Home غزل خزاں کی رُت میں لمحۂ جمال کیسے آگیا-پروین شاکر

خزاں کی رُت میں لمحۂ جمال کیسے آگیا-پروین شاکر

by قندیل

خزاں کی رُت میں لمحۂ جمال کیسے آگیا

یہ آج پھر سنگھار کا خیال کیسے آگیا

ہنسی کو اپنی سُن کے ایک بار میں چونک اُٹھی

یہ مجھ میں دُکھ چھپانے کا کمال کیسے آگیا

وہ رسمِ چارہ سازی جنوں تو ختم ہو چُکی

یہ دل کے نام حرفِ اندمال کیسے آگیا

ابھی تو دھوپ روزنِ قفس سے کوسوں دُور تھی

ابھی سے آفتاب کو زوال کیسے آگیا

جدائیوں کے زخم تو سُنا کے بھر چلے تھے پھر

بدن کے ہاتھ ناخنِ وصال کیسے آگیا

تمام کائنات ازل سے آئینوں کی زد پہ تھی

ہجومِ عکس میں یہ بے مثال کیسے آگیا

You may also like

Leave a Comment