ہم خواتین کو گھر کی چہار دیواری میں بند رکھنے پر چاہے جتنا اصرار کرلیں ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کے روشن دور میں انھوں نے اپنی اصل ذمے داری : بچوں کی پیدائش ، پرورش اور تعلیم و تربیت کو بہ خوبی انجام دینے کے ساتھ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھر کے باہر کے بھی بہت سے کام خوش اسلوبی سے کیے ہیں _ خاص طور سے علوم کی نشر و اشاعت میں ان کی خدمات زرّیں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں _ اسلامیات کا میدان بھی اس سے مستثنٰی نہیں ہے ـ انھوں نے تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ، درس و تدریس کی خدمت انجام دی ہے ، تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں اور ان کی سرپرستی کی ہے ، تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے لوگوں کو تیار کیا ہے اور ان پر اپنی دولت لُٹائی ہے ، غرض امت ان کے احسانات سے کبھی عہدہ برا نہیں ہوسکتی ـ
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے عزیزہ ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین کو کہ انھوں نے تفسیر و علوم قرآنی میں خواتین کی خدمات پر تحقیقی کام کیا ہے ـ ان کی کتاب ‘خواتین اور خدمتِ قرآن’ ہدایت پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوگئی ہے ـ اسی طرح اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے برادر محترم ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) کو ، جنھوں نے 45 جلدوں پر مشتمل اپنے عظیم الشان پروجکٹ کے تحت ساڑھے آٹھ ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کردیا ہے جنھوں نے علم حدیث کی روایت ، تدریس اور تصنیف کی خدمت انجام دی ہے ـ ان کا یہ کام عربی زبان میں ہے ـ انگریزی زبان میں اس کا خلاصہ بہت پہلے Al_ Muhaddithat, Women Scholars in Islam کے نام سے طبع ہوچکا ہے ـ اس موضوع پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ، جن میں عناية المرأة بالحديث النبوي (مشهور بن حسن آل سلمان) اور جهود المرأة في رواية الحديث (صالح يوسف معتوق) خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں ـ
حدیث کا میدان بہت وسیع ہے ـ احادیثِ رسول کو بہت سی کتابوں میں جمع کیا گیا ہے _ ان کی تدریس میں علماء نے اپنی عمریں کھپا دی ہیں ـ خوشی و مسرّت کا مقام ہے کہ اس میدان میں خواتین بھی پیش پیش رہی ہیں ـ چنانچہ انھوں نے بڑے بڑے محدثین سے کسبِ فیض کیا ہے اور خلقِ خدا کو خوب فیض بھی پہنچایا ہے ـ حدیث کی اہم ترین کتابوں میں صحیح بخاری ہے ـ بڑی تعداد میں خواتین نے اس سے بھی دل چسپی لی ہے اور اخذ و روایت میں شہرت پائی ہے ـ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد بن عزوز کی ایک کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ، جس کا نام ہے : صفحات مشرقة من عناية المرأة بصحيح الإمام البخاري (روايةً و تدريساً) ـ 387 صفحات پر مشتمل یہ کتاب دار ابن حزم ، بیروت ، لبنان سے 1423 ھ/ 2002ء میں شائع ہوئی ہے ـ اس کتاب کا خلاصہ درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جاسکتا ہے :
والدین اپنے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی محدثین کی مجالس میں بھیجتے تھے ، جہاں وہ احادیث کی سماعت و قراءت کرتی تھیں ـ
محدثین سے صحیح بخاری کی سماعت ، قراءت اور اجازت بہت سی خواتین کو حاصل ہےـ
خواتین سے استفادہ کرنے والوں میں صرف خواتین ہی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی تھی ، چنانچہ صحیح بخاری کی قراءت ، سماعت اور اجازت بہت سے مردوں نے خواتین سے حاصل کی ـ
خواتین نے حدیث کی صرف روایت اور تدریس پر توجہ دی ہے ـ ان کا التفات تصنیف و تالیف کی طرف نہیں رہا ہے _ چنانچہ صحیح بخاری کی شرح کرنے والوں میں کسی خاتون کا نام نہیں ملتاـ
مشہور محدثات کو مسلم حکم راں اپنے ممالک میں بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ مدعو کرتے تھے ، تاکہ ان کی حکم رانی میں ان سے بڑے پیمانے پر استفادہ کیا جائے ـ
