Home نقدوتبصرہ ‘خودکشی نامہ’ اور خودکشی پر کچھ باتیں ـ مالک اشتر

‘خودکشی نامہ’ اور خودکشی پر کچھ باتیں ـ مالک اشتر

by قندیل

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ پوری دنیا ایک سال میں کتنا پیسہ دوا علاج پر لگا دیتی ہے؟۔ ادھر دو برس کے دوران وبا کی وجہ سے ہیلتھ کیئر پر ہونے والے اضافی خرچ کو ہٹا دیں، تب بھی دنیا بھر کا سالانہ میڈیکل خرچ، اس کی جی ڈی پی کا تقریبا دس فیصد بیٹھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ انسانوں نے اپنے جسم کو سلامت رکھنے کے لئے یہ آٹھ اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔ گویا یہ خود کو فنا سے دور رکھنے کا وہ تاوان ہے جو اولاد آدم اپنے ہی جیسے دوپایوں کو ادا کر رہی ہے، اور کرتی رہے گی۔
موت کو خود سے دور رکھنے کی تڑپ کا ایک اور مظاہرہ تو ابھی کل پرسوں ہی آپ نے دیکھا، جب اس چہل پہل اور ہنگامہ پسند دنیا کی دو تہائی آبادی خود پر غیر معینہ مدت کا کرفیو نافذ کرکے گھروں میں دبک گئی تھی۔ یہ سب تکلفات کیوں؟ تاکہ زندگی کی رفاقت نصیب رہے۔ اب ذرا ایک لمحہ کو سوچئے کہ اگر یہی زندگی مرض بن جائے اور موت اس کی اکلوتی دوا معلوم ہونے لگے تو کیا ہو؟۔ اسی کیفیت کی کوکھ نے خودکشی کو جنا ہے۔
خودکشی اپنی سماجی اور فلسفیانہ جہتوں کے سبب ہمارے مباحث میں شامل رہی ہے لیکن اس پر بھرپور گفتگو کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے۔ رضوان الحق کا ناول ‘خودکشی نامہ’ اردو فکشن میں اس موضوع پر بھرپور مکالمے کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ اس ناول پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرحت احساس نے کہا تھا کہ ‘اس ناول کا زور خودکشی کے عمل سے زیادہ خودکشی کا بیانیہ قائم کرنے پر ہے’۔ میں بطور قاری نہ صرف فرحت احساس کی اس بات کی تائید کرتا ہوں بلکہ اس میں یہ اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ ناول نگار اس بیانیہ کو سلیقے سے قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوا ہے۔
‘جشن ادب’ میں اس ناول پر ہونے والی گفتگو کے دوران فرحت احساس اور خالد جاوید نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی، ان کو سن کر تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ناول اپنی تھیم کو ایک سنجیدہ اور علمی بحث کا محور بنانے کے ہدف تک خوبی سے پہنچا ہے۔ ویسے خودکشی جیسے بظاہر منفی موضوع کو ناول کے لئے منتخب کرتے وقت خود ناول نگار کو بھی کئی سوال اور الجھنیں گھیرے رہی ہوں گی، لیکن چونکہ ان کا مطمح نظر واضح تھا، اس لئے وہ اس تھیم پر ناول کی عمارت کھڑی کرتے چلے گئے۔

"کچھ لوگوں کے ذہنوں میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ ایسے منفی موضوع پر ناول لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کو پڑھ کر لوگ خودکشی کی طرف راغب ہوں؟۔۔۔۔یہ ناول نہ براہ راست کسی مسئلہ کا حل ہے اور نہ اس مسئلہ کو بڑھانے والا۔ قاری بس ناول کی صورت حال پڑھ کر اپنی ذاتی صورت حال سے مکالمہ قائم کر سکتا ہے”۔ (ص 22)

رضوان الحق نے اس ناول میں کئی تخلیقی تجربات کئے ہیں جن سے اس فن پارے کی قدر کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ناول کا مرکزی کردار طالب ہی اس کا راوی بھی ہے۔ ناول کا آغاز ہی ان جملوں سے ہوتا ہے:
"اس ناول میں میرا نام طالب ہے۔ میں ہی اس کا مرکزی کردار ہوں، میرا خالق آج پھر مجھے قصہ گوئی پر مجبور کر رہا ہے۔” (ص 29)

