ترجمہ:نایاب حسن
چند سال قبل میں نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہوا تھا، جو میری اُس کیفیت کا نتیجہ تھا، جسے Burnout (جذباتی، جسمانی یا دماغی خستگی) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق غالباً ایک طویل بیماری کے بعد میرے والد کی ناگہانی موت سے تھا ؛حالاں کہ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا،جب میں صرف 12 سال کا تھا ۔اس جاں گسل سانحے کی تکلیف دہ یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہی میں نے کہانیوں اور شاعری کی پناہ لی تھی۔ جب میں تھکا ماندہ بستر پر جاتا،تو پھر کتابوں کی طرف ہی رجوع کرتا،اسی طرح میں نے پال ا سکاٹ(Paul Scott) کی پوریRaj Quartet پڑھی۔ اس کے تہہ دار پرتوں والے پلاٹ اور ہندوستانی ماحول میں شاندار طور پرگڑھے گئے کرداروں نے بلاشبہ میرے ذہنی و نفسیاتی افاقے میں مدد کی۔
میری زندگی میں اور بھی کئی ایسے مواقع آئے ، جب پڑھنا میرے لیے فرارِمحض سے زیادہ کچھ ثابت ہوا ہے۔اپنی عمر کی تیسری دہائی میں جب میں اسکولی طالب علم تھا،تو سماعت کی جزوی کمی کی وجہ سے مجھے آلۂ سماعت کا سہارا لینا پڑا، جو میرے لیے انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ تاہم اس صورت حال سے میں نے ایک ایسے وقت میں، ویلز میں Hay Festival کے دوران Benjamin Zephaniah کی یادگار شاعری پڑھ کر نجات حاصل کی، جب میں جدید آلۂ سماعت کے استعمال کا تجربہ کر رہا تھا۔ Zephaniah نے اپنے سامعین کو اپنے شعری مجموعہ The Dread Affair (1985 پر مبنی موسیقی پر رقص کرنے کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا ،تو ہم نے مل کر رقص بھی کیا۔
تدریسی زندگی میں جب مجھے محسوس ہوا کہ میں بچوں کو واضح طور پر سن نہیں سکتا ، تو میں نے اسکول میں پڑھانا چھوڑ دیا اوربالغوں کا استاذ بن گیا۔ شاعری اور ناولوں پر متعدد کامیاب کورسز کروانے کے بعد ، جو میں نے خود مختلف بالغ گروپوں کے لیے وضع کیے تھے، میں نے ’ببلیو تھراپی‘(کتابوں سے علاج) پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ ببلیو تھراپی کا نظریہ یہ ہے کہ لوگ ادب سے تعامل اپنے گرد و پیش کے ماحول سے فرار حاصل کرنے،کسی خیالی دنیا کی سیر کرنےیا محض کسی علمی مقصد کے حصول کے لیے نہ کریں؛ بلکہ اپنے وجود کے درد کو ہلکا کرنے کے لیے ادب سے تعامل کریں۔مجھے کئی لوگ ملے جو اس نظریے پر باضابطہ تحقیق کر رہے تھے،جیسے کیلڈا گرین(Kelda Green)،جس کی تھیسس کا عنوان تھا When Literature Comes to Our Aid، کچھ ببلیو تھراپسٹ(کتابوں سے علاج کرنے والے)بھی ملے، جیسے ایلا برتھاؤڈ(Ella Berthoud) اور سوزان ایلڈرکن(Susan Elderkin) جنھوں نے Cure نامی ناول (2013) لکھا تھا۔ مجھے ایک آن لائن بک تھراپی کورس بھی ملا، جس کا اہتمام مصنف اور صحافی بیجل شاہ(Bijal Shah) کرتی ہیں؛ لیکن میں خود یہ جاننا چاہتا تھا کہ ببلیو تھراپی کے نظریے میں کوئی سچائی ہے یا نہیں۔
