Home تجزیہ کجریوال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قائد کیوں نہیں ہو سکتے؟

کجریوال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قائد کیوں نہیں ہو سکتے؟

by قندیل

 

صفدر امام قادری
صدر شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
دلّی کے الیکشن میں جہاں ہر طبقے کے افرادنے کجریوال کو ووٹ دے کر تیسری بار وزیرِ اعلی کی کرسی پر بٹھایا، ٹھیک ایک ہفتے میں فرقہ وارانہ صورتِ حال میں ایسی ابتری آگئی ہے کہ اب آسانی سے اس سلسلے کو ختم ہوناخارج از امکان نظر آتا ہے۔ اقلیتی طبقے کے افراد فرقہ پرستوں کی زد پہ ہیں اور چار درجن سے زیادہ افراد جاں بہ حق ہو چکے ہیں۔ دلّی کی پولیس مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام ہے، اُس نے کھُلی چھوٹ دے کر فساد برپا کرنے والوں کو سہولت دے رکھی ہے مگر ایسے عالم میں دلّی کی حکومت کے سربراہ اروند کجریوال اور اُن کی پارٹی ہر طرح سے یہ سوالوں کے حصار میں ہے۔ کیا اس انتشار اور نفرت کے ماحول کو ایک تماش بین کی طرح سے یہ لوگ دیکھتے رہیں گے؟ اقلیت آبادی جس نے ننانوے فی صد ووٹ عام آدمی پارٹی کو دے کر اُسے فاتح بنانے میں سرگرم تھی، اب خود کو ٹھگا ہوامحسوس کر رہی ہے۔
دلّی کے انتخاب کے پہلے جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور پھر شاہین باغ کے احتجاج سے اروند کجریوال کی سوٗجھ بوٗجھ کے ساتھ خود اختیار کردہ دوٗری نے سیاسی مبصّرین کے ذہن میں چند سوالات ڈال رکھے تھے۔ آخر دلّی پولیس کا بہانہ بنا کر وزیرِ اعلا سماجی اور سیاسی مسئلوں سے خود کو الگ تھلگ کیسے رکھ سکتا ہے؟ وہ اگر پورے سماج کا نگہہ بان ہے تو اسے میدانِ کارزار میں اُترنا ہی پڑے گا۔ وہ ساحل سے رزم ِ خیر و شر کب تک دیکھتا رہے گا؟ مگر اُس دور میں عام آدمی پارٹی کے بہی خواہوں نے بتایا کہ کجریوال بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوئی اضافی فائدہ نہیں دینا چاہتے، اس لیے اقلیتی مسئلوں میں دور سے ہی کام کر رہے ہیں۔ ہر چند اصولی سیاست جس کا دعوا اروند کجریوال کو ہے،اس کا یہ شعار نہیں مگر انھوں نے ووٹ کی خاطر جامعہ ملّیہ اسلامیہ اور شاہین باغ احتجاج سے خود کو الگ رکھا اور اقلیت اور اکثریت دونوں طبقے کے افراد کے ووٹ لوٗٹنے میں کامیاب ہوئے۔
دلّی فسادات میں جس سیاسی چہرے کو سب سے زیادہ شہرت ملی، وہ عام آدمی پارٹی کے سابق رکنِ اسمبلی اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کپل مشرا ہیں۔ لوگ اسی سے دونوں پارٹیوں کے کردار و عمل کے اشتراک کی کہانیاں گڑھنے میں لگے ہیں۔کمار وشواس، شاذیہ علمی اور نہ جانے کتنے افراد ہیں جو اِن دونوں مورچوں پر حسبِ ضرورت فِٹ ہو جاتے رہے ہیں۔ ابھی درجنوں چہرے وقت آنے کے بعد اصلی شکل میں پہچانے جائیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے افراد تو کھُلے طور پر فرقہ پرستانہ سیاست کے کھیل تماشے کا حصہ ہیں مگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ انھی خیالات کا حامل ہے اور اسی طور پر سرگرمِ عمل ہے؛ اس کی شناخت ایک لازمی امر ہے۔
