Home تجزیہ کیجریوال کانرم ہندوتوا-ڈاکٹر عابد الرحمن

کیجریوال کانرم ہندوتوا-ڈاکٹر عابد الرحمن

by قندیل

مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کے نے نعرہ لاگایا’دیش کے غداروں کو۔۔گولی مارو سالوں کو‘لیکن جب لوگوں نے اپنے ووٹ کی گولی ماری تو معلوم ہوا وہ گولی بی جے پی کولگی۔ اوزیر داخلہ امت شاہ نے دلی کے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ای وی ایم کا بٹن اس زور سے دبائیں کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ کو لگے۔ لوگوں نے بٹن ایسا دبایا کہ کرنٹ خودامت شاہ کو لگا اور بی جے پی پر عام آدمی پارٹی کی جھاڑو پھر گئی۔ بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے ان انتخابات کو انڈیا پاکستان کا مقابلہ قرار دیتے ہوئے دراصل یہ کہا تھا کہ بی جے پی انڈیا ہے اور اس کے مخالفین پاکستان، لیکن لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ نہ صرف کپل مشرا کو دھول چٹائی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ صرف بی جے پی ہی انڈیا نہیں ہے بلکہ اس کی مخالفت کرنے والے بھی انڈیا ہیں شاہین باغ بھی انڈیا ہے اور وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ بھی انڈیا ہیں۔ بی جے پی نے دہلی انتخابات کی شروعات وہاں کی غیر قانونی کالونیوں کو قانونی بنانے کے اعلان سے کیا تھا لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے بی جے پی اپنی اوقات کی طرف گرتی گئی۔ وہ وکاس کو چھوڑ کر ہندو مسلم منافرت، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہندوؤں کے دشمن یا دیش کے غدار یا پاکستان کے حامی قرار دے کر دلی کے لوگوں کو ہندو مسلمان میں تقسیم کر نے کی اپنی روایتی گندی سیاست کی طرف آگئی۔ آخر میں مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے سب سے نچلے درجہ پر آتے ہوئے دلی کو’اسلامک اسٹیٹ‘بننے سے بچانے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں،لوگوں نے ان کے منھ پر زوردار طمانچہ جڑتے ہوئے بتادیا کہ وہ غلط سمجھتے ہیں ان کے مخالفین کو ووٹ دینے سے دلی اسلامک اسٹیٹ تو نہیں بنے گی لیکن وہ انہیں ووٹ دے کر اسلامک اسٹیٹ طرز کی ’ہندو اسٹیٹ‘ بھی نہیں چاہتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں نے بی جے پی کے ساتھ اس کی آئیڈیا لوجی کو بھی ٹھکرادیا؟ کیا اس انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ ہندوتوا بھی ہار گیا؟کیا نفرت کی سیاست کو شکست ہوئی؟کیا کیجریوال کی جیت ہندوتوا مخالف آئیڈیا لوجی کی جیت ہے؟کیا یہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عوام کا مینڈیٹ ہے؟ ہمیں نہیں لگتا، ہمارا خیال ہے کہ باوجود اس کے کہ بی جے پی نے یہ الیکشن سی اے اے کے اشو پر لڑا اور ہاری پھر بھی یہ سی اے اے کے خلاف عوام کا مینڈیٹ نہیں، بی جے پی کی آئیڈیالوجی کی ہار نہیں،ہندوتوا کا استرداد نہیں۔ اروند کیجریوال بی جے پی کے خلاف کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے وہ اپنے کام کو لے کر بی جے پی سے لڑے ان کی جیت ہندوتوا کے مقابلہ کام کی جیت ہے۔ بی جے پی نے ان کے گرد سی اے اے، شاہین باغ، دیش بھکتی اور ہندوتوا کا جال بنا تھا لیکن اروند کیجریوال بڑی چالاکی سے اس جال میں پھنسنے بچے رہے۔ اگر وہ بی جے پی کی کسی بات کا جواب دیتے،ہندوتوا کی مخالفت نہ بھی کرتے سیکولرازم کا دم ہی بھرلیتے، سی اے اے کے خلاف یا شاہین باغ کی حمایت میں ایک لفظ بھی بول دیتے تو بی جے پی کے جال میں بری طرح جکڑجاتے اور ان کا اپنا روایتی یا ترقی پسند ووٹ کھسک جاتا،لوگ انہیں مسلمانوں کے حمایتی سمجھ کر مسترد کردیتے۔ چلئے یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے بڑی چالاکی سے بی جے پی کی سیاسی بساط الٹ دی، وہ کوئی آئیڈیا لوجی لے کر نہیں اٹھے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن فرق اس سے پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ’کام کی سیاست‘ کو ہندوتوا کا تڑکا دیا۔ گو کہ یہ ہندوتوا بی جے پی کا سخت گیر ہندوتوا مسلم مخالف یا منافرت آمیز ہندوتوا نہیں، وہ نرم ہندوتوا بھی نہیں جو کانگریس اپناتی رہی لیکن ہندوتواہی کی ایک ہلکی قسم ضرور ہے جسے ’سرد ہندوتوا‘ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے اس ہندوتوا کے اظہار کے لئے پچھلے سال ہی دلی کے اسکولوں میں دیش بھکتی کا پاٹھ پڑھوانے کا اعلان کیا تھا۔ شاہین باغ کے معاملے میں انہوں نے کہاکہ وزیر داخلہ با اختیار ہونے کے باوجود شاہین باغ روڈ اس لئے خالی نہیں کروار ہے ہیں کہ الیکشن میں اس کا استعمال کیا جا سکے، یعنی انہوں نے امت شاہ کے سر ٹھیکرہ پھوڑا کہ انہوں نے پولس کے ذریعہ روڈ خالی کروانا چاہئے، یہی نہیں انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ’اگر دلی پولس ہمارے ماتحت ہوتی توہم نے دو گھنٹے میں وہ علاقہ خالی کروا دیا ہوتا‘ چہ معنی؟ یعنی بزور قوت خالی کروادیا ہوتا؟انہوں نے سی اے اے اور شاہین باغ پر کوئی اسٹینڈ نہیں لیا لیکن کچھ ایسے اشارے ضرور کئے کہ سمجھنے والے سمجھتے رہیں کہ ان کا اسٹینڈ کیا ہے؟ یعنی بین السطور یہ کہا کہ جس طرح بی جے پی کانگریس کو مسلمانوں کی منھ بھرائی کرنے والی پارٹی کہتی ہے وہ کانگریس کی طرح مسلمانوں کی منھ بھرائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ’ہندومخالف‘ ہونے کے بی جے پی کے الزام کے جواب میں جہاں انہوں نے ہندوؤں کی تیرتھ یاتراؤں کے لئے کئے گئے کام کا تذکرہ کیا وہیں اپنے آپ کو ہندو بھی ثابت کیا یہ کہہ کر کہ وہ ہنومان جی کے کٹر بھکت ہیں، روز ہنومان مندر جاتے ہیں اور انہیں ہنومان چالیسا یاد بھی ہے۔ اسی طرح ان کی بیٹی نے بھی کہا ہے کہ اس کے والد بچپن ہی سے انہیں بھگوت گیتا پڑھاتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے کسی کو کسی کے مذہبی ہونے سے کوئی پرابلم نہیں ہو سکتا ہے، اسی طرح سیاسی لیڈران کے مذہبی ہونے سے بھی کسی کو کوئی پرابلم نہیں ہونا چاہئے، لیکن سیاسی لیڈروں کے ذریعہ اپنے مذہبی ہونے کا عوامی اعلان دراصل اپنے آپ کو کچھ خاص لوگوں سے جوڑنا اور کچھ خاص لوگوں سے الگ کرنا ہے۔ کیجریوال جی نے اپنے آپ کو ہنومان بھکت کہہ کر صرف یہی نہیں کہا کہ وہ ہندو ہیں، ہندوؤں میں سے ہی ہیں بلکہ یہ کہا کہ وہ مسلمانوں سے الگ ہیں اور یہی دراصل ہندوتوا کی ابتدا ہے اروند کیجریوال نے اپنی ’کام کی سیاست‘ میں جس کا رنگ بھرا ہے۔ویسے اب بی جے پی نے پورے ملک میں ایسی مضبوط زہریلی فضا تیار کردی ہے کہ ہندوتوا کی مخالفت کر کے بی جے پی کو شکست دینا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیا ہے۔کام کی بنیاد پر جس نئی سیاست کی شروعات کیجریوال نے کی ہے اس میں ان کے’سرد ہندوتوا‘ کی آمیزش کے باوجود ان کی ستائش کی جانی چاہئے کہ ان کی اس چالاک سیاست کی وجہ سے بی جے پی اپنے ووٹ فیصداور چند سیٹوں میں اضافے کے باوجود وہ شاہین باغ سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہمارے ہی احتجاج کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کرسکی۔ بی جے پی کے سخت ہندتوا کے مقابلہ کیجریوال کانرم ہند توا قابل قبول ہو سکتا ہے یہاں تک کہ وہ کانگریس کی طرح اسے مسلمانوں کے خلاف استعمال نہ کریں۔ لیکن اس نئی سیاست پر غور کیا جانا چاہئے اور اسی کے مطابق اپنی سیاسی پالسی بھی طے کرنی چاہئے۔
[email protected]

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment