Home ستاروں کےدرمیاں خدا یاد آئے جنھیں دیکھ کر: حضرت استاد محترم مولانا عبد الخالق سنبھلی ـ محمد ابو طلحہ داری کریم نگری

خدا یاد آئے جنھیں دیکھ کر: حضرت استاد محترم مولانا عبد الخالق سنبھلی ـ محمد ابو طلحہ داری کریم نگری

by قندیل

 

دار العلوم دیوبند میں اس وقت کے صف اول کے کئی اساتذہ دو سال کے مختصر سے وقفے میں داغ مفارقت دے گئے، جس کی وجہ سے دل کی دنیا سونی سونی ہوگئی ہے۔

حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی کی وفات کا غم ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک اور بڑی شخصیت حضرت استاد محترم مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کا وقت موعود آپہنچا۔ وہم و گمان میں بھی اس بات کا دور دور تک کوئی تصور نہیں تھا کہ اتنی جلدی آپ کا سایہ شفقت بھی ہم طلبہ کے سروں سے اٹھ جائے گا۔ پوری امت مسلمہ کے لیے اور خاص طور پر حلقہ دار العلوم دیوبند کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔

حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی شخصیت بہت ہی نرم مزاج، وشیریں زبان، آپ کی زبان سے نکلنے والا لفظ لفظ بھی شیرینی کی مٹھاس لیے ہویے ہوتا تھا۔

دار العلوم دیوبند میں آپ مختلف اوقات میں مختلف کتابوں کا درس دیتے رہیے، جو تمام ہی طلبہ میں مقبول تھا، جس وقت ہم دار العلوم میں داخلے کے لیے گیے، تو آپ کے درس متنبی کی شہرت کا بہت چرچاسنا، اس لیے کہ آپ بیک وقت اردو، عربی دونوں زبانوں پر ہر اعتبار سے مکمل دست رست رکھنے والے تھے۔ جوں ہی ذیقعدہ کے مہینہ میں تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوا تو عشاء بعد ابن ماجہ شریف کا درس آپ سے متعلق تھا۔

وقت کی پابندی کے ساتھ درسگاہ میں تشریف لاتے اور ابن ماجہ شریف کا درس دیتے۔ زبان کی مٹھاس کا منظر یہاں پر بھی دیدنی ہوتا ۔ اور ایک البیلے انداز میں آپ کا درس ہوتا، ایسا نہیں تھا کہ آپ ایک خشک مدرس تھے، بلکہ وقفے وقفے سے سبق میں ظرافت بھرے جملے استعمال کرتے اور ظرافت سے بھر پور واقعات سناتے جو آج بھی بار بار یاد آتے رہتے ہیں۔

حضرت جب مناقب صحابہ کا آغاز فرمایا تو بار بار اس شعر کا ورد اپنے مخصوص لب ولہجہ میں کرتے جو لہجہ پھر کبھی دار العلوم کی دور حدیث میں نہیں سنا جاسکتا۔

 

چراغ مسجد ، محراب و منبر

ابو بکرو فاروق و عثمان وحیدر

 

اسی طرح آپ ہی نے ایک مرتبہ دوران درس شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رح کی وہ بات بھی سنائی کہ جب شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رح، ہندوستان تشریف لایے، پھر دار العلوم دیوبند آیے تو آپ نے دار العلوم دیوبند کو دیکھا تو علامہ اقبال رح کے یہ اشعار کا عربی میں ترجمہ کیا:

 

رہ گئی رسم اذان، روح بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

 

اور شیخ نے فرمایا کہ علامہ اقبال اگر دار العلوم دیوبند کو دیکھتے تو اپنے اس شعر سے رجوع کرتے۔ اس لیے کہ دار العلوم دیوبند میں روح بلالی بھی ہے، تلقین غزالی بھی ہے۔ حضرت استاد محترم نے ایک مرتبہ یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ حدیث کی عبارت میں غلطی کرنا، محدثین نے اس کو بھی ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کذب منسوب کرنے میں شمار کیا ہے، اس لیے عبارت کو صحیح صحیح پڑھنا چاہیے۔

 

حضرت استاد محترم کبھی درس میں طلبہ پر ناراض نہیں ہوتے۔

اور منکرین حدیث، پر جم کر برستے وہاں پر آپ کی صفت جلالی کا مظاہرہ ہوتا۔ اسی طرح گستاخ صحابہ کی بھی خبر لیتے اور اپنے ہی نرالے انداز میں ان کی دھلائی کرتے۔

 

حضرت استاد محترم کی بے شمار خوبیاں ہیں، جن پر ان شاءاللہ آپ کے بے شمار فیض یافتہ شاگرد روشنی ڈالیں گے۔

 

جس وقت آپ کا نصاب مکمل ہونے والا تھا، طلبہ نے آپ سے عربی میں ایک درس کی فرمائش کی تو آپ نے اسی اپنے مخصوص انداز میں برجستہ عربی میں درس دیا، اللہ اللہ کیسی کیسی شخصیات کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھتا جارہا ہے۔

 

ارادہ تو تھا کہ پھر جب دار العلوم دیوبند جانا ہوگا، تو آپ کے درس میں بیٹھ کر انمول موتی پھر ایک بار چننے کا موقع ملتا، لیکن قبل اس سے کہ ہم دار العلوم دیوبند پہنچے، آپ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔

اللہ رب العزت والجلال سے دعا ہے کہ اللہ دار العلوم دیوبند میں موجود حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ، بحر العلوم حضرت مولانا نعمت الله صاحب اعظمی مدظلہ،حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب مدظلہ، حضرت مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی مدظلہ اور تمام ہی اساتذہ کے عمروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ دراز کرے، اور ہم سب کو اکابر سے استفادہ کی توفیق عطاء فرمائے اور اللہ حضرت مولانا عبد الخالق سنبھلی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، قبر کو نور سے بھر دے، تمام متعلقین، پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین

You may also like

Leave a Comment