Home تجزیہ کدھر جا رہا ہے عدلیہ کا قافلہ؟- سہیل انجم

کدھر جا رہا ہے عدلیہ کا قافلہ؟- سہیل انجم

by قندیل

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو ایک صاف، غیر جانبدار اور کھرے آدمی ہیں۔ وہ عدالتی امور پر بھی کھل کر گفتگو کرتے ہیں اور سیاسی امور پر بھی۔ وہ ایک سیکولر مزاج انسان ہیں۔ سنگھ پریوار اور اس کے نظریات کے مخالف ہیں۔ اس کے خلاف اکثر و بیشتر بولتے رہتے ہیں۔ وہ اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں جن میں اپنی باتیں کھل کر رکھتے ہیں۔ انھیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی باتوں سے کسی کی پیشانی شکن آلود ہو جائے گی۔ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے گھر جا کر گنیش کی پوجا کرنے کی ویڈیو عام ہوئی ہے لوگ اپنے اپنے انداز میں اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ لیکن جسٹس کاٹجو نے جس بیباکی سے اپنی رائے دی ہے ویسی کسی نے نہیں دی۔ انھوں نے ایک یو ٹیوب پروگرام میں سینئر صحافی نیلو ویاس کو انٹرویو دیتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ چونکانے والی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب دو ماہ کے اندر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ اب ان کو کوئی بڑا عہدہ چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے وزیر اعظم کو اپنے گھر بلایا اور پوجا میں شامل کرایا۔ کاٹجو نے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایودھیا تنازعے کا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے لیے دے دی جس کا انھیں انعام ملا۔ جسٹس چندر چوڑ بھی ایودھیا کیس کا فیصلہ سنانے والوں میں شامل رہے ہیں۔ بلکہ ان کا یہاں تک کہنا ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ فیصلہ انھوں نے ہی لکھا تھا تاہم وہ اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ ان کے بقول جسٹس چندر چوڑ چیف جسٹس بننے والے تھے۔ انھوں نے ایودھیا معاملے میں اس لیے اختلافی نوٹ نہیں لگایا کہ انھیں ڈر تھا کہ ان کی جگہ پر کسی اور کو نہ چیف جسٹس بنا دیا جائے۔ انھوں نے ججوں کے مختلف پرگرواموں اور تقریبات میں شرکت اور خطاب کی بھی مخالفت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس ان پروگراموں میں جمہوریت اور سیکولرزم کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں اور لوگ خوش ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کرتے ہیں۔ لیکن کاٹجو جج حضرات کے عوامی پروگراموں میں شرکت کے مخالف ہیں۔ ان کے بقول جب کوئی شخص جج ہو جائے تو اسے عوام سے دور رہنا چاہیے۔ اور سیاست دانوں سے تو بالکل ہی دور رہنا چاہیے۔ اگر وہ لوگوں سے اور خاص طور پر سیاست دانوں سے ملے گا تو اس پر سے عوام کا اعتبار اٹھ جائے گا۔ اس کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے گی۔ انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ ساڑھے پانچ سال تک سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔ نئی دہلی کے اکبر روڈ پر ان کی رہائش گاہ تھی۔ اس مدت میں وہ ایک بار بھی کناٹ پلیس نہیں گئے جبکہ وہاں سے وہ بمشکل تین میل کے فاصلے پر ہے۔

بہرحال ہم ان کی باتوں کی نہ تو تائید کر سکتے ہیں اور نہ ہی تردید۔ کیونکہ ہمیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ مارکنڈے کاٹجو سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، اس کے کام کاج کے طریقوںسے واقف ہیں اور ججوں کے بارے میں بہتر معلومات رکھتے ہیں اس لیے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے عدلیہ کے بارے میں اور بھی بہت سی باتیں کہی ہیں جن کو ہم درج نہیں کر سکتے کہ کہیں توہین عدالت کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ البتہ اس کا ذکر تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ جسٹس چندرچوڑ کے گھر وزیر اعظم کے جانے پر ماہرین قانون نے سخت اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے عوام میں ایک غلط پیغام گیا ہے اور عدالت کا وقار داغدار ہوا ہے۔ ان کے مطابق عاملہ اور عدلیہ کے اختیارات الگ الگ ہیں جن کو ایک دوسرے میں مدغم نہیں کیا جا سکتا۔ ججوں کا سیاست دانوں سے ملنا جلنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے عدلیہ کی غیر جانبداری مشکوک ہو جاتی ہے۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے مطابق چیف جسٹس کے گھر ایک نجی تقریب میں وزیر اعظم کی شرکت سے عدلیہ کی آزادی اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکومت کی جواب دہی کو یقینی بنانے کے بارے میں پریشان کن پیغام جاتا ہے۔ معروف قانون داں اندرا جے سنگھ کے خیال میں چیف جسٹس نے عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ اختیارات سے سمجھوتہ کر لیا۔ بعض سابق ججوں نے بھی اعتراض کیا ہے۔ تاہم ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کا جسٹس چندرچوڑ کے فیصلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بہرحال اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اب جج حضرات کے اندر سبکدوشی کے بعد کسی بڑے سرکاری منصب کے حصول کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے۔ جسٹس عبد النذیر ایودھیا معاملے میں فیصلہ سنانے والے ججوں میں شامل رہے ہیں۔ اگر گو گوئی کو راجیہ سبھا کی سیٹ ملی تو انھیں آندھرا پردیش کی گورنری مل گئی۔ اسی طرح جسٹس ارون پرکاش نے ایسے کئی فیصلے سنائے تھے جو حکومت کے حق میں جاتے تھے۔ سبکدوشی کے بعد انھیں قومی انسانی حقوق کمیشن کا چیئرپرسن بنا دیا گیا۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کر دی گئی۔ ماضی میں جھانکیں تو اور بھی ایسی مثالیں ملیں گی کہ جج حضرات کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرکشش مواقع تفویض کیے گئے۔

ویسے عدلیہ میں بھی اب آر ایس ایس اور بی جے پی نظریات کے لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جب کوئی جج کسی تنظیم، جماعت یا پارٹی کے نظریات کا حامی ہوگا تو اس کے فیصلے مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے کلکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے کے متعدد فیصلوں پر انگشت نمائی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اسی سال مارچ میں اپنے عہدے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اس سے پہلے ہی انھوں نے بی جے پی سے اپنی وابستگی کا اعلان کر دیا تھا۔ ریٹائر ہونے کے چند روز کے بعد وہ نہ صرف بی جے پی میں شامل ہو گئے بلکہ ان کو لوک سبھا کا ٹکٹ بھی دیا گیا اور وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ انھوں نے ممتا حکومت کے خلاف کئی فیصلے سنائے تھے۔ جب کسی جج کے کسی ایک فیصلے پر جانبداری کا الزام لگ جائے تو پھر اس کے تمام فیصلے مشکوک ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کے فیصلوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کلکتہ ہائی کورٹ کے ایک اور جج جسٹس چتا رنجن داس نے اسی سال مئی میں اپنے ریٹائرمن کے فوراً بعد کہا کہ وہ بچپن سے ہی آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں اور اب پھر اسی میں چلے جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آر ایس ایس نے ان کی شخصیت کی تشکیل کی اور ان کے اندر جرا ¿ت پیدا کی۔ آر ایس ایس کے نظریات کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص بچپن سے کسی سخت گیر نظریاتی تنظیم سے وابستہ رہا ہو اور جب وہ جج بن جائے تو مخصوص نظریات اس کے ذہن و دماغ کو متاثر نہ کریں۔ ایک اور مثال مدھیہ پردیش کے سابق جج جسٹس روہت آریہ کی ہے۔ وہ اسی سال اپریل میں ریٹائر ہوئے اور جولائی میں بی جے میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے کئی متنازع فیصلے سنائے ہیں جن میں ایک فیصلہ کامیڈین منور فاروقی کے خلاف بھی تھا۔ منور فاروقی پر ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کی توہین کا الزام تھا۔ حالانکہ انھوں نے اس کی تردید کی تھی۔ جسٹس آریہ نے منور فاروقی کے وکلا کے خلاف بھی ریمارکس دیے تھے اور منور کے بارے میں کہا تھا کہ ایسے لوگوں کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔ اسی تسلسل میں گزشتہ دنوں وشو ہندو پریشد کی جانب سے عدلیہ سے وابستہ شخصیات کے ساتھ نئی دہلی میں ہونے والی ایک بڑی میٹنگ کا ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں تقریباً تیس سابق ججوں نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں متعدد مساجد کے سلسلے میں قانون کی روشنی میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ میٹنگ میں اس بات کا اظہار کیا گیا کہ جن مسجدوں پر مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اب ان کے خلاف عوامی تحریک چلانے کے بجائے عدالتی راستے سے ان کو حاصل کیا جائے گا۔ اس میٹنگ میں سابق ججوں کی شرکت پر بھی زبردست اعتراض کیا گیا لیکن بعض ججوں نے اپنی شرکت کا دفاع کیا۔ ان تفصیلات کی روشنی میں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدلیہ کا قافلہ کس جانب رواں دواں ہے اور آگے کیا کچھ ہونے والا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like