میں نے ورکرز ایجوکیشنل ایسوسی ایشن (WEA) سے ،جہاں میں اس وقت ملازمت کر رہا تھا، ایک 10 گھنٹوں کامفت کورس چلانے کے لیے فنڈ طلب کیا،جس کو میں نے یہ عنوان دیا کہ ’مطالعہ ہماری زندگیوں کو بہتر کر سکتا ہے‘۔ WEA کی بنیاد برطانیہ میں 1903 میں البرٹ(Albert) اور فرانسس مینس برج (Frances Mansbridge)نے رکھی تھی۔انھوں نے اپنی کوششوں سے ذاتی محنت سے تعلیم یافتہ مردوں اور عورتوں یاautodidactsکی ایک پوری نسل تیار کر دی اور ان کی برپا کردہ تحریک کی بدولت محنت کشوں میں بھی تعلیم کا رواج عام ہوا۔ میں نے WEA کے طلبہ کے ایک مقامی گروپ کی مدد سے کورس تیار کیا ، جن میں سے ایک کا خیال یہ تھا کہ ’’شاعری اور ناول کا مطالعہ ہمیں اپنے روزمرہ کے اچھے برے تجربات سے بے نیاز کرکے خوشی، ذہنی تحریک، صحت مندی و ہم نشینی کا احساس فراہم کر سکتا ہے‘‘۔ میں نے اس خیال کو کورس کے اشتہار میں استعمال کیااور 12 مردوں اور خواتین کے ایک گروپ کا اس کورس میں داخلہ لیا۔ان میں سے زیادہ تر کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی، البتہ ایک یا دو کچھ کم عمر کے تھے۔
میں نے کلاس سے ببلیو تھراپی کے نظریے پر گفتگو کی۔ میں نے طلبہ و طالبات سے کہا کہ یہ بات بہت سالوں سے ہورہی ہے اور یہ سب سے پہلے 16ویں صدی کے فرانسیسی فلسفی مشیل ڈی مونٹیگن(Michel de Montaigne) نے کہا تھا کہ کتابوں کا مطالعہ کسی سانحے کی وجہ سے ہونے والی دل شکستگی یا رنج و الم کے موقعوں پر دلاسے کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ طاعون سے اپنے ایک قریبی دوست کی موت کے کچھ دنوں بعد مونٹیگن نے لکھا تھاکہ اس کا غم غلط کرنے میں سب سے اہم رول کتابوں کا رہا ہے ۔ افلاطون نے بھی کہا ہے کہ آرٹس/فنون روح کے دائرے کو شدید خلل کے بعدبھی توازن میں لا سکتے ہیں اور جارج ایلیٹ(George Eliot)، جس نے اپنے شوہر کی موت کے غم پر قابو پانے کے لیے دانتے کے مطالعے کو بطور وسیلہ استعمال کیا،اس کا کہنا ہے کہ’’فن/آرٹ زندگی کے سب سے زیادہ قریب ہے، یہ تجربے کو بڑھانے اور اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رابطے کو ذاتی حدود سے اوپر لے جانے کا ایک وسیلہ ہے‘‘۔
ایک اور مثال جو میں نے ان سے شیئر کی ، وہ شاعر ولیم ورڈز ورتھ کی تھی، جس نے لکھا ہے کہ اسے شاعری میںایسے نکات و مقامات کیسے ملے، جن کی مدد سے کوئی شخص زندگی کی الجھنوں سے آزادہو سکتا ہے اور اپنی طبیعت کے نشاط و انشراح کو بحال کر سکتا ہے۔ 2019 میں کیمبرج سائنس فیسٹیول میں ببلیو تھراپی پر اپنے پرزینٹیشن کے دوران انگریز سکالر ایڈمنڈ کنگ اور شفقت توحید نے سیکنڈ لیفٹیننٹ اسٹیفن ہنری ہیویٹ کا حوالہ دیا، جو 1916 میں سومے حملے میں مارا گیا تھا، اس نے لکھاہے’’ میں مسلسل مطالعے کی وجہ سے اپنے اندر کی اسپرٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہوں، میں نے بہت ساری عمدہ کتابیں پڑھی ہیں‘‘۔
