Home تجزیہ خواتین کے لیے مفت سرکاری اسکیموں کی سیاست!-پروفیسر مشتاق احمد

خواتین کے لیے مفت سرکاری اسکیموں کی سیاست!-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابی عمل کے دوران ووٹ دہندہ کے لیے فلاحی وعدوں کا چلن عام ہے کہ ہر ایک سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں طرح طرح کے وعدے کرتی ہیں ۔یہ اور بات ہے کہ دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک اپنے وطن عزیز ہندوستان میں حالیہ چار پانچ دہائیوں کے قومی اور ریاستی انتخابی عمل کا جائزہ لیجیے تویہ تلخ حقیقت خود بخود عیاں ہو جاتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں بیان کردہ وعدوں کو پورا نہیں کیا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اب انتخابی عمل مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزی کی بنیاد پر ہونے لگے ہیں ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ علاقائیت کے فروغ اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی روش بھی مستحکم ہوئی ہے نتیجہ ہے کہ اب نہ قومی انتخاب اور نہ ریاستی انتخاب عوامی مسائل کے حل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔اس کا خمیازہ ملک کے غریب اور پسماندہ طبقے کو بھگتنا پڑ رہا ہے کہ آزادی کی آٹھ دہائی مکمل ہونے کو ہے لیکن ملک میں اب بھی 80؍ کروڑ سے زائد افراد مفت راشن کی بدولت زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور دن بہ دن بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے لیکن باوجود اس کے کسی بھی سیاسی جماعت کے ذریعہ بیروزگاری دور کرنے یا غریب طبقے کی زندگی میں کوئی بڑا انقلاب لانے کا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا رہاہے۔ اگر کسی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ ان مسائل کو اٹھایا بھی جاتا ہے تو اس کی صدا ، صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے کہ اب تو انتخابی نتائج پر بھی طرح طرح کے شک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں ۔حالیہ انتخاب میں بھی ہزاروں بوتھوں کی ووٹ شماری کے بعد یہ سوال کھڑا ہوا ہے کہ مبینہ طورپر ای وی ایم کے ذریعہ نتائج کو متاثر کیا گیاہے۔

بہر کیف! ایک جمہوری ملک میں عوام کے لیے فلاحی اسکیموں کی ضرور ت تو ہے لیکن ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جس طرح مفت سرکاری اسکیموں کے ذریعہ انتخابی عمل کو متاثر کیا جا رہاہے وہ جمہوریت کی صحت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔کیوں کہ جب تک صد فیصد شفاف طریقے سے انتخابی عمل میں ہر ایک شہری کی حصہ داری نہیں ہوگی اور بغیر کسی گمرہی اور حرص کی بنیاد پر انتخابی عمل پورا نہیں ہوگا اس وقت تک ہماری جمہوریت کو طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔اس وقت ملک میں ایک نئی سیاسی پہل شروع ہوئی ہے کہ ٹھیک انتخابی عمل سے پہلے طرح طرح کی مفت سرکاری اسکیموں کا اعلان کیا جانے لگتا ہے اور اس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو انتخابی فائدہ بھی مل رہاہے۔بالخصوص جب سے خواتین کے لیے مفت سرکاری اسکیموں کی روش شروع ہوئی ہے اور نقد رقم دینے کی بدولت انتخابی نتائج میں فائدہ نظر آیا ہے اس کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس طرح کی مفت اسکیموں کے اعلان کا سلسلہ جاری ہے۔خواتین کو خود مختار بنانا اور بالخصوص غریب طبقے کی خواتین کو معاشی طورپر پریشانیوں سے نجات دلانا اچھی پہل ہو سکتی ہے لیکن عین انتخابی عمل کے دوران صرف اور صرف ووٹوں میں اضافے کی خاطر مفت ریوڑیاں تقسیم کرنا کسی بھی طورپر ایک جمہوری ملک کے لئے مفید نہیں کہا جا سکتا ہے۔جہاں حکمراں جماعت اس طرح کی مفت اسکیموں کا اعلان کرتی ہے وہاں فوراً نقد رقم بذریعہ بینک ادائیگی کا عمل شروع ہو جاتاہے اور اس کا فائدہ حکمراں جماعت کو ملتا ہے اس کا کھلا ثبوت مدھیہ پردیش ہے کہ جہاں ریاسی اسمبلی الیکشن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے ’’لاڈلی بہن یوجنا‘‘ کا آغاز کیا اور اس کی وجہ سے وہاں کی حکمراں جماعت کو ایک تاریخی سیاسی فتح حاصل ہوئی ۔اس آزمودہ فارمولہ کو حالیہ اسمبلی انتخاب مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی اپنایا گیا کہ ان دونوں جگہوں پر اسی طرح کی مفت اسکیم کا اعلان ہوا ۔ مہاراشٹر میں بھی مدھیہ پردیش کی طرح لاڈلی بہن یوجنا اور جھارکھنڈ میں ’’میّا‘‘ اسکیم انتخابی عمل سے محض دو تین ماہ پہلے شروع کی گئی ۔چوں کہ ان دونوں جگہوں پر حکمراں جماعت کے ذریعہ اس طرح کی اسکیمیں شروع کی گئیں لہذا اس پر فوری عمل بھی ہوا اور لاکھوں خواتین کے کھاتے میں اعلانیہ رقