Home تجزیہ کیجریوال! بڑا مایوس کیا آپ نے-شکیل رشید

کیجریوال! بڑا مایوس کیا آپ نے-شکیل رشید

by قندیل

وزیر اعظم نریندر مودی سے تو اُمید تھی ہی نہیں
ایک آپ ہی سے اُمید تھی لیکن اروند کیجریوال جی ! آپ نے بڑا مایوس کیا ۔جب دہلی اسمبلی الیکشن کی تاریخی جیت کے بعد ، جسے ہم سب بی جے پی اور بھگوا ٹولے کی ذلیل ترین شکست قرار دیتے ہیں ، آپ اپنے ماتھے پر بڑا سا ٹیکہ لگا کر نمودار ہوئے ، یا جب آپ نے ’ہنومان چالیسا‘ کا پاٹھ کیا اور ہنومان مندر گئے ، تب ہم سب نے اسے آپ کا دھارمک معاملہ قرار دیا۔ اب اس ملک میں جسے جمہوری اور سیکولر کہا جاتا ہے اور جہاں کا آئین سب کو اپنے اپنے مذاہب پر چلنے کی آزادی دیتا ہے اگر آپ نے پوجا پاٹھ کرلی تو کوئی گناہ تو نہیں کیا ۔ ہاں ، دِل میں ایک شک سا ضرور اُٹھا کہ بھلا اروند کیجریوال جیسا شخص جس نے اب سے پہلے کبھی بھی یوں کھلم کھلااپنے دھرم کا اظہار نہیں کیا تھا بھلا کیوں خود کو اس قدر دھارمک ’جتلانے ‘ میں لگا ہوا ہے ! لیکن اس شک کو بھی ہم سب نے ذہنوں سے جھٹک دیا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ آدمی زیادہ سے زیادہ مذہبی ہوتا جاتا ہے (بہتوں کے ساتھ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے ) ممکن ہے کیجریوال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ حالانکہ آئین کی بات کرنے اور’نئی طرح کی سیاست کی شروعات‘ کا اعلان کرنے والے کیجریوال اس حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کسی عوامی پلیٹ فارم سے مذہب کا پرچار نہیں کیا جاتا ۔سرکار ی افسران ، عہدیداران ،وزرائے اعلیٰ ،وزراءاور وزیر اعظم و صدر جمہوریہ ہند تک کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی تو ہے ، لیکن سرکاری تقریبات میں مذہب کے استعمال کی یا سیاسی اجتماعات میں مذہب کے دکھاوے کی آزادی نہیں ہے ۔ جو بھی یہ کرتا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پھر بھی سوچا کہ شاید آپ یہ سب بی جے پی کو چڑھانے ، جلانے کیلئے کررہے ہیں ۔ بی جے پی والوں کے ذہنوں میں یہ حقیقت ٹھونسنے کیلئے یہ سب کررہے ہیں کہ دھارمک ہوتے ہوئے بھی سیکولر ہوا جاسکتا ہے ۔ لیکن دہلی فسادات کے دوران آپ اور آپ کی سیاسی جماعت ’آپ‘ کے لیڈروں اورو دھائکوں کے روّیے نے ’شک‘ کوزائل ہونے نہیں دیا۔
کیجریوال جی! دلّی والوں نے آپ کو کتنے پیار اور کس محبت سے ووٹ دیا تھا! انہوں نے بی جے پی ، آر ایس ایس اور مودی و شاہ ، انوراگ ٹھاکر ،کپل مشرا ، پرویش ورما ان سب کی نفرتوں کو اپنے پر حاوی ہونے نہیں دیا اور نہ ہی ان کی دھمکیوں سے ڈر محسوس کیا ، باہر نکلنے، قطار میں لگے اور ’آپ‘ کی جھولی میں ووٹ ڈال دیئے ۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ جب دہلی جل رہی تھی اور آپ کو ووٹ دینے والے ’مدد مدد ‘ کی گہار لگا رہے تھے ، جب مار کھاتے ، لٹتے ، پٹتے لوگ آپ کی طرف اُمید کی نظر لگائے تھے ، تب آپ نے اپنی نظریں پھیر لیں ! ان پر جوامن و امان کے مطالبے کیلئے آپ کے مکان پر پہنچے پولس کی لاٹھیاں چلیں ۔ دہلی جلتی رہی اور آپ امیت شاہ سے ملاقات کرکے یاتو ان کی تعریف کرتے رہے یا فوج بلانے کا مطالبہ ۔ افسوس ہے کیجریوال جی ! دہلی نے آپ کو محبت دی اور آپ نے دہلی کو جلوا دیا۔ آپ کے اراکین اسمبلی کو جب مدد کیلئے پکارا گیا تو ان کا جواب تھا ’پولس کا محکمہ ہمارے پاس نہیں ہے ‘ ’ ہم اس میں دخل نہیں دے سکتے‘ ’یہ علاقہ ہماری اسمبلی کی حد میں نہیں آتا‘ ۔یا پھر کچھ کہنا نہ ہوتا تو فون ہی نہیں اُٹھاتے تھے ۔کیا اسی لیے دہلی والوں نے اور خود شہر دہلی نے آپ کو منتخب کیا تھا! ہم سب آپ کے چاہنے والے تھے ،آپ ’بھکت‘ بھی کہہ سکتے ہیں ، اسی لیے جب آپ پر تنقید یا نکتہ چینی ہوتی تھی تب عقل کو کہیں دور رکھ کر آپ کا دفاع کرتے تھے ۔ اب یہ آپ کی ’چاہ ‘ دل سے نکل سی گئی ہے ۔ یقیناً اب آپ خوب کام کریں گے ، آپ نے موت ، تباہی ، بربادی ،یتیمی اور معذوروں کے ’ریٹ ‘ طئے کردیئے ہیں ، ۲۰؍ ہزار سے لے کر دس لاکھ روپئے تک کا معاوضہ ممکن ہے کہ بربادوں کے چہروں پر کچھ مسکان لے آئے لیکن وہ شہر دہلی جس سے آپ نے بار بار ’محبت‘ کا اظہار کیا ہے وہ تو اب بدل ہی گیا ہے۔ اور یہ تبدیلی وہ عناصر چاہتے تھے جن کے خلاف آپ کھڑے تھے اور لوگوں نے آپ کو ووٹ دیا تھا۔ وہ تو کامیاب ہوگئے، نفرت جیت گئی ،آپ ہارگئے ۔ یہ لچر جواب کہ’میرے پاس پولس نہیں ہے ‘آپ کے اوپر لگے داغ کو دھو نہیں سکتا۔ الزام سخت ہے کہ آپ اندر سے ’سنگھی‘ ہیں ۔ کاش یہ الزام ’غلط ہو‘۔ ٹھاکر سنجے سنگھ آپ کے راجیہ سبھا کے رُکن کا ایک آڈیو وائرل ہوا ہے ، وہ ایک مسلم رکن اسمبلی کو ڈانٹ رہے ہیں ، ان کی کچھ باتیں سن کر از حد تکلیف ہوئی ،وہ تو سیکولر تھے-اللہ کرے وہ سیکولر ہی رہیں ۔ کیجریوال آپ سے مایوسی نہ ہوتی اگر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہتے جلتی ، لٹتی ، پِٹتی دہلی کی سڑکوں پر اُتر آتے ، جیسے مہاتما گاندھی اُترآیا کرتے تھے ، اور پھر آپ دیکھتے کہ شہر دہلی جلنے سے بچ جاتا ۔ پر آپ کیا اب تو یہاں کوئی بھی مہاتما گاندھی نہیں ۔ سب گوڈسے واد ی ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment