Home خواتین واطفال خوشگوارازدواجی زندگی کا اہم اصول ـ رونق جہاں

خوشگوارازدواجی زندگی کا اہم اصول ـ رونق جہاں

by قندیل

شادی کے بعد لڑکی ایک ایسے وطن میں قدم رکھتی ہے، جہاں اس کے لیے تمام چیزیں اجنبی ہوتی ہیں، انسانوں سے لے گلیوں اور محلوں تک، کھانے پینے سے لے کر رسم و رواج تک، بول چال سے لے کر چال ڈھال تک، یعنی ذرہ ذرہ اجنبی!

اس ماحول میں خلاف عادت اور باعثِ کلفت باتوں کا پیش آجانا ایک فطری امر ہے، کبھی شوہر کی طرف سے، کبھی ساس اور سسر کی طرف سے، کبھی دیورانی جٹھانی اور نند کی جانب سے، کبھی محلے کی عورتوں کے رویے سے، کبھی کام کاج کو لے کر، تو کبھی بات چیت کو لے کر، عادت و اخلاق اور چال ڈھال کو لے کر!
اب عورت کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں، کہ ان سب باتوں پر صبر کرے، معاملے کو از خود سلجھانے کی کوشش کرے، ہمت و حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرے، ایسے اخلاق بنائے کہ ہر ایک تمہارے سامنے زیر ہو جائے، تم خود بڑھ چڑھ کر کام کرکے دکھاؤ، ان کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں لگی رہو، سارے کام وقت پر انجام دو، ساس کے ساتھ اپنی ماں جیسا اور نند کےساتھ بہن جیسا سلوک کرو، خاص طور پر شوہر کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھو، اس کی زبان سے الفاظ نکلنے سے پہلے ہی اس کے اشاروں پر کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہچاؤ، مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کرو، گھر سے باہر جاتے وقت اور اندر آتے وقت مسکرا کر اس کو فرحت وسکون عطا کرو، کبھی کبھی اس کے کہے بغیر اس کی پسند کا کھانا تیار رکھو، پھر آپ کی ساری الجھنیں اور دقتیں کافور ہو جائے گی، سب کچھ اپنے آپ درست ہو جائے گا، وہاں کے ذرے ذرے سے اپنائیت کی خوشبو محسوس ہوگی، تم اپنے اس گھر کو جنت کا چمن بنانے میں کامیاب ہو جاؤ گی، پورا گھر پھولوں کا ایک گلدستہ بن جائے گا، اور تمہیں ہر ایک اپنا نظر آئے گا، حتی کہ اپنے میکے سے بھی زیادہ سسرال میں لطف محسوس ہونے لگے گا۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ سسرال کی ساری باتیں کچھ حقیقت، کچھ بڑھا چڑھا کر اپنے میکے میں بتاؤ، آپ کا دکھ درد دیکھ کر بچپن سے شہزادی بنا کر رکھنے والی اپنی جان سے بھی زیادہ تمہارا خیال رکھنے والی پیاری ماں برداشت نہیں کر پائے گی، اور وہ جذبات میں آکر آپ سے کہے گی: ہاں تو بھی سارا مت کیا کر، تیرے منہ میں بھی تو زبان ہے، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا کر، ساس نند سے دب کر نہ رہا کر، اگر کسی کے سامنے تجھے کچھ کہے تو بھی پلٹ وار کیا کر، شوہر کو بھی ان ساری باتوں سے آگاہ کیا کر، اگر ان سب سے کام نہ چلے تو میں تیرے باپ کو بھیج رہی ہوں اس کے ساتھ آ جانا، جب تک تیرا شوہر اپنے گھر والوں سے الگ نہیں ہو جاتا، یا جب تک سب سے اکیلا نمٹنے کا عہد نہیں کر لیتا، تجھے نہیں بیھجوں گی، وہ تو وہ اس کے بڑے بھی سو دفعہ منت خوشامد کرنے پر مجبور ہوں گے، اور سب ٹھیک ہو جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔
یہ اب باتیں بڑی اچھی اور سود مند معلوم ہوتی ہے، لیکن ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں! ان سب سے کیا ہوگا؟؟
اگر تم اپنی ماں کی "ہدایات” پرعمل کر کے سسرال میں رہو گی تو جھگڑے اور فساد جنم لیں گے، ساس کے ساتھ اَن بَن ہوگی، نند کے دل میں دشمنی پیدا ہوگی، شوہر کے ساتھ ناچاقی بڑھے گی، سب کی زندگی جہنم بن جائے گی، گُھٹ کر جینا پڑے گا، ایک لمحہ بھی سکون کا سانس نصیب نہیں ہوگا،اور کبھی یہ تان رشتے سے آزادی پر ٹوٹ جائے گی، اور تم نہ ادھر کی رہو گی اور نہ ادھر کی، گھر والوں پر ایک بوجھ، جی صرف بوجھ!! اور محلے خاندان والوں کے طعنے اس پر مستزاد!
یا اپنی میکے میں چلی جاؤ گی، اور وہاں اپنا دُکھڑا اپنے انداز میں سنا کر تسلی دینے کی کوشش کرو گی، لیکن اس سے سوائے مشکلات میں اضافے کے اور کچھ نہیں ہوگا، دو خاندانوں میں ٹکراؤ ہوگا، اگر تم صحیح سلامت سسرال میں پہنچ بھی گئی، تو پہلے والی بات نہیں رہے گی، دلوں میں کھوٹ آجائے گا، زندگی بے لطف محسوس ہونے لگے گی، اور اگر پنچایت تک بات پہنچ گئی پھر تو تمہاری خیر نہیں، بات بڑھے گی تو بڑھتی چلی جائے گی، مقدمات تک نوبت پہنچے گی، روپیہ پیسا پانی کی طرح بہانا ہوگا، اس سے آگے ط…….. تک بھی پہنچ سکتی ہے، پھر تو اُس جہنم سے پہلے اسی دنیا میں تیری زندگی جہنم بن جائے گی۔
کاش عورتیں اس واقعہ سے سبق لیتیں ” ایک مرتبہ نبی اکرمؐ کی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا( نبی اکرمؐ کی بیٹی اور حضرت عثمان ؓ کی بیوی) حضرت عثمان سے ناراض ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پسند نہیں کہ عورت اپنے خاوند کی شکایت کیا کرے، جاؤ! اپنے گھر بیٹھو۔ (اوجز السیر لابن الفارس، بحوالہ : سیرت خاتم الانبیا، ٢٣)
اس میں لڑکی اور گھر والوں دونوں کے لیے سبق ہے کہ لڑکی سسرال کی شکایت گھر نہ کرے، اور گھر والے اس کی شکایت پر کان نہ دھرے۔
چنانچہ چند باتوں کی پابندی کرے، ان شاء اللہ پر سکون لمحات نصیب ہوں گے، گھر خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گا۔

