سید خورشید مصطفی رضوی (متوفی31/جولائی2002)علمی وادبی دنیا کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ انھوں نے پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں گزاری، مگر اپنے کارناموں کی کوئی نمائش نہیں لگائی۔ ان کی پیدائش امروہہ میں ہوئی، جو باکمال لوگوں کی ایک قدیم بستی ہے۔ یہاں علم وفضل کے دریا بہتے ہیں۔اسی مردم خیز اور دل آویز سرزمین میں سید خورشید مصطفی رضوی ایک علمی خانوادے میں 1930 میں پیدا ہوئے۔خاندانی شرافت اور عاجزی وانکساری جیسی صفات انھیں ورثے میں ملی تھیں۔
انھوں نے رامپور، میرٹھ اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرکے1960میں دہلی یونیورسٹی کی لائبریری سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور یہاں سے 1997میں ریٹائرہوئے۔میری خوش قسمتی یہ ہے کہ مجھے ان سے کسب فیض کا موقع ملا۔بظاہر دھان پان سی نظر آنے والی اس شخصیت نے بے مثال تحقیقی اور علمی کارنامے انجام دئیے۔ وہ ایک روشن خیال محقق ومصنف تھے، جس کا سب سے بڑا ثبوت پہلی جنگ آزادی پر ا ن کی معرکۃ الآراء تصنیف ”جنگ آزادی 1857″ ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ نامور مورخ ڈاکٹر تاراچند نے لکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ”اس مضمون پر یہ اردو کی پہلی تصنیف ہے جس میں بلاتعصب مذہب وملت اس انقلاب کی صحیح کہانی بتلائی گئی ہے۔ ان کی معلومات وسیع اور نظر گہری ہے۔“
800صفحات پر مشتمل یہ کتاب سیدخورشید مصطفی رضوی کے گہرے تاریخی شعور کی مظہر ہے۔ اس میں شامل بیشتر معلومات انھوں نے 1857کے ریکارڈ اور مآخذ سے براہ راست حاصل کی ہیں۔ ارد و میں چند کتابیں سامنے رکھ کر ایک کتاب تیار کرنے کا رواج عام ہے، لیکن سید خورشید مصطفی رضوی نے تن آسانی کی بجائے جفاکشی کی راہ اختیار کی اور1857پر تحقیق کرنے والوں کے لیے جامع مواد جمع کردیا۔ وہ خود ان شہروں کے مال خانوں میں گئے جہاں 1857 کے ریکارڈ بنڈلوں میں بندھے ہوئے خاک پھانک رہے ہیں اور کسی نے انھیں دیکھنے اور پرکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ انھوں نے اس تمام ریکارڈ کو کھنگالا اور اس میں سے تحقیق کے موتی رولے۔اس معرکۃ الآراء کتاب کے علاوہ ان کی دیگر اہم تصنیفات میں ’حیات ذاکر حسین‘(1969)’تذکرہ بدرچشت‘(1975)’شیرہندوستان ٹیپو سلطان‘(1998)’بابر‘(2002)’تاریح جنگ آزادی ہند1857‘(2000)قابل ذکر ہیں۔ مختلف علمی اور تاریخی موضوعات پر ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد دس ہے۔یہ تمام تصنیفات اور تالیفات اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے اردو ادب وتاریخ ہند میں ایک اہم مقام ومرتبہ کی حامل ہیں۔ ان قیمتی کتابوں کے علاوہ میدان علم وادب کے اس شہسوار کی نگارشات میں سیکڑوں نادرونایاب مضامین اور مقالات بھی شامل ہیں، جن کی تاریخی اور ادبی حیثیت مسلّم ہے۔
علم وادب کی اسی نابغہ روزگار شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب کی صورت گری سرزمین امروہہ کے ایک اور لائق فرزند ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے کی ہے اور حق تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی از خود ایک محقق اور مترجم ہیں۔ انھیں اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں پر عبور حاصل ہے۔وہ بھی سیدخورشید مصطفی رضوی کی طرح علی گڑھ کے فیض یا فتہ ہیں، جہاں سے انھوں نے فارسی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ان کی اب تک 31 کتابیں اور تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں کمال واسطی کی کتاب ’اسرار کشف صوفیہ‘ کا فارسی سے ہندی اور اردو ترجمہ شامل ہے۔ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی کی علمی تربیت پروفیسر نثار احمد فاروقی جیسے جید عالم کی سرپرستی میں ہوئی ہے۔زیرتبصرہ کتاب میں ان کا روحانی پیش لفظ بھی شامل ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ”کل محترم خورشید مصطفی رضوی اپنے پورے کنبے (حوروغلماں)کے ساتھ تشریف لائے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو کے دوران انھوں نے یہ خوشخبری بھی دی کہ تم نے ان کی سوانح اور ادبی خدمات پر ایک مبسوط کتاب لکھی ہے، سن کر بہت زیادہ مسرت ہوئی۔“
ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے اس کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کے روحانی پیش لفظ سے پہلے مصنف نے ’اعتراف حقیقت‘ کے عنوان سے اپنے مقدمہ میں اس کتاب کے ظہور کی روئیداد بیان کی ہے۔ ابواب کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے۔باب اوّل (سرزمین امروہہ کی مختصر علمی وادبی تاریخ)باب دوم (’سید خورشید مصطفی رضوی کا خاندانی تعارف‘)باب سوم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی پیدائش، تعلیم وتربیت اور ملازمت وقلمی خاکہ‘)باب چہارم (’سید خورشید مصطفی رضوی کے اخلاق وعادات، وفات حسرت آیات‘)باب پنجم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی تصانیف وتالیفات کا جامع تعارف‘)باب ششم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی مدیرانہ صلاحیتیں ’درمقصود‘ کے حوالے سے‘)باب ہفتم (‘سید خورشید مصطفی رضوی کی اولاد کا تعارف و کتابیات‘)باب ہشتم (’سید خورشید مصطفی رضوی کی چند یادگار تصاویر‘)
ان تمام ابواب میں مصنف ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ جو مواد جمع کیا ہے، وہ خورشید مصطفی رضوی کی زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔کتاب کے مصنف سے خورشید مصطفی رضوی کو جو مخلصانہ اور مشفقانہ تعلق تھا،وہ کتاب کے ہرلفظ سے جھلکتا ہے۔کتاب کا اسلوب عام تحقیقی کتابوں کی طرح خشک نہیں ہے بلکہ اس میں زبان وبیان کی چاشنی بھی موجود ہے۔ سید خورشید مصطفی رضوی سے میری پہلی ملاقات اب سے کوئی چالیس برس پہلے اس وقت ہوئی تھی، جب وہ دھولاکنواں کی لائبریری میں تعینات تھے۔ انھوں نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا اور میں ان کا گرویدہ ہوگیا۔ وہ بقول مصنف یقینا ”عجز وانکساری، مروت ورواداری، صبر وتحمل بردباری، خاکساری اور مسکینی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ بڑے تو بڑے خورشید رضوی چھوٹوں کا ایسا ادب کرتے تھے کہ وہ خواہ مخواہ ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا تھا۔“(ص 77)
میں اس بیان کی تصدیق یوں کرسکتا ہوں کہ جب 2000میں ان کی معرکۃ الآراء کتاب ’تاریخ جنگ آزادی ہند 1857‘ کا اضافہ شدہ ایڈیشن شائع ہوا تووہ اس کا ایک نسخہ لے کر میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اپنے دستخط کے ساتھ مجھے پیش کیا، جو میری ذاتی لائبریری میں محفوظ ہے۔وہ میرے لیے حددرجہ محترم اور مشفق انسان تھے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ خدا ان کی قبر کو نور سے بھردے۔ ان پر ایک وقیع کتاب کی صورت گری کرکے ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی نے اہل امروہہ کا قرض اور فرض ادا دونوں اداکیا ہے۔نہایت عمدہ طباعت کے ساتھ شائع ہونے والی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ 9810780563
خورشید مصطفی رضوی:حیات وعلمی خدمات -معصوم مرادآبادی
previous post