اس کے بعد کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے یہ مرکزی کردار، ایسے حالات میں جکڑتا چلا جاتا ہے جہاں اسے خودکشی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آ رہا۔ چونکہ یہی کردار بعد میں راوی کی حیثیت سے پوری روداد بیان کر رہا ہے اس لئے قاری اس اطمینان کے ساتھ ناول میں آگے بڑھتا ہے کہ آخر میں ‘طالب’ کہانی کہنے کے لئے بچ ہی جائے گا، لیکن کہانی اپنے ساتھ طالب کو بھی لے کر ختم ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب طالب اس واقعہ میں مر گیا تو آج ہمیں یہ قصہ کیسے سنا رہا ہے؟۔ یہیں رضوان الحق کا تخلیقی تجربہ کارفرما ہے۔
ناول کے ہر باب سے پہلے چند سطریں لکھنا بھی اس ناول میں کئے گئے تخلیقی تجربات میں شامل ہے۔ رضوان الحق نے لکھا ہے کہ انہوں نے یہ تکنیک ادین واجپئی کے ناول ‘قیاس’ سے لی ہے اور اس کو ذرا مختلف ڈھنگ سے برتا ہے۔ یہ سطریں دراصل اس ماحول کا تعارف ہیں جس میں آنے والے باب کے واقعات سانس لیں گے۔ یہ تعارفی سطور اپنے ابواب کے پس منظر میں پڑھے جانے پر مجموعی کہانی کا اٹوٹ انگ محسوس ہوتی ہیں۔ انہیں تعارفی سطور سے ناول میں دوسرے راوی کے داخل ہونے کا جواز بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ راوی ہمارے مرکزی راوی یعنی طالب کے مرجانے کی صورت میں بہت کام آنے والا ہے۔
‘خودکشی نامہ’ کو پڑھ کر قاری کو جو سوال سب سے زیادہ پریشان کرتے ہیں ان میں خودکشی اور قتل کے تعین کا قضیہ بھی ہے۔ ناول کے مختلف ابواب میں درج خودکشی کے واقعات، کیا واقعی خودکشی تھے یا پھر ان پر قتل کا حکم لگے گا؟ یہی وہ سوال ہے جو اس ناول کے قاری کو بہت دیر بے چین کئے رکھتا ہے۔ بہوؤں کو جلاکر مار ڈالنا اور پھر اس کو خودکشی کا عنوان دے دینا تو خیر قتل کے درجے میں ہے ہی، لیکن سماج کے دباؤ اور آتنک کے سبب، خودکشی کے دروازے سے، اس دنیا کو خاموشی سے چھوڑ جانے والے، کیا اس سماج کے مقتول نہیں کہلائیں گے؟۔ وہ نظام جہاں کسان اپنا سب کچھ رہن رکھنے کو مجبور ہو اور پھر ایک دن اسے خود کو پیڑ کی کسی شاخ سے، گردن کے سہارے لٹکانا بھی پڑے، کیا اس نظام کو قاتل اور کسان کو مقتول قرار نہیں دیا جانا چاہئے؟۔
قتل بنام خودکشی کا یہ المیہ ناول کے انجام کو اس وقت کچھ اور ڈارک کر دیتا ہے جب مرکزی کردار طالب کا بھیڑ کے ہاتھوں قتل، اس کی جیب سے برامد پرچے کی وجہ سے خودکشی قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا اس ناول میں ایک کے بعد ایک ہونے والے قتل، خودکشی کی دری کے نیچے سرکائے جاتے رہے۔
اس مرحلہ پر ایک لمحہ ٹھہر کر یہ طالب علم عرض کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے سماج میں ہونے والی خودکشی کی زیادہ تر وارداتیں، کسی نہ کسی درجہ میں، قتل ہی کے حکم میں آتی ہیں۔ سماج، اخلاق، رشتے، عزت اور اس جیسے کتنے ہی کہے ان کہے عوامل بہت سے لوگوں کو اس سمت دھکیلتے ہیں، جہاں اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ سب مصیبتوں سے آزادی کا اکلوتا راستہ، اس زندگی سے آزاد ہو جانا ہے۔ ایسے میں بہت مشکل ہے کہ سارا جرم صرف خودکشی کرنے والے کی گردن پر ڈال دیا جائے اور وہ ‘سماجی نزاکتیں اور دباؤ’ یکسر بری قرار پائیں، جن کے ہاتھوں پر مرنے والے کا ذرا بہت سا خون صاف نظر آ رہا ہے۔
گفتگو سمیٹوں، اس سے پہلے دو باتیں خودکشی پر بھی ہو جائیں۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ فرد کی آزادی کے علم بردار مغربی معاشرے بھی انسانوں کو خود کی جان لے لینے کا حق نہیں دینا چاہتے۔ اگر چند ایک ممالک نے یوتھینیزیا کی اجازت دی بھی ہے، تو اس میں بہت سخت شرائط لگا دی گئی ہیں۔ عام حالات میں دنیا کا اس امر پر اجماع ہے کہ انسان کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن یہ نہیں کہ وہ خود کو ختم کر ڈالے۔ گویا ‘مہذب دنیا’ مسائل سے چھٹکارے کے لئے زندگی سے ہی راہ فرار اختیار کر لینے کو آدمیت کی توہین گردانتی ہے۔
اس بحث کا ایک اور پہلو اسی سے متصل ہے، وہ یہ کہ دنیا کا، انسان کو یہ اجازت نہ دینا کہ وہ اپنے جسم کو ختم کر لے، انسان کے وجود کو دو حصوں میں بانٹ کر دیکھے جانے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر انسانی وجود بس ظاہری زندہ جسم کی صورت ایک اکائی ہے، تو پھر ‘وہ’ کون ہے جسے یہ اجازت نہیں کہ وہ ‘اپنے جسم’ کو ختم کر ڈالے؟۔ کیا وہ انسان کا فکری اور فیصلہ ساز وجود ہے؟ کیا وہ وجود اسی ظاہری جسمانی وجود کا حصہ ہے؟ یا پھر اس سے علیحدہ کوئی حقیقت ہے؟۔ کیا یہی بات بڑھتے بڑھتے روح کے اثبات تک چلی جائے گی؟۔ اگر روح کا وجود ثابت ہو گیا تو کیا دنیا اس جسم کو فروعی درجہ دے کر اس کو ختم کرنے کی ممانعت کے اپنے فتوے پر نظر ثانی کرے گی؟۔
رضوان الحق کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناول کے ذریعہ مذکورہ بالا اور اس جیسے درجنوں سوالوں کو غور و فکر کی میز پر لا کر رکھ دیا ہے۔ خودکشی جیسے حساس اور انتہائی اہم موضوع کو اتنے سلیقے اور اہتمام سے ناول کا لباس پہنانا اور خودکشی کے بیانیے کو مضبوطی سے قائم کر دینا اس ناول کی بڑی کامیابیوں میں شامل ہے۔

You may also like

Leave a Comment