کتنی آسانی سے لوگ مسلمانوں کو کسان آندولن سے سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں! جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ہر معاملہ بہت حساس ہوتا ہے اور ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کے امکانات سے پر ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے احتجاج اور دھرنے کو کسان آندولن پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ مسلمانوں کو عار دلانے والوں اور سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرنے والوں کو قیاس مع الفارق کے مفہوم کو ذہن نشین رکھنی چاہیے ۔
دوسری بات یہ کہ پنجاب کے کسانوں پر جب خالصتانی کا الزام لگایا جانے لگا تو وہ فرنٹ سے ہٹ گئے اور زمام قیادت اترپردیش کے جاٹ لیڈر راکیش ٹکیٹ کو سونپ دیا۔
کسان آندولن کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چونکہ یہ آندولن عام کسانوں کا تھا نہ کہ سکھ کمیونٹی سے جڑا ہوا اس لیے اسے ناکام کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا احتجاج ظاہر ہے ایک مخصوص مذہبی کمیونٹی کا تھا ، گرچہ اس میں بعض غیر مسلموں کی بھی شرکت تھی، اس لیے اسے بدنام کرنا آسان تھا۔
کوئی بھی عوامی تحریک اگر صرف مسلمانوں کی ہوگی، تو اس کا انجام ناکامی ہے اس لیے کہ یہ لقمہ تر ہے، ہر کس و ناکس اسے پاکستانی ، جہادی، بنیاد پرست، شدت پسند، دیش دروہ ، جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے والے وغیرہ وغیرہ کہہ کر سبوتاژ کرنا آسان ہوتا ہے۔
مسئلہ گرچہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا ہوتا ہے پھر بھی خالص مسلمانوں کی تحریک کے ساتھ سول سوسائٹی کے بہت سے ارکان وابستہ نہیں ہوتے،شاید اس لیے کہ کہیں ان کو ٹرول نہ کیا جانے لگے،دیش دروہ کا ٹھپہ نہ لگا دیا جائے۔