تعارفی گفتگو کے بعد میں چاہتا تھا کہ وہ ببلیو تھراپی کے نظریےکا عملی تجربہ کریں۔رابرٹ میکفارلین (Robert Macfarlane) کی کتاب The Gifts of Reading (2016) میں پیش کردہ ایک آئیڈیا پر عمل کرتے ہوئے میں نے ان سے ایک ایسی کتاب لانے کو کہا ،جو وہ کسی دوست، رشتے دار یا نئے شناسا کو بطور تحفہ دینا چاہیں۔ مجھے توقع تھی کہ وہ بہت سارے ناول لے کر آئیں گے، مگر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان کی لائی گئی کتابوں میں ناول صرف ایک تھا،وہ بھی ایک مقامی مصنف اسٹیفن بوتھ(Stephen Booth) کا کرائم ناول۔زیادہ تر لوگ ایسی کتابیں لائے، جن کے بارے میں میں نے سنا بھی نہیں تھا، جیسے جیمز ریبینکس(James Rebanks) کی Shepherd’s Life (2015)، ٹم مارشل(Tim Marshall) کی Prisoners of Geography (2015) اور ٹریور ڈینس(Trevor Dennis) کی The Three Faces of Christ (1999) وغیرہ۔
اس کے بعد میں نے تحریری یادداشتوں کے استعمال کے بارے میں بات کی جو ہماری زندگی کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں۔ میں نے گروپ کی ایک رکن کے ذریعے کتابوں سے محبت کے حوالے سے لکھی گئی ایک تحریر کا حوالہ دیا، جو اس نے مجھ سے شیئر کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس گروپ کو ’دی گارجین‘ میں شائع شدہ لوئیس ویلش(Louise Welsh) کا ایک مضمون دکھایا ،جس میں اس نے لکھا تھا کہ کس طرح مایا اینجلو(Maya Angelou) کی یادداشت I Know Why the Caged Bird Sings (1969) کے مطالعے نے اسے اینجلو کی زندگی کے تئیں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اگلے سیشن کے لیے، میں نے ان سے ایک ایسی کتاب لانے کو کہا، جس نے ان پر گہرا اثر ڈالا ہو۔
کلاس گروپوں میں تقسیم ہو گئی اور سب آپس میں اس پر تبادلۂ خیال کرنے لگے کہ وہ کونسی کتاب لائے ہیں۔ ان کے انتخاب میں ایک نیورولوجسٹ کی کیس ہسٹری، ایک کتاب خاموشی پر، بچپن کی پڑھائی یاد دلانے والی کتابیں، نغمات اور دُھنوں کی کتاب،ایک پلٹزر انعام یافتہ ادیب کی کتاب ،جس کے سرنامے پر لکھا تھا’ایک خوفناک شاعرانہ کہانی‘ اورایک کتاب فرنچ شرابوں کے بارے میں تھی۔ گفتگو پرجوش تھی اور میں نے 12 لوگوں کی کہانیاں نہایت دلچسپی سے سنیں،یہ کہانیاں کتابوں کے مطالعے سے ان کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے تعلق سے ان کی یادوں پر مشتمل تھیں۔ان میں سے ایک کا کہنا تھا’’مطالعہ ہمیں ان تجربات واحساسات تک رسائی فراہم کرتا ہے، جوکسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتے‘‘۔
کچھ طلبہ کے لیے کسی ایک کتاب کا انتخاب مشکل تھا اور میں نے بھی محسوس کیا کہ انھیں کورس کے تقاضوں کی وسیع تر تشریح پر قادر ہونا چاہیے۔ یہ بات اگلے سیشن میں اور بھی واضح ہو گئی جب میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنی ایک پسندیدہ نظم کا انتخاب کریں، اسے پڑھیں اور گروپ کے دوسرے ارکان سے اس پر تبادلۂ خیال کریں۔ سب سے پہلے میں نے ہاورڈ نیمروف(Howard Nemerov) کی ایک نظم بلند آواز سے پڑھی، جس کاعنوان ہےBecause You Asked about the Line Between Prose and Poetry۔ پھر میں نے غیر مرتب انتخاب کا طریقہ استعمال کیا ؛تاکہ جوبھی چاہے، اپنی پسند کے بارے میں بات کر سکے۔ کچھ طلبہ نے اپنی شائع شدہ نظمیں دکھائیں،کچھ نے اپنی نظمیں پڑھ کر سنائیں اور آوازوں کے زیر و بم کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