١. چھوٹی موٹی باتوں کو دل پر نہ لے، نظر انداز کرنا سیکھے۔
٢. اگر کبھی مزاج کے خلاف کوئی بات ہوگئی تو سامنے والے کے احسان کو یاد کرے( اور خلاف مزاج بات کا پیش آنا تو زندگی کا جز ہے، کیا اپنے گھر ان ساری باتوں کا سامنا نہیں ہوتا تھا؟)۔
٣. جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرے، پہلے خوب غور کر لے، اس کے بعد انجام دے ۔
٤. اپنے گھر والوں کے سامنے اپنے کو خوش ظاہر کرے، تمہاری خوشی میں ہی ان کی خوشی ہے، اپنی سسرال کی باتوں کو ان سے چھپا کر رکھے۔
٦. سسرال کی باتیں گھر نہ بتائیں، احوال جیسے بھی ہوں خود ان سے نپٹنے کی کوشش کرے۔(البتہ کبھی زیادہ مجبوری تو بات الگ ہے)
٥. فون سے اپنے گھر ایک وقت میں زیادہ بات نہ کرے، بس حال چال پوچھ کر فون کٹ کر دے۔
٦. شوہر کی خوشی کو اپنی ہر خوشی پر مقدم رکھے۔
٧. اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرے، صبر و شکر کی عادت ڈالے۔
٨. زیادہ مطالبات نہ کرے، اہل خانہ کی حیثیت دیکھ کر ہی زبان پر کوئی لفظ لائے
٩. دعاؤں کا اہتمام کرے، سب کے دل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اس کی مرضی کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
اللہ کے واسطے ایک بار یہ نسخہ آزما کر دیکھیں، ان شاء اللہ اس جانب سے آنے والی تمام مشکلات دور ہو جائے گی۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین ثم آمین

You may also like

Leave a Comment