیے جانے والے معترضین کے اس اعتراض کہ یہ ایسا مسلک ہے جس میں رائے کو فوقیت ؛بلکہ اس کو سنت پر ترجیح دی جاتی ہے کا اس طرح پرزہ اڑایا ہے کہ قاری کویقین اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ تمام فقہا کی طرح احناف بھی قرآن وسنت ہی کو مقدم رکھتے ہیں اور ان دونوں ہی کو بنیادی مصدر
کی حیثیت دیتے ہیں۔
کتاب کا منہج،اسلوب اور خصوصیات:
امام قدوریؒ نے اس کتاب میں جو منہج اختیار کیا ہے،اس کی تفصیل کچھ یوں ہیں:
۱۔ احناف اور شوافع کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ بیان کرنے کے بعد دونوں مسلکوں کے دلائل تفصیل سے ذکر کیے
ہیں۔پھر دلائل کی روشنی میں مسلک احناف کو راجح قراردیا ہے۔
۲۔ ہر مسئلے میں مسلک احناف کو پہلے بیان کیا ہے۔احناف میں اگر امام ابوحنیفہؒ کا قول ذکرکرنا ہو، تو اس کے لیے
(قال أبوحنیفة) کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔اور اگر صاحبین کا قول ذکرکرتے ہیں،تو (قال أبویوسف ومحمد)
کی تعبیر اختیار فرماتے ہیں؛لیکن اگر کسی کی طرف قول منسوب کیے بغیر صرف مسلک کو بیان کرتے ہیں،تو اس
کے لیے (قال أصحابنا) کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔
۳۔ احناف کا مسلک ذکرکرنے کے بعد شوافع کا مسلک بیان کرتے ہیں۔یہاں بھی وہی منہج اختیار کرتے ہیں جو
مسلک حنفی کے بیان میں اختیار کیاگیا ہے۔ یعنی اگر امام شافعیؒ کا قول ہو تو اس کے لیے (قال الشافعي) اور اگر کسی کی طرف منسوب کیے بغیر صرف مسلک بیان کرنا مقصود ہو، تواس کے لیے (قال أصحاب الشافعي) کی تعبیر اختیار فرماتے ہیں۔
۴۔ کتاب میں اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ پہلے احناف کے مستدل کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے (لنا) کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ۔اس کے بعد شوافع کے مستدلات کو بیان کیا گیا ہے،جس کے لیے (قالوا) یا (احتجّوابـ ) کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔
۵۔ امام قدوریؒ نے چوں کہ اس کتاب میں مناظرانہ اسلوب اختیار کیا ہے جو ان کے زمانے میں اپنے عروج پر
تھا،اس لیے وہ ہر مقام پر شوافعؒ کے دلائل ذکرکرنے کے بعد احناف کی طرف سے بھرپور جوابات بھی دیتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ امام قدوری کا شوافع کے ساتھ مناظرہ چل رہا ہے،جس میں وہ دونوں مسلکوں کے دلائل بھی ذکر کررہے ہیں اور حضرات شوافع کے مستدلات کے ٹھوس جوابات بھی دے رہے ہیں۔اگر اس کی مثال دیکھنی ہو تو جلد :۱، صفحہ:۴۵۳-۴۵۲ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ جس میں اس مسئلے کی توضیح کی گئی ہے کہ فجر کی نماز کے دوران اگر سورج طلوع ہوجائے،تو احناف کے نزدیک نماز باطل ہوجاتی ہے،جب کہ امام شافعی کے نزدیک نماز باطل نہیں ہوتی؛بلکہ بنا کرکے اسی نماز کو مکمل کیا جاتاہے ۔
۶۔ کتاب کا علم الخلاف کے موضوع پر ہونے اور مناظرانہ اسلوب اختیار کرنے کے باوجود امام قدوریؒ نے پوری
کتاب میں کہیں ادب واحترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔امام شافعیؒ کی طرف کوئی طنزیہ نسبت یا خلاف ادب الفاظ ذکر نہیں کیا؛بلکہ فقہائے شافعیہ کا تذکرہ بھی نہایت ادب واحترام کے ساتھ کیا ہے۔ پوری کتاب میں کہیں کوئی نامناسب تعبیر نہیں ملتی۔ اس سے امام موصوف کے مزاجی اعتدال ، قلبی وسعت اور قلمی شرافت کا پتہ چلتا ہے۔جو اصحاب قلم وقرطاس کے لیے سیکھنے کی چیز ہے۔
۷۔ اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کا اسلوب انتہائی آسان، عام فہم،سلیس،شیریں اور واضح
ہے۔مغلق تعبیرات سے مکمل گریز کیا گیا ہے۔
۸۔ کتاب کی نمایاں خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ اس میں دلائل کا استقصا کیا گیا ہے۔حتی الامکان احناف اور شوافع
کے تمام دلائل ذکرکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس طرح یہ کتاب احناف اور شوافع کے مختلف فیہ مسائل اور دلائل کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا بن گئی ہے۔
۹۔ احناف پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں،ہر اعتراض کے علمی جوابات دیے گئے ہیں،اور اس کے لیے علم الخلاف کے اصول کو اپنا کر تحقیقی انداز میں مسلک احناف کی ترجیح کی کوشش کی گئی ہے،اور علم الجدل والمنطق کا سہارا لے کر امام ابوحنیفہؒ کا بھرپور دفاع کیا گیا ہے۔
خلاصۂ بحث:
پوری کتاب کے مطالعے سے بنیادی طور پرتین باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں:
۱۔ فروعی اختلافات زحمت ومشقت کا باعث نہیں؛بلکہ باعث رحمت ویسر ہیں۔
۲۔ فروعی اور مسلکی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا ادب واحترام بےحد ضروری ہے۔
۳۔ فقہی اختلافات ؛بلکہ ہر نوع کے اختلاف میں تعصب وتشدد کے راستے کو اپنانے کی بجائےدلائل وشواہد کو بنیاد بنانا چاہیے،اور ان کی روشنی میں اپنے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔

مصادر ومراجع:
القرآن الکریم .
صحیح البخاري،محمد بن اسماعیل البخاري، دارالقلم دمشق،1400ھ/1980م.
بحوث في الفقه المقارَن،د/ محمود ابولیل، د/ ماجد أبو رخیه،جامعة الإمارات العربیة المتحد ۃ،العین، 1996/1997 م.
المصباح المنیر، أحمد بن علی المقري الفیومي، المطبعة الأمیریة،القاهرۃ،الطبعة السادسة،1926م .
کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، محمد علي التھانوي،تصویر مکتبة کلکتا ،الھند،1862م.
المعجم الوسیط، إبراهیم أنس، عبدالحلیم منتصر، عطیة صوالحي،محمد خلف الله أحمد،دارالأمواج،بیروت، 1992م.
أبجد العلوم، صدیق بن حسن قنوجي،دارالکتب العلمیة،بیروت:1978 م .
کتاب التجرید ،الإمام القدوري،تحقیق:د/ محمد أ حمد سراج، د/علي جمعه محمد،دارالسلام،القاهرة:2004 م.
تاریخ بغداد،الخطیب البغدادي،تحقیق:بشار عواد معروف،دارالغرب الإسلامي،2001م.
وفیات الأعیان،ابن خلکان البرمکي،تحقیق:إحسان عباس،دار صادر ،بیروت،1994م.
سیر أعلام النبلاء، الذهبي،تحقیق:شعیب الأرناؤوط،بشار معروف مؤسسة الرسالة،1982م.
نھایة السول في شرح منهاج الأصول،الإمام جمال الدین عبدالرحیم الآسنوي الشافعي عالم الکتب .
تاریخ التربیة الإسلامیة، د/ أحمد شلبي،مکتبة الإنجلو،مصر،1960م .
التالیف الموسوعي والفقه المقارن،وزارۃ الأوقاف والشؤون الدینیة،سلطنة عمان،الطبعة الثالثة،1433ھ/ 2012م.
مسائل في الفقه المقارن، د/ عمر سلیمان الأشقر، د/ماجد أ بو رخیه، د/ محمد عثمان شبیر، د/عبدالناصر أ بوالبصل،
دارالنفائس، أردن.
الفقه المقارن،حسن أحمد الخطیب،الھیئة المصریة العامة للکتاب،1991م.
قاموس الفقہ،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،زمزم پبلشرز،کراچی،اگست:2007ء۔
علم اصول فقہ-ایک تعارف،ڈاکٹر عرفان خالد،ڈھلّوں،شریعہ اکیڈمی،اسلام آباد پاکستان،2016ء۔
مجلہ علوم اسلامیہ ودینیہ،جولائی-دسمبر،۲۰۱۶ء بہ عنوان: کتاب التجرید میں امام قدوری کا منہج واسلوب،از:بخت شید۔
ماہنامہ دارالعلوم، دیوبندجنوری : ۲۰۱۶ء،بہ عنوان: دور جدید کا فقہی ذخیرہ،از: مولانا سمیع اللہ سعدی۔

You may also like

Leave a Comment