اروند کجریوال اور ان کی پارٹی کی سیاسی پیدایش اور مکمل تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ انّا ہزارے کی تحریک اب کہاں ہے اور خود انّا ہزارے ہندستان میں کون سا سیاسی کام انجام دے رہے ہیں؟ اروند کجریوال خود کو اسی تحریک سے پیدا شدہ قرار دیتے ہیں۔ کیا اس تحریک کا یہی ایجنڈا تھا کہ کانگریس کی جگہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدارمیں بٹھا دیا جائے۔ ہزاروں جھوٹ اورغلط اشتہارات کی بنیاد پر انّا ہزارے کی تحریک آگے بڑھی تھی اور جیسے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی حکمراں ہوئی، انّا ہزارے خاموش ہو گئے۔ کہاں گاندھی جیسے تیاگی لیڈر کہے جاتے تھے اور اب ان کے منھ پر تالا لگا ہوا ہے اور اُن کے تحریک کاربھارتیہ جنتا پارٹی میں اندر یا باہر سے تعاون کر رہے ہیں۔
اروند کجریوال کے ساتھ سب سے بڑی تعداد میں نوجوان لیڈروں کی وہ جماعت ہے جس کی پیدایش ‘Citizens for Equality’تحریک کے دوران ہوئی۔ یہ تحریک ہندستان میں کمزور طبقوں کے ریزرویشن کے خلاف مورچہ بندی میں سامنے آئی تھی۔ اُس زمانے کے احوال پر نظر رکھیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس حلقے کے افراد کو نہ ہندستان کے آئینی ارتقا کا پاس تھا اور نہ ہی غلامی سے آزاد ہوئی قوم کے درجہ بند ماحول سے نکال کر مساوات کے راستے پر لانے کے لیے جنگِ آزادی کے مجاہدین نے کون سے خواب دیکھے تھے، اس کا کچھ لحاظ تھا۔ بس چند نوجوانوں کو مشتعل کرکے سڑکوں پر اُتار دینا اُن کا مقصد تھا۔ عام آدمی پارٹی میں اس تحریک سے نکلے ہوئے افراد ہزاروں کی تعداد میں شامل ہیں۔
اس بار دلّی الیکشن کے اختتام کے فوراً بعد اروند کجریوال کا پہلا بیان آیا کہ اگر ان کے پاس پولیس ہوتی تو شاہین باغ کے احتجاج اور سڑک جام دو گھنٹے میں ختم کرا دیتے۔ انھوں نے عوامی احتجاج کے نفسِ مضمون پر ایک لفظ نہ کہا اور نہ ہی انھیں جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ اور ملک بھر کے بے چین عوام کے مسئلے یاد آئے۔ جس دن نتائج سامنے آئے، وہ ہنومان مندر کی طرف روانہ ہوئے اور حلف برداری کے ساتھ یہ بیان سامنے آیا کہ وہ مرکزی حکومت کے ساتھ مل جُل کر دلّی کی ترقی کا راستا صاف کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جس مرکزی حکومت سے دو دو ہاتھ کرکے آپ نے انتخاب جیتا ہے، اسی سے مل کر کس طرح آگے بڑھیں گے؟اروند کجریوال کے سیاسی نظریے میں کتنا لچیلا پن ہے اور وہ کس طرح ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک پہنچ سکتے ہیں، یہ اب دیکھنے کی چیز ہے۔
اروند کجریوال کی پانی، بجلی، صحت اور تعلیم کے تئیں خصوصی توجہ کی تو خوب خوب داد دی گئی اور دلّی ہی نہیں، پورے ملک میں اس کے لیے ان کی پذیرائی ہوئی۔مگر صرف انھی کاموں کے لیے حکومت نہیں بنائی جاتی۔ انگریزوں کی غلامی میں تعلیم، صحت اور مادّی ترقی کے دوسرے وسائل رفتہ رفتہ سامنے آنے لگے تھے۔ مگر ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر ہمارے آباواجدادنے یوں ہی غلامی سے نجات حاصل نہیں کی تھی۔ سیاسی قیادت صرف پانی، بجلی اور صحت نہیں۔ روتی، کپڑا اور مکان کا سیاسی نعرہ چار دہائی پہلے لگا تھا۔ آج ملک میں عوام کو اس سے آگے بہت کچھ چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آزادی کی حصولیابیوں کے چھیننے والی قوّتوں سے لڑائی سب سے پہلے ہو۔
اروند کجریوال سماجی انصاف اور سماجی ہم آہنگی کے لیے جنگ کی قیادت نہیں کرسکتے۔ وہ یوں بھی کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور سابق نوکرشاہ ہیں۔ ایک طرف فائدے سے رغبت اور دوسری جانب اعلا عہدے دار کی تابع داری۔ بھلے وہ تیسری بار وزیرِ اعلا بنے ہوں مگر ان کے ذہن سے یہ آرکی ٹائپ ابھی بھی زائل نہ ہوا۔ اسے بعض لوگ سنسکار بھی کہتے ہیں۔ انھیں کمزور طبقے، محروم جماعتوں اور اقلیت آبادی کے حقوق اور ان کے سلسلیسے حساس ذہن سے کام کرنے کی توفیق نہیں۔ اس لیے اب آیندہ پانچ برس کی مشکلات کو سمجھنا پڑے گا۔
انّا ہزارے سے لے کر بابا رام دیو تک اروند کجریوال کے متعدد ساتھیوں کو ہندستانی عوام نے اچھی طرح سے دیکھ لیا ہے۔ یہ سب لوگ فرقہ ورانہ خیر سگالی اور قومی اتحاد کے علم بردار نہیں ہوسکتے۔یہ اکثریتی آبادی کے نمایندہ بن کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو کبھی باہر سے اور کبھی اندر سے تعاون کرنے کے کھلاڑی ہیں۔ یوں بھی ووٹ کی تعداد سیاست میں اقلیت، پس ماندہ طبقات اور محروم جماعتوں کا محافظ کوئی نہیں ہوتا۔ دلّی کی تعلیم یافتہ آبادی میں بھی کہاں کوئی عوامی انقلاب سامنے آ رہا ہے؟ عوام اور خاص طو ر سے کمزور اقلیت آبادی پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور باقی دوسرے افراد تماش بین ہیں۔
ملک کی تقسیم کے وقت فسادزدہ علاقوں میں کانگریس کے کارکنوں کے ذریعہ سرد مہری دکھانے پر گاندھی بہت ناراض ہوئے تھے۔ رام منوہر لوہیا کو خط لکھ کر جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی حفاظت کے لیے کلکتے سے بلایا تھا۔ مصیبت کی اُس گھڑی میں سیاست دانوں کو گاؤں اورمحلّوں میں پھیل جانے کو فسادات کو روکنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کا نسخہ بتایاتھا۔ اسی لیے فرقہ پرستوں نے اُن کی جان لی تھی۔ اروند کجریوال اور ان کے عوامی نمایندے اگر دلّی کے فساد زدہ علاقوں میں سڑکوں پر آجائیں تو نہ صرف یہ کہ فسادات رُک سکتے ہیں بلکہ یہ بات یقین تک پہنچ سکتی تھی کہ وہ ووٹ کے بدلے اپنے عوام کی جان اور مال کی حفاظت کرنے کا وعدہ بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اروند کجریوال کے لیے یہ موقع تاریخ میں عظمت پانے کا ہے یا اُس کے سیاہ ابواب میں اضافہ کرنے کا؛ اب اسی کا انتظار ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment