ہم اپنے علیگ بھائیوں کو دیکھ کر بڑے ہوئے۔ ترانہ علی گڑھ کے کیسٹ سن کر جھومتے ہوئے وجیہ چچا اور طہیر چچا کو دیکھتا کہ وہ کیسے ترانہ کے اخیر میں تالیاں بجاتے اور فخر کرتے کہ وہ علیگ ہیں ۔ صباح الدین بھائی اور منہاج بھائی کی باتیں متاثر کرتیں ۔ دیگر علیگ بھائیوں کی لن ترا نیاں کبھی کبھی جھوٹ سے بہت قریب نظر اتیں مگر ان کے لب ولہجہ کی حلاوت مرعوب کرنے والی ہوتی تھیں ۔ان دنوں میرے گائوں میں تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہوا کرتا تھا۔ میٹرک کے بعد بیشتر طلبا علی گڑھ کے لیے کوچ کر جاتے اور عید و بقرعید یا محرم میں خراماں خراماں سب لوگ کی گھرواپسی ہوتی ۔ جب وہ جاتے تھےتو پائجامہ والے ہوتے تھے اور جب آتے تھے تو شیروانی والے ہو جاتے تھے۔ ہم لوگ انہیں دیکھ کر بہت متاثر ہو تے تھے اور ان سے کہانیاں اور قصے سننے کے لیے انہیں گھیر لیا کرتے تھے۔ ان کی زبان میں روانی آجاتی تھی اور اردو کے الفاظ ان کی گفتگو کا حصہ ہوتے تھے۔ روٹیاں ، بوٹیاں ، جدوجہد ، کشمکش ، تذبذب، سلسلہ وار ، مثلاً، بالترتیب ، جیسے الفاظ سن کر ہمیں اپنےخالص دیہاتی ہونے کا شدت سے احساس ہونے لگتا تھا۔ ان لوگوں کی سرگرمیاں کافی علمی ومعلوماتی ہواکرتی تھیں اور وہ گائوں میں ایک تعلیمی تہذیب کا ماحول بنانے کی جستجو کرتے تھے، جس میں تعلیم اور مسلم کمیونٹی کی ںیداری کا موضوع سب سے اہم ہوتا تھا۔ انہیں سب لوگوں میں ایک ولی صاحب بھی تھے،اور اقبال نالاں بھی ان کی اردو دانی کے سب قائل ہوگئے تھے ۔ لائبریری کی اہمیت پر ان کی گفتگو میں ایک دن میں نے ان سے کسی کا شعر سنا جو کچھ یوں تھا ۔
ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا
مریں گے ہم کتابوں میں ورق ہوگا کفن اپنا
یہ شعر انہوں نے کتابوں کی اہمیت و افادیت پر اپنے پرمغز تقریرمیں چسپاں کیا تھا۔ آج اس شعر کی یاد کچھ یوں آئی کہ جب عالمی کتاب میلہ میں چہل قدمی یا یوں کہیں کہ مٹر گشتی کرتے ہوئے قارئین کی طویل قطار سے نبر دآزما ہونا پڑا۔ عالمی کتاب میلہ ہندوستان کا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے ، اس میلہ میں دنیا بھر کے پبلیشرز شرکت کرتے ہیں اور قارئین کواپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کتابیں حاصل کرنے میں آسانیاں ہوتی ہیں۔بچوں کی کتابیں اور نئی تکنالوجی سے مزین ای بکس وغیرہ بچوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کو بھی اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ اہم ایشوز پر مکالمے ، مناظرےاور سمینار اور ثقافتی پروگراموں کا بھی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ موضوعات چونکہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اس کے سننے والے اس بات کا احساس لے کر وہاں سے اٹھتے ہیں کہ آج انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ چونکہ کووڈ کی وجہ سے یہ میلہ گزشتہ سال منعقد نہیں ہو سکا تھا، اس لیے اس مرتبہ قارئین نے اس میلہ کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کا افتتاح وزیر تعلیم کو کرنا تھا ، لیکن کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اتنے مصروف تھے کہ تعلیمی ماحول کو اپنا وقت نہیں دے سکے۔ دراصل تعلیم جب کسی کی ترجیح ہی نہ ہو تو پھر انہیں قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے۔ خیر سیاست کی بات اہل سیاست جانیں ، باقی پڑھنے پڑھانے والے لوگ تو بس وہی جانتے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔
جہاں ہم سب اس مایوسی میں مبتلا ہیں کہ اب نئی نسل میں ذوق مطالعہ کا فقدان ہے وہیں یہ کتاب میلہ امید کی وہ شمع روشن کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ نہیں! اب بھی قارئین موجود ہیں جو کتابوں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کا اہم جزو تسلیم کرتے ہیں۔نئی ٹکنالوجی کے ذریعہ وہاٹس ایپ یونیورسٹی کی تعمیر نے طلبا کو اصل جانکاریوں سے محروم رکھنے کے لیے اپنی قوت سرف کر دی ہے ،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن جب طلبا رانا پرتاپ سے اکبر کو ہارتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خلجی کو میدان جنگ چھوڑتے ہوئے پڑھتے ہیں تو انہیں حیرانی ضرور ہوتی ہے اور تب انہیں کتابوں کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے، کیونکہ جو لوگ تاریخ کو مسخ کر کے اپنی سیاست کر رہے ہیں ، انہیں اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ طلبا مقابلہ جاتی امتحانات میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ناکام ہوجائیں ان کی بلا سے۔ اسی لیے یہ کتابیں ہی ہیں جو انہیں اصل معلومات سے آگاہ کرتی ہیں، لیکن جب کتابیں ہی غلط اطلاعات فراہم کرنے لگیں تو۔۔۔۔۔
کتاب میلہ میں ایک اسٹال پر نظر پڑی۔ نئی ہندی پبلیکیشن۔یہ کیا ہے بھائی!سوچتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تو بیشتر کتابیں اردو مواد وزبان سے بھری ہوئی تھیں اور دیوناگری اسکرپٹ میں لکھی ہوئی تھیں۔ گویا مواد اردو کا، زبان اردو کی اور رسم الخط دیوناگری کا۔ بس یہ ہوگئی نئی ہندی۔غور کیا تو احساس ہوا کہ ادب یا ساہتیہ میں جتنا مواد اردو میں موجود ہے وہ کہیں نہیں ہے، مطلب ہر طرح کی کہانیاں اور غزلیں و نظمیں، اردو نے تمام موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے، مگر اردو رسم الخط کو سکھانے اور بتانے میں ہم اردو والے ناکام ہوگئے۔ قومی کونسل برائےفروغ اردوزبان نے بھی فروغ زبان سے زیادہ فروغ ادب پر دھیان مرکوز کیا۔ ریختہ کی مقبولیت بھی اس لیے مستحکم ہو گئی کہ اس نے بھی اردو مواد کو دیو ناگری میں منتقل کر دیا۔چونکہ پرائمری سطح سے ہی اردو درس نظام کوکمزور کر دیا گیا، اور اہل اردو اس بنیا د کو بھی قائم رکھنے میں ناکام ہوئے اس لیے اب اردوکو مجبوراً اپنا چہرہ بدلنا پڑ رہا ہے اور وہ دیوناگری کی گود میں کھیل رہی ہے۔ اردو نہیں مر رہی ہے بلکہ اردو رسم الخط مر رہا ہے۔
بات اردو کی ہو رہی ہے تو کتاب میلہ میں اردو کے اسٹال بھی اردو والوں کی ضروریات پوری کر تے نظر آرہے ہیں ۔ چونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی رنجشیں اتنی زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ ثقافتی و ادبی مراسم پراس کا اثر پڑنا لازم ہے۔ اسی لیے اس کتاب میلہ میں پاکستان کے کسی پبلیشر کا نظر نہ آناحیرت ا نگیز نہیں ہے ، مگر اردو کے طلبا کو اس کا نقصان اس طرح اٹھانا پڑ رہا ہے کہ وہاں کی کچھ کتابیں بے حد کارآمد ہوتی ہیں اور اس سے استفادہ لازمی ہوتا ہے۔ اردو کے کچھ ہی پبلیشرز نظر ائے۔ اتر پردیش اردو اکادمی اور این سی پی یو ایک کے اسٹال پر کچھ کار آمد کتابیں نظر آئیں کچھ کتابیں خریدنی پڑیں کچھ کتابیں الٹ پلٹ کر چھوڑنی پڑیں ۔ عائشہ نے پوچھ لیا کہ پاپا اردو میں صرف اردو ہی کی کتابیں ملتی ہیں کیا؟ سائنس اور سوشل سائنس اور جیوگرافی جنرل نالج کی کتابیں نہیں ملتیں۔ ہندی اور انگریزی میں تو خوب مل رہی ہیں۔ میں نے اس کی تشویش کو صرف یہ کہہ کردور کرپایا کہ بیٹا اردو میں اب اردو کی بھی ڈھنگ کی کتابیں نہیں ملتیں۔ زونا پینٹنگ کے میریٹیل کی تلاش میں سرگرداں رہیں اور میری جیب کاٹتی رہیں۔ پڑھائی کے لیے تو پیٹ بھی کاٹنے پڑیں تو فکر نہیں جیب کی کیا اوقات!
نیشنل بک ٹرسٹ کے اسٹال پر سب سے زیادہ بھیڑ دیکھنے کو ملی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ این بی ٹی ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں میں کتابیں شائع کرتا ہے اور اس کے موضوعات کثیرالجہت ہوتے ہیں۔
سیاست کا اثر تعلیمی شعبہ کو بھی اپنی گرفت میں لے چکا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کوئی بھی پروگرام سنسکرت شلوکوں سے ہونا اب عام سی بات ہو گئی ہے۔یہاں تک کہ کلچرل پروگراموں میں بھی دھارمک حوالے ملنے لگے ہیں۔تھیم پویلین میں نہرو کے ساتھ ساورکر بھی نظر آتے ہیں۔ پٹیل اور آزاد کے ساتھ دین دیال اپادھیائے کو بھی ہائی لائٹ کرنا پڑا ہے۔ یووا اسکیم کے تحت لکھنے والے نوجوان مصنفین نئی سوچ کے ساتھ موضوعات طے کر رہے ہیں۔ مفت بائبل تقسیم کرنے والے اسٹال پر جے شری رام کا نعرہ لگنے والی خبر ٹائمس آف انڈیا میں بھی آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھگود گیتا مفت تقسیم کرنے والے مودی جی کا آؤٹ لیٹ جگہ جگہ نمایاں طور پر نظر آیا جو سیلفی کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ احمدیہ مسلم کرشچن چیریٹی کے ساتھ اب ہندو دھرم پرچارک بھی فعال نظر آتے ہیں۔
تم نے اپنی کتابیں دیکھیں؟ این بی ٹی کے اردو ایڈیٹر شمس اقبال نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ؟ہاں دیکھی ، ا چھی چھپی ہے مگر کیا بکی بھی ہے۔ دراصل مودی جی کی کتاب اگزام وارئیرس کا ترجمہ انہوں نے مجھ سے ایمرجنسی میں کرایا تھا کچھ تو دوستی ، کچھ اپنا پروفیشنل ازم ، میں انکار نہیں کرسکا ۔ پہلے اڈوانی ، پھر نتن گڈکری اور اب مودی گویا میں بی جے پی کا ترجمان نہیں ترجمہ نگار ہوگیا ہوں۔ تھیم پویلین میں تمام کتابوں کے ساتھ اردو کی کتابوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔
چیزیں بہت تیزی سے بدل رہی ہیں۔ کتاب میلہ میں کتابوں کی خریداری کے دوران اس بات کا شدت سے احساس ہوا۔ ری رائٹ ہسٹری اور یکطرفہ مائنڈ سیٹ کے لیے کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ اور اس کا پرچار پرسار زوروں پر ہے۔ کہتے ہیں کہ کتابیں سستی یا مہنگی نہیں ہوتیں بلکہ اچھی یا بری ہوتی ہیں ۔ اگر کتابیں جھوٹی ہونے لگیں گی تو۔
اگر اس مرتبہ کتاب میلہ کے خصوصی پہلو کا ذکر کیا جائے تو اس مرتبہ ملک کے 75نوجوان مصنفوں کو این بی ٹی نے خصوصا مدعو کیا تھا جنہوں نے پی ایم مینثر شپ اسکیم کے تحت ان چھوئے موضوعات پر اپنی کتابیں تصنیف کیں۔ یہ ایک قابل ستائش قدم ہے۔ کتاب لکھنے کے لیے پیسہ کون دیتا ہے ۔ اب تو خود لکھیے، خود چھپوائیے، خود ہی بیچیے یا بانٹیے۔ اردو میں پبلیکشنز ہاؤس کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ رائلٹی تو دور کی بات ہے ۔
تعلیمی میدان میں اس قدر تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ یہ ساری با تیں بہت معمولی لگتی ہیں ، لیکن ان معمولی باتوں کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے جو نئی نسل کو غیر معلوماتی دنیا میں لے کر جانے والا ہے۔ ایسے میں ان لوگوں کا شکرگزار ہونا چاہئے جو آج بھی کتابوں کے اوراق کو اپنا کفن تسلیم کرتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)