یہ انگریزی کتاب کا اردو روپ ہے!
ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ کا تعلیم و تربیت کے مسائل اور متعلقات سے گہرا سروکار ہے۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انگریزی میں
Make them happy: Make them Great
کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ جس کا اردو ترجمہ منصور شاہ اردو ہائی اسکول بیڑ مہاراشٹر کے صدر مدرس، ہفت روزہ ’بیڑاذان‘ کے چیف ایڈیٹر اور معروف مترجم ڈاکٹر محمد صفی انوری نے کیا ہے۔ انھوں نے صرف ترجمے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کتاب میں ترمیم و ضافے سے بھی کام لیا ہے جس سے کتاب کی افادیت اور معنویت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا ہے۔
اردو میں تعلیم و تربیت کے طریق کار پر عصری مقتضیات سے ہم آہنگ کتابیں بہت کم ہیں۔ اس کے برعکس انگریزی میں اس موضوع پر کتابوں کا انبار ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ کی اس کتاب کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں فلسفیانہ یا فرسودہ ڈسکورس نہیں بلکہ تجربی اور مشاہداتی ڈسکورس (Emprical and observational discourse) ہے۔
اس کتاب میں کہیں کہیں تمثیلی اور حکائیہ انداز میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی مبادیات، مبانی، محرکات اور مقاصد وغیرہ کے حوالے سے معروضی گفتگو کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کی حیثیت ایک ’ہدایت نامہ‘ کی سی ہے۔ اس میں ہر اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے جس کا تعلق بچوں اور والدین سے ہے۔ وہ تمام موضوعات جن کا بچوں کی تعلیمی زندگی سے گہرا تعلق ہے ان کا اس کتاب میں بہت عمدگی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے پرکشش اور جاذب نظر عنوانات سے یہ اندازہ لگانا آسان ہوگا کہ اس کتاب کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
بچوں کے تئیں والدین کا رویہ، طرز عمل اور بچوں کے تعلیمی تربیتی مسائل اور ان کی کریئر سازی وغیرہ کے حوالے سے نہایت مفید کتاب ہے۔ انھوں نے والدین کے مربیانہ کردار پر بھی گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ بنیادی طورپر ابتدائی مرحلے میں والدین ہی استاد ہوتے ہیں اور انہی کی گود بچے کا پہلا مدرسہ اور پہلی تربیت گاہ ہے۔ مہاتما گاندھی کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ ’’ہر گھر ایک یونیورسٹی ہوتا ہے اور والدین استاد ہوتے ہیں۔‘‘ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو بچوں کے لیے خشت اوّل ان کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے حلیمہ سعدیہ نے ’والدین بچو ںکے استاد‘ کے عنوان سے بہت قیمتی باتیں تحریر کی ہیں جن سے والدین کو بچوں کے تئیں اپنی ذمے داریوں کا احساس ہو۔ اسی ذیل میں انھوں نے سات حرفی لفظ ‘Teacher’ کے تعلق سے نہایت خوبصورت اشارے کیے ہیں۔ ‘T’ یعنی Time (وقت) ‘E’ ، Emotions (جذبات)، ‘A’ یعنی Acquire (حاصل کرنا)، ‘C’ یعنی Coach (مربی)، ‘H’یعنی Help (مدد)، ‘E’ یعنی Encourge (ہمت افزائی)، ‘R’ یعنی Responsible (ذمے دار)۔ ‘Teacher’ کے ان سات حرفوں سے استاد کے منصب و کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ کی اس کتاب کا ارتکاز بنیادی طور پر والدین پر ہے۔ اس لیے اس کتاب میں والدین بہ حیثیت قصہ گو، والدین بچوں کے ماہر نفسیات، والدین بچو ںکے کھیل کود کے ساتھی، والدین بچو ںکے رہنما، بات بات پر غصہ کرنے والے والدین، والدین بچوں کے دوست، والدین بچوں کے مشیر، دیکھ بھال کرنے والے والدین، والدین بچوں کے جج، والدین بچو ںکے قائد جیسے عنوانات کے تحت والدین کی ذمہ داریوں کا تعین کیا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں سب سے اہم، فعال اور قائدانہ کردار والدین ہی اداکرسکتے ہیں اور والدین ہی بچوں کے دل و دماغ کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ ان کا مشفقانہ اور مثبت رویہ بچوں کے ذہن پر خوش گوار اثر مرتب کرسکتا ہے۔ والدین کی ہی توجہ سے بچوں کو کامیابی اور کامرانی نصیب ہوگی۔ ان کی ذرا سی بے توجہی بچوں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
والدین ہی بچوں کو آدابِ معاشرت صحیح طور پر سکھا سکتے ہیں، رذائل سے بچا سکتے ہیں، ان کی خوداعتمادی کو بڑھا سکتے ہیں اور نھیں نظم و ضبط کا عادی بھی بنا سکتے ہیں۔ انھوں نے ہیلن کیلر کی بہت اچھی مثال دی ہے کہ وہ سماعت اور بصارت سے محروم تھی، لیکن نظم و ضبط کی وجہ سے وہ نہ صرف کئی کتابو ںکی مصنفہ بنیں بلکہ امریکن فاؤنڈیشن فار بلائنڈ میں کام کرتے ہوئے ایک مثالی شخصیت بن گئیں اور انھیں بہت سے انعامات بھی ملے۔
انھوں نے معذور بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر بھی اچھی روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ معذوری بچوں کے روشن مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ معذور بچے بھی کامیابی اور کامرانی کی تاریخ رقم کرسکتے ہیں، اس ذیل میں انھوں نے مشہور مصری ادیب طہ حسین کا حوالہ بھی دیا ہے جو تین سال کی عمر میں نابینا ہوگئے تھے مگر اپنی محنت اور جدوجہد سے انھوں نے عالمی ادب میں اپنی ایک واضح شناخت بنائی اور مصر کے ثقافتی امور کے وزیر بھی بنے۔
حلیمہ سعدیہ کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ اور ہنرآتا ہے کیونکہ کئی اداروں سے ان کی تدریسی وابستگی رہی ہے، اس دوران انھوں نے بچوں سے Interactionکے ذریعے ان کے مسائل جذبات، احساسات جاننے اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے اور ان کے مسائل کا مثبت انداز میں حل تلاش بھی کیا ہے۔ وہ بچوں کی نفسیات، ترجیحات اور عصری مقتضیات سے بخوبی واقف ہیں۔ انھوں نے بیشتر مسائل کو معاشرے کے کرداروں کے وقوعات، واردات، تجربات اور حکایات کے ذریعے بھی پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کتاب کے مشمولات میں ایک طرح سے جذب اور کشش کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
آج کے عہد میں ایسی کتابوں کی شدید ضرورت ہے کیونکہ دنیا کا تعلیمی اور تربیتی نظام تیزی سے تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ نئے عہدنے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیا ہے جن پر پہلے شاید ہی غور کیا گیا ہو، اس لیے آج کے حالات کے تناظر میں اردو میں بھی تعلیم و تربیت سے متعلق کتابیں لکھی جانی چاہئیں اور اس سلسلے میں اگر انگریزی سے استفادہ کیا جائے تو میرے خیال میں کوئی قباحت نہیں۔ پروفیسر خواجہ ایم شاہد نے امریکہ کے بچوں کے مشہور معالج بنجامن اسپوک (Dr. Benjamin Spock) کی ایک کتاب کا حوالہ دیا ہے جس کا نام ہے ‘Dr. Spock’s Baby & Child Care’ ۔ ان کے مطابق ’’یہ کتاب ہر ایک ماں باپ کے ضرور ہوتی تھی۔‘‘ آج ہمارے معاشرے کا معاملہ اس سے ذرا مختلف ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی کتاب والدین کے پاس رہتی ہو۔
ڈاکٹر محمد صفی انوری کا شکریہ اور مبارکباد کہ انھوں نے حلیمہ سعدیہ کی اس اہم انگریزی کتاب ‘Make Them Happy Make Them Great’کو اردو کا پیرہن عطا کیا اور بچو ںاور ان کے والدین کے لیے ایک ایسا قیمتی مواد پیش کیا جس کی روشنی میں والدین اپنے بچوں کے مستقبل کا منشور مرتب کرسکتے ہیں۔