سونالی بندرے مشہور بالی ووڈ اداکارہ ہیں، مگر ان کی ایک شناخت کتاب، مطالعے اور کہانیوں سے بھی وابستہ ہے۔ کتاب بینی کا والہانہ ذوق رکھتی ہیں ۔ ’سونالی بک کلب‘ ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم انھوں نے تشکیل دیا ہے، جہاں ادب،کتاب اور معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں اس کے کردار پر گفتگو کی جاتی ہے،ان کی شخصیت کا ایک دلچسپ اور سبق آموز پہلو یہ ہے کہ 2018میں جب وہ کینسر جیسے مہلک مرض سے لڑ رہی تھیں ،توماہر ڈاکٹرز ،ہمدرد عیادت کرنے والوں کے ساتھ کتابوں کی صحبت نے بھی انھیں بہت ہمت و حوصلہ بخشا اوروہ اس جان لیوا بیماری کو مات دینے میں کامیاب رہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ذاتی تجربات پر مشتمل ان کی کتاب The Modern Gurukul کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور اپریل2025 کے اواخر میں ان کی تازہ کتاب A Book of Books منظر عام پر آئی ہے، جسے مشہور پبلشنگ ہاؤس ہارپر کولنز نے شائع کیا ہے۔
دوسو سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل چہار رنگی ، آرٹ پیپر پر شائع شدہ یہ کتاب نہایت دلچسپ اسلوب میں کتاب کہانی بیان کرتی ہے اور ڈیجیٹل عہد میں مطالعے کی اہمیت اور قدر و قیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے مختلف طریقوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ مصنفہ کی زبان بھی بہت صاف ستھری ،شستہ و نستعلیق ہے اور انھوں نے چھوٹے چھوٹے فقروں/جملوں/ نکات کی شکل میں موضوع سے متعلق نہایت قیمتی مواد اس کتاب میں پیش کیاہے۔
کتاب کے کل آٹھ ابواب ہیں، پہلے باب میں اس سوال کے 13 جوابات دیے ہیں کہ انسان کو مطالعہ کیوں کرنا چاہیے؟ دوسرے باب میں ایسے چالیس طریقے اور عملی اصول بیان کیے گئے ہیں، جو ایک انسان کے اندر کتاب اور مطالعے سے محبت پیدا کرسکتے ہیں۔تیسرے باب میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ کتابوں کی وسیع و عریض کائنات میں متنوع انسانی حالات و کیفیات کی عکاسی کرنے والی ، یعنی خوشی،غم، اشتیاق، حسرت، تجسس، ہیجان، غصہ، جھنجھلاہٹ، بوریت، خمار، چڑچڑاپن، شرمندگی، کسل مندی، تردد و تشکک اور جھینپ میں سے ہر کیفیت کے مناسب آپ کو کتابیں مل جائیں گی، جو انسان کو حالتِ اعتدال میں رکھنے اور بے اعتدالی اور کسی بھی کیفیت کی انتہا پر پہنچنے سے محفوظ رکھنے میں معاون ہیں۔ مصنفہ نے ہر انسانی کیفیت کے لیے موزوں کتابوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ اسی باب میں انھوں نے ان لوگوں /بچوں کو کتاب، مطالعہ اور تعلیم و تعلم کی راہ پر لگانے کے لیے بہت عمدہ تدبیریں بتائی ہیں، جو کسی جسمانی یا ذہنی عارضے کے شکار ہیں اور ان کے لیے نارمل انسان کی طرح مطالعہ کرنا/پڑھنا مشکل ہے۔ چوتھے باب کا عنوان ہے Fifty shades of books جس میں اختصار کے ساتھ قدیم مصر،میسوپوٹامیا اور چین سے لے کر آج تک کتاب کی بدلتی شکلوں ،اسے لکھنے کے مختلف طریقوں اور کاغذ سے پہلے کن چیزوں پر تحریریں لکھی جاتی رہی ہیں،ان کی تفصیلات بیان کی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم محسوس اور مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اور کس کس طرح مطالعہ کرسکتے ہیں۔
پانچویں باب میں مصنفہ نےاس پہلو پر فوکس کیا ہے کہ اگر ہم نئی نسل کو مطالعے کی عادی اور کتاب دوست بنانا چاہتے ہیں، تو بچپن سے ہی اس پر توجہ دینی چاہیے۔اس حوالے سے انھوں نے بڑے کارآمد اور مفید نکات بیان کیے ہیں۔ چھٹے باب میں سونالی بندرے نے پندرہ ادبِ اطفال کی کتابوں کی ، سولہ ان کتابوں کی جو بچوں کے لیے ہیں،مگر انھیں بڑوں کو بھی پڑھنا چاہیے اور 17کلاسیکی ادبی کتابوں کی نشان دہی کی ہے، جنھیں ان کے خیال میں ہر شخص کو پڑھنا چاہیے۔انھوں نے اختصار کے ساتھ ان کتابوں کے مصنفین، مشمولات اوران کے زمانۂ تخلیق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