غیر مرتب انتخاب کے خیال نے خوب کام کیا۔ ہر طالب علم کچھ نہ کچھ پڑھ رہا تھا اور ہر نظم پر تبادلہ خیال کیا جا رہا تھا، ایسا لگا کہ یہ سلسلہ میری کسی ہدایت یا مشورے کے بغیر بھی چلتا رہے گا۔ ایک طالب علم نے بیٹلز کے گانےIn My Life (1965) کے بول سنائے۔ ایک اور، جس کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ شایدوہ پر اعتماد نہیں ہے،اس نے رابرٹ فراسٹ(Robert Frost) کی نظم The Road Not Taken (1915) کا ایک ٹکڑا پڑھا، کسی نے وکٹر ہیوگو کے ناول Les Miserables (1862) کا اقتباس سنایا، جسے وہ کئی سال پہلے اپنے ایک دوست سے بھی شیئر کر چکا تھا، ایک اورطالب علم نے لیونارڈ کوہن (Leonard Cohen) کی نظم Nightingale (2004) کے اشعار اپنے رفیق کی یاد میں پڑھے۔تقریباً سبھی نے اس سیشن میں حصہ لیا، البتہ ایک طالبہ نے درخواست کی کہ اس کی طرف سے میں ایک نظم پڑھوں، جس کا آغاز کچھ یوں تھا کہ ’کیسی ہڈیوں پر میرا گھر بنایا گیا ہے…‘۔ میرا خیال ہے کہ یہ بہت ذاتی قسم کے تجربات پر مشتمل نظم تھی ۔اس سے قبل اپنے ایک تحریری بیان میں ،جو اس نے مجھے مطالعے کے دوران گروپ کے دوسرے ارکان کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے دیا تھا،لکھا تھا’مطالعہ ایک قسم کی تھراپی ہے اورمختصر عرصے کے لیے ہی سہی، زندگی اچھی لگنے لگتی ہے‘۔
میں نے شاعری کے سیشن کو ناقابل یقین حد تک اثر انگیز پایا ، پھر وقفے کا اعلان کردیااور اس دوران لوگوں کو کمرے میں گھومنے کا مشورہ دیا گیا، مجھے بھی اس کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ اس طرح کے اشتراک کو فعال کرنے کے لیے استاذ اور طالب علم کے درمیان اعتماد کی سطح میں مبالغے سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ ان کی پیشکشوں سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ببلیو تھراپی کا خیال لوگوں کی زندگیوں اور ان کی مستقبل کی ذہنی صحت کے لیے کتنا اہم ہو سکتا ہے۔
ببلیو تھراپی کس طرح ہماری ذہنی صحت کے مسائل کرسکتی ہے ،اس حوالے سے ذاتی تجربہ کرنے کے علاوہ میں نے اس پر یک کورس میں بھی شرکت کی ، جوWEA کے ذریعے کام کی جگہ پر تناؤ سے نمٹنے کے سیاق میں کروایا جاتا ہے۔ اس کورس کے دوران جب مجھ سے ان کتابوں کی فہرست طلب کی گئی، جو مفید ہو سکتی ہیں،تو میں نے کین کیسی(Ken Kesey) کی One Flew Over the Cuckoo’s Nest (1962) ،سلویا پلاتھ (Sylvia Plath)کی The Bell Jar (1963)اور مذکورہ بالا ناول Cure کی سفارش کی ۔
ناول Cure مختلف حالات کے لیے مختلف کتابیں تجویز کرتا ہے، جیسے کہ بے روزگاری، پریشانی، رائٹرز بلاک وغیرہ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی شدہ زندگی اور مسلسل سمجھوتے کے باوجود خود شناسی کے احساس کو برقرار رکھنے کی جدوجہدسے متعلق کتابوں کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔شادی شدہ لوگوں کے لیے اس کا تجویز کردہ علاج الزبتھ وون آرنم (Elizabeth von Arnim)کا ناول The Enchanted April (1922) ہے، جس میں ایسی دو خواتین کی کہانی بیان کی گئی ہے،جوصرف اس لیے اٹلی میں ایک گھر کرایے پر لینے کا فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں جس تعطل کا سامنا کر رہی ہیں اس سے نجات پا سکیں۔ ان کے ساتھ دو اور خواتین بھی آ جاتی ہیں جو غیر شادی شدہ ہیں اور پھر واقعات کا ایک دلچسپ سلسلہ چل نکلتا ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ ناول Cure کے آئیڈیاز میرے کورس کے چوتھے سیشن پر فوکس کرنے کے لیے مواد فراہم کر سکتے ہیں؛ لیکن جب میں نے کلاس کے طلبہ و طالبات کو کوئز دیا اور یہ پوچھا کہ بعض مخصوص جذباتی حالات کے لیے کون سی کتابیں موزوں ہوں گی، تو محسوس ہوا کہ اس کتاب کا آئیڈیا اتنا مقبول نہیں جتنا میں نے توقع کی تھی۔جس کی وجہ سے مجھے فائنل سیشن پر دوبارہ غور کرنا پڑا اور میں نے اس سیشن کو طالب علم مرکوز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، تو ایک طالب علم نے مشورہ دیا کہ ہر طالب علم اس حوالے سے چند جملے لکھے کہ مطالعے سے اس کی زندگی میں کیا فرق پڑتا ہے اور اگر وہ چاہے، تو کچھ مثالیں بھی پیش کرے۔ سب نے اس راے سے اتفاق کیا اور اگلے ہفتے انھوں نے اپنے لکھے ہوئے خیالات پڑھ کر سنائے اور ہم نے ان پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس آخری سیشن کی کچھ مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
ایک طالب علم نے لکھا’’اپنی ذاتی زندگی میں، میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے ایک بہت بڑا تحفہ ملا ہے،اب میں کسی بھی تکلیف دہ احساس سے چھٹکارا پانے اور کتابوں کی ہم نشینی میں رہنے کے قابل ہوں … یہ ایک سحر انگیز حقیقت ہے اور میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں‘‘۔
دوسرے نے لکھا ’’مجھے کتابوں میں سکون ملتا ہے، جیسے جیسے صفحات پلٹتے ہیں ،میں بھی ان میں مذکور کرداروں میں سے ایک بن جاتا ہوں… خاندان، دوست؛سب مہربان ہوتے ہیں ؛لیکن آج کی جدید اور بدلی ہوئی دنیا میں ہر شخص مصروف ہے… البتہ انسانوں کے اُس گروپ کا حصہ ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے،جو ثقافت اور شاعری کی کسی بھی شکل سے لطف اندوز ہوتا اور اس پر گفتگو کرتا ہے‘‘۔
طلبہ نے محسوس کیا کہ وہ کیا پڑھیں ،اس کا فیصلہ انھیں خود کرنا چاہیے ،بجاے اس کے کہ کوئی دوسرا انھیں بتائے کہ کیا پڑھنا چاہیے؟ اور اس پر مزید تبصرے ہوئے کہ ادب سے ان کی وابستگی کا نتیجہ کیسا رہا،مثلاًکسی نے کہا کہ ’یہ ایک دوسرے دماغ میں قدم رکھنے جیسا تھا‘۔ کسی کا خیال تھا کہ ’ادب آپ کو آپ کی ذات سے باہر نکال کر ایک مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے‘۔کسی کا کہنا تھا کہ ’وہ شخص جو کہیں کا نہیں رہتا،ادب اسے کہیں نہ کہیں کا بنا دیتا ہے‘۔
کورس ختم ہوا،اس کے بعد COVID-19 وبا آگئی ،جس کی وجہ سے یہ گروپ سال بھر سے زیادہ عرصے تک مل بیٹھنے سے قاصر رہا۔ ایک چھوٹی سی تعداد نے البتہ زوم پر اکٹھے ہونے کا فیصلہ کیا،جہاں ہم ہر ہفتے ایک منتخب ادیب کی نظمیں پڑھتے اور ان پر گفتگو کرتے۔ میں اس کا موازنہ ایک آن لائن بُک کلب سے کر سکتا ہوں، جس کا میں خود بھی ممبر ہوں، جسے UK کی تنظیم Carers First کے ذریعے چلایا جاتا ہے، جہاں شرکا پہلی بار اس لیے اکٹھا ہوئے تھےکہ وہ طویل مدتی بیماری میں مبتلا کسی شخص کی دیکھ بھال کے ذمے دار تھے۔
دونوں گروپ اُس افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے یکساں ضروری حرکیات سے لیس ہیں، جس کے ذریعے لوگ ناول یا نظم پر بات چیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جیسا کہ کیئرز فرسٹ کے ایک رکن نے لکھا’’ہم دو چیزوں کی وجہ سے اکٹھا ہوئے ہیں،ایک تو یہ کہ ہم دیکھ بھال کرنے والے ہیں اوردوسرے یہ کہ ایک دوسرے سے کتب بینی کا شوق شیئر کر تے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنی صحت کی دیکھ بھال کتنی اہم ہے اوریہ بھی کہ کتابیں آپ کو ایک بڑی دنیا کا حصہ محسوس کروانے میں مدد کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف النوع کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اوراچھی کتابوں کے بارے میں ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے ہیں‘‘۔
یہ باضابطہ ببلیو تھراپی کے بارے میں کوئی بیان نہیں ہے،البتہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ایک شخص اپنی زندگی کے کھٹے میٹھے تجربات و سانحات سے بہ سہولت گزرنے کے ایک وسیلے کے طور پر مطالعے کا انتخاب کرسکتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ،مطالعہ آپ کو آپ کی ذات سے باہر نکال کر ایک دوسری دنیا کی سیر کرواتا ہے ۔
مختصریہ کہ ببلیوتھراپی، مطالعے کے ذریعے ہمارے ذہنی انتشار و خستگی کو دور کرنے،حتی کہ اگر اسے کوئی عارضہ لاحق ہے،تو اس کی شفایابی کے طریقے دریافت کرنے میں بھی معاون ہوسکتا ہے۔ صحیح وقت پر صحیح کتاب تک رسائی اور اس کے مطالعے میں کامیاب ہوگئے ،تو یقیناً آپ بھی اس تجربے سے گزریں گے،جس سے میں اپنی زندگی میں گزرا ہوں۔ جب میں مشترکہ تعلیمی یا سماجی فریم ورک کا حصہ بنا، چاہے وہ کوئی تعلیمی کورس کی شکل میں ہو یا آن لائن بک کلب کی شکل میں،تو میں نے خود دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ ببلیو تھراپی لوگوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے بے پناہ مفید ہے۔
(مضمون نگار پیشے سے معلم ہیں،انھوں نے برطانیہ کے مختلف اسکولوں میں انگریزی اور سائنس پڑھائی ہے، اساتذہ کو تربیت دی ہے اور تعلیمِ بالغان کے اداروں میں ادب پڑھایا ہے۔ انھوں نے ایک کتاب ہونہار اور باصلاحیت بچوں پر اور دوسری جاسوسی فکشن پر لکھی ہے۔ آجکل وہ ذہنی صحت پر مطالعۂ کتب کے اثرات کے موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں۔ بکنگھم، انگلینڈ میں رہتے ہیں۔اصل مضمون کا لنک: https://psyche.co/ideas/reading-books-is-not-just-a-pleasure-it-helps-our-minds-to-heal)