Home نقدوتبصرہ جزیرہ نہیں ہوں میں: ایک دلچسپ خود نوشت – نایاب حسن

جزیرہ نہیں ہوں میں: ایک دلچسپ خود نوشت – نایاب حسن

by قندیل

اوریجنل تصنیف:I Am Not An Island

ترجمہ:ڈاکٹر نریش

خواجہ احمد عباس(۱۹۸۷۔۱۹۱۴) اردو کے ممتاز صحافی،افسانہ نگار،فلمی ہدایت کار اور مکالمہ نگار تھے۔ ہندوستانی سیاست،تحریکِ آزادی اور قائدینِ تحریک آزادی سے گہری نظریاتی و عملی وابستگی تھی۔ان کا خاندان خواجہ الطاف حسین حالی کا خاندان تھا،جس میں ایک سے بڑھ کر ایک اہلِ علم و فضل پیدا ہوئے اور جنھوں نے آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی رول ادا کیا۔ خواجہ احمد عباس نے انگریزی اور قانون کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور عملی سرگرمیوں کا مرکز ممبئی کو بنایا،جہاں وہ صحافت بھی کرتے رہے اور کچھ دنوں بعد فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ ہوئے،خود بھی کئی فلمیں بنائیں اور بہت سی فلموں میں مکالمہ نگاری بھی کی۔ انھیں کئی نیشنل اور ایک انٹرنیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ ہندوستانی ادب،فلم،آرٹ اور کلچر کے حوالے سے ان کی شخصیت بڑی ہمہ گیر و ہمہ رنگ تھی،انھیں ان تمام حوالوں سے غیر معمولی احترام اور عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں ،مضامین،افسانوں اور ناول کے ذریعے ہندوستانی ادب کو مالامال کرنے میں بھی قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔

خواجہ احمد عباس نے درجنوں افسانے اور کہانیاں لکھیں جو کتابی شکل میں شائع ہوئیں،ان کا ایک ضخیم ناول’’انقلاب‘‘ انگریزی،روسی اور اردو میں شائع ہوا۔ ’’مسافر کی ڈائری‘‘کے نام سے ان کا سفرنامہ بھی شائع شدہ ہے۔ ’’ایک لڑکی‘‘،’’دیا جلے ساری رات‘‘،’’سونے چاندی کے بت‘‘،’’میں کون ہوں‘‘،’’نئی دھرتی نئے آسمان‘‘وغیرہ ان کی کہانیوں اور افسانوں کے مجموعے ہیں۔ خود ان کے بقول انھوں نے اردو،انگریزی اور ہندی میں کل ستر کتابیں لکھیں۔

 

انھوں نے اپنی خودنوشت سوانح بھی انگریزی میں تحریر کی تھی،جس کا نام I Am Not An Island رکھا۔ اس کتاب میں انھوں نے شخصی حالات و واقعات ، اسفار ، ملاقاتوں ، مختلف النوع محاذ آرائیوں ، خوشی اور غم کے لمحات ، بیماریوں اور حادثات کا تذکرہ کیاہے، پھر سنیما سے بطور فلمی تنقیدنگار اور صحافی کے طور پر اور پھر بطور اسکرپٹ اور ڈائیلاگ رائٹر ، پروڈیوسر اور ہدایت کار کے طورپر اپنی وابستگی کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ یہ کتاب کئی معنوں میں نہایت دلچسپ ہے۔ اس میں نہ صرف خود خواجہ احمد عباس کی زندگی کی کہانی اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ  ہمارے سامنے آتی ہے بلکہ بیسویں صدی کے کئی اہم اور تاریخی واقعات و سانحات کے حوالے سے بھی اس میں دلچسپ تبصرے،تجزیے ،مشاہدے اور خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ چوں کہ خواجہ صاحب کا تعلق ہندوستان کے ایک نمایاں خانوادے سے تھا،جس کے اس ملک کے چوٹی کے علمی،سماجی و سیاسی سربراہوں سے راست تعلقات تھے،اس لیے خواجہ احمد عباس نے ہندوستانی سیاست اور سیاست دانوں کے تعلق سے بڑی حتمی اور مشاہدے پر مبنی دلچسپ رائیں ظاہر کی ہیں،ان کی شخصیتوں پر جاندار تبصرے کیے ہیں۔ انھوں نے کئی ملکوں کے اسفار بھی کیے اور وہاں کی تہذیب و ثقافت و سیاست کا قریب سے مشاہدہ کیا،سو ان کے حوالے سے بھی خواجہ احمد عباس کی رائے خاصی دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس خودنوشت میں مصنف نے اپنی تجربات اور شخصیت کو بھی حتی الامکان بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے،زندگی کے جس موڑ پر کوئی کامیابی حاصل ہوئی اسے بھی بیان کیا اور اگر ناکامی ہاتھ لگی تو اس کا اظہار بھی دیانت داری سے کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف خواجہ احمد عباس کی بہتر سالہ زندگی کی تفہیم میں معاون ہے،بلکہ ان کے عہد کے قومی و عالمی سیاسی و سماجی حالات سے بھی ایک حد تک آگاہی بخشتی ہے۔ ہندوستانی صحافت،فلم،سیاست اور سماج کے نشیب و فراز سے بھی یہ کتاب ہمیں واقف کرواتی ہے۔

 

اوریجنل انگریزی خودنوشت کی پہلی اشاعت ۱۹۷۷ میں ہوئی تھی۔ طویل عرصے بعد اس کا اردو ترجمہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے جو خوب صورت،سلیس اور شیریں ہے۔ مترجم ڈاکٹر نریش نے پوری کتاب کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اسے اردو زبان ہی نہیں،اردو مزاج و نہاد میں ڈھالنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ کتاب کے مطالعے کے دوران کہیں بھی لفظی الجھاؤ اور بیان و اسلوب کی پیچیدگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ترجمے میں روانی ہے اور مصنف کے خیالات کو بعینہ اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مجموعی طورپر ڈاکٹر نریش نے اس ضخیم کتاب کا شاندار اور قابلِ تحسین ترجمہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نریش خود بھی اردو کے ممتاز مصنف اور تخلیق کار ہیں۔ طویل عرصے تک پیشۂ معلمی سے وابستہ رہے ہیں۔ انھوں نے افسانہ،ناول،شاعری اور تنقید ہر صنف میں لکھا ہے اور خوب لکھا ہے،ان کے متعدد افسانوی مجموعے،ناول ، مجموعہ ہاے کلام اور تنقیدی مباحث پر مشتمل کتابیں شائع شدہ اورمتداول ہییں۔ ان کی تخلیقات زبان و اسلوب کے رچاؤ اور فکر و نظر کے رکھ رکھاؤ کا خوب صورت نمونہ ہوتی ہیں۔ ملٹی لنگول شخصیت کے مالک ہیں ان کے قلم سے ماقبل میں ہندی،انگریزی و پنجابی زبانوں سے کئی کتابوں کے اردو تراجم منظر عام پر آچکے ہیں جو کامیاب رہے اور اصحابِ ذوق قارئین نے جنھیں پسند کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ خواجہ احمد عباس ایسے عظیم فن کار کی خودنوشت کا ان کے ذریعے کیا گیا یہ ترجمہ بھی ادب و زبان کے شائقین اور خواجہ صاحب کی شخصیت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے مابین مقبولیت حاصل کرے گا۔

You may also like

Leave a Comment