ڈاکٹر عزوز نے بہت سی دل چسپ مثالیں پیش کی ہیں کہ لوگ اپنی بیٹیوں ، پوتیوں ، نواسیوں ، بھتیجیوں ، بھانجیوں اور رشتے کی دیگر لڑکیوں کو حدیث کی تعلیم حاصل کرنے اور محدثین و محدثات سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتے تھے ، اسی طرح انھوں نے متعدد ایسے محدثین کا تذکرہ کیا ہے جن سے ان کی بیویوں نے حدیث کی روایت کی یا ان کی اجازت سے دوسرے بڑے محدثین سے استفادہ کیا _ اسی طرح متعدد ایسے محدثین کے نام درج کئے ہیں جنھوں نے خواتین کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا ہے ـ
ڈاکٹر عزوز نے گیارہ(11) ایسی عظیم محدثات کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جنھوں نے پوری زندگی صحیح بخاری کا درس دیتے ہوئے گزار دی اور ان سے بے شمار مردوں اور عورتوں نے اس کا درس لیا :
(1) کریمۃ المروزیۃ (م473ھ) سو برس کی عمر پائی ـ شادی نہیں کی تھی _ مکہ مکرمہ میں حدیث کا درس دیتی تھیں _ کئی مرتبہ صحیح بخاری ختم کی ـ ان کے درس میں بڑے بڑے علما حاضر ہوتے تھے _ خطیب بغدادی اور ابو المظفر سمعانی ان کے شاگردوں میں سے تھے _ بخاری کی کتابت بھی کرتی تھیں اور اس کے نسخوں کا مقابلہ کرتی تھیں ـ
(2) فاطمہ بنت محمد بن ابی سعد البغدادیۃ (م 539ھ) 94 برس کی عمر میں انتقال ہوا _ اصبہان میں بخاری کا درس دیتی تھیں _ ابن عساکر ان کے مشہور شاگرد ہیں ـ
(3) شھدۃ بنت أحمد البغدادیۃ (م 574ھ) سو برس کی عمر پائی _ عراق کی مشہور محدثہ ہیں _ فخر النساء لقب تھا _ شاگردوں کی بہت بڑی تعداد تھی _ علامہ ابن الجوزی ان کے مشہور شاگرد ہیں ـ
(4) کریمۃ بنت عبد الوهاب الزبیدیۃ الدمشقیۃ (م 641ھ) بنت الحبقبق کے لقب سے معروف تھیں _علمی خاندان سے تعلق تھا _ باپ ، چچا ، بھائی ، بہن سب محدث تھے _ کئی مرتبہ صحیح بخاری کی روایت کی _ شاگردوں کی بڑی تعداد تھی ـ
(5) فاطمۃ بنت جوھر المعروفۃ بالبطائحیۃ (م 711ھ) شوہر ، بیٹے ، پوتے ، سب محدث تھے _ انھوں نے دمشق اور مدینہ میں بہت سے محدثین سے سماعتِ حدیث کی ، پھر نصف صدی تک صحیح بخاری کے درس و روایت کا کام جاری رکھاـ
(6) ھدیۃ بنت عسکر الصالحیۃ (م 712ھ) صحیح بخاری کا درس دیتی تھیں ـ لوگوں نے بڑی تعداد میں ان سے فیض اٹھایا، جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں تھیں ـ
(7) ست الوزراء بنت عمر بن اسعد التنوخیۃ الدمشقیۃ (م 716ھ) آٹھویں صدی کی 3 سو محدثات میں سب سے زیادہ شہرت کی حامل تھیں ـ اوپر اور نیچے کی کئی نسلوں تک علمی خاندان تھاـ دادا اور باپ بھی محدث تھے _ دمشق سے مصر بلائی گئیں ، جب کہ اس زمانے میں مصر میں محدثین کی بڑی تعداد موجود تھی _ نیل کے کنارے واقع الجامع الناصری میں صحیح بخاری کا درس دیتی تھیں _ بڑے بڑے محدثین نے ان سے صحیح بخاری کی سماعت کی ـ 92 برس کی عمر میں انتقال ہوا ـ
(8) عائشۃ بنت محمد المقدسیۃ (ولادت 723 ھ) ان کے خاندان میں 4 صدیوں سے علم کا چرچا تھا _ بے شمار لوگوں نے ان سے حدیث کی روایت کی _ ان کے شاگردوں میں علامہ ابن حجر عسقلانی بھی ہیں ـ
(9) زینب بنت أحمد المقدسیۃ الصالحیۃ (ولادت 628 ھ) قدس ، دمشق ، قاھرہ اور مدینہ منورہ میں صحیح بخاری کا درس دیا ـ بے شمار لوگوں نے ان سے فیض اٹھایاـ
(10) جویریۃ بنت أحمد الھکاریۃ القاھریۃ (ولادت 704ھ) حافظ ابن حجر کے بیش تر معاصرین نے ان سے صحیح بخاری کا درس لیا ہے ـ
(11) فاطمۃ بنت أحمد العمریۃ الحرازیۃ (ولادت 710ھ) انھوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں جگہ صحیح بخاری کا درس دیا ہے ـ اسی وجہ سے محدّثۃ الحرمین کے لقب سے مشہور ہوئیں ـ
یہ تو صرف صحیح بخاری کا درس دینے والی مشہور خواتین ہیں ، دوسری کتبِ حدیث کی روایت ، سماع ، قراءت اور اجازت دینے والی خواتین کی تعداد کا تو شمار نہیں _ یہ وہ روشن اور درخشاں دور تھا جب نہ عورت ہونا تحصیلِ علم میں مانع تھا اور نہ کسی خاتون کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کرنا مردوں کے لیے باعثِ عار ہوتا تھا _ عورتیں پوری آزادی کے ساتھ مردوں سے استفادہ کرتی تھیں اور مرد شرعی حدود کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے خواتین سے علمی استفادہ کرتے تھے ـ لیکن پھر لڑکیوں اور عورتوں پر بے جا بندشیں عائد کی جانے لگیں ، ان کا کردار گھر کی چاردیواری تک محدود کردیا گیا ـ استفادہ و افادہ کے مواقع کم سے کم تر ہوتے گئے ، اس طرح عورتوں کا وجود تو روئے زمین پر باقی رہا ، لیکن ان کی علمی صلاحیتوں کو درگور کردیا گیا ـ اس مجرمانہ غفلت اور اعراض پر اب افسوس اور حسرت کے علاوہ اور کیا جاسکتا ہے؟؟!!