ساتواں باب مطالعے اور کتب بینی کا عمومی ماحول پیدا کرنے اور اس کے استحکام میں لائبریری کے کردار کو واضح کرتا ہے۔چاہے وہ تعلیمی ادارے کی لائبریری ہو ، پبلک لائبریری ہو یا شخصی لائبریری؛ ان سب کی انسان کو کتاب سے قریب کرنے اور کتاب کلچر کی تعمیر و تشکیل میں غیر معمولی اہمیت ہے۔مصنفہ نے اس باب میں لائبریری میں موجود کتابوں کے ذخائر کے علاوہ ان کے ذریعے اسٹوری ٹیلنگ، ریڈنگ پروگرام،بک کلب،مصنف سے ملاقات، مطالعاتی مسابقوں، ادبی پروگرام، کتاب میلوں، مختلف تعلیمی منصوبوں میں اسکولوں کے ساتھ شراکت وغیرہ جیسی پیش رفتوں کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ 1.4بلین آبادی والا ہندوستان اس وقت دوسری سب سے زیادہ انگلش اسپیکنگ اکانومی ہے اور مطبوعہ کتابوں کی تیسری سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں پانچ سے چوبیس سال کے بچے اور نوجوانوں کی تعداد 500ملین ہے اور اسکول جانے والی آبادی 265 ملین ہے، جس کی وجہ سے یہاں کتابوں کی مارکیٹنگ کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں اور معاشرتی بیداری اور ثقافتی شعور کو بیدار کرنے اور استحکام بخشنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اسی وجہ سے دنیا کے دوسرے ملکوں کے مانند ہمارے یہاں کتاب میلوں اور لٹریچر فیسٹیول کا قدیم سلسلہ ہے۔ این بی ٹی کے زیر اہتمام دہلی میں منعقد ہونے والا ورلڈبک فیئر ملک کا دوسرا سب سے قدیم بک فیئر ہے، جو1972 سے ہر سال منعقد ہوتا ہے، جبکہ دنیا کا سب سے قدیم کتاب میلہ’فرینکفرٹ بک فیئر‘ ہے،جس کا اہتمام 1454 سے مسلسل کیا جارہا ہے۔ یعنی جرمن سائنٹسٹ جوہانس گٹنبرگ کے ذریعے متحرک ٹائپ پرنٹنگ مشین کی ایجاد کے چند سال بعد سے ہی یہ کتاب میلہ منعقد ہورہا ہے۔ اسی طرح بچوں کی کتابوں کا سب سے قدیم میلہ اٹلی کے بولوگونا میں پچھلے ساٹھ سال سے منعقد ہورہا ہے،جس میں بچوں کے ادب سے وابستہ مصنفین و مترجمین کے علاوہ پبلشرز، گرافک ڈزائنرز، ادبی ایجنٹ، موبائل ڈیولپرز، آڈیو بک تیار کرنے والے، بک سیلرز، لائبریرینز اور اساتذہ وغیرہ پوری دنیا سے شرکت کرتے ہیں۔اس میلے کو اپنے حجم اور تنوع کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ قرار دیا جاتا ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں سونالی بندرے نے انسانی زندگی پر مطالعے کے اثرات اور اس کے انفرادی و اجتماعی معاملات میں اس کے عمل دخل کو نہایت اختصار ، مگر پر اثر انداز میں بیان کیا ہے۔ آخر میں وہ لکھتی ہیں’’پڑھنے کا عمل محض کاغذ پر بکھرے ہوئے الفاظ سے گزرنا نہیں ہے؛ بلکہ یہ انسانی تجربے کے حاصلات سے مکالمہ ، مصنفِ کتاب سے معانقہ اور زمان و مکان سے ماورا خیالات کا تبادلہ ہے۔ مطالعے کے دوران قارئین کا واسطہ ایسے کرداروں سے پڑتا ہے ،جن کا اپنا بیانیہ ہوتا ہے،مگر ساتھ ہی ان کرداروں میں انھیں اپنی جھلکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی وجہ سے کتابوں کی دکانیں اور لائبریریاں کتابوں کے شائقین کے لیے مقدس مقامات کے مانند ہوتی ہیں۔ اس کتاب کی خوشبو،جو ابھی کھولی نہیں گئی، ان صفحات کی خاموش سرگوشی ، جنھیں قاری پلٹتا ہے اور کتابوں سے لدی شیلفوں کا مسحور کن نظارہ اُن نادیدہ جہانوں کی سیر کرواتے ہیں، جو نہایت دل انگیز و پرکشش ہوتے ہیں۔ کسی نئی کتاب کا حصول محض لین دین کا معاملہ نہیں ؛ بلکہ ذہن کے نامعلوم علاقوں کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم اور مسرت بخش ساعتوں کی ضمانت ہے…..خلاصہ یہ ہے کہ مطالعہ ایک ایسی متحرک سرگرمی ہے ،جو نئے نئے بیانیے سے روبرو کرواتا ہے۔ یہ ایک ذاتی سفر ہے،جہاں ہر کتاب؛ بلکہ فی الحقیقت ہر صفحہ قاری کی روح پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے۔ بچپن کی حیرت انگیز معصومیت سے لے کر کبر سنی کی حکمت و دانائی تک، ایک قاری کا سفر کہانیوں کی لازوال طاقت کا ثبوت ہے، جو زندگی کے اس غیر معمولی سفر میں اس کی شخصیت کی تشکیل ، تحریک اور تعاون کا سرچشمہ ہے۔ ہر اس کتاب سے، جو آپ کے سونے کے کمرے اور مطالعے کے شیلفوں پر رکھی ہے اور رات کے وقت ای- ریڈرز اور آئی پیڈز میں جس کے حروف و نقوش جھلملاتے ہیں، پڑھنے کا جذبہ روشن ہوتا ہے، جو دراصل ہماری زندگی کے لیے مشعلِ راہ ہے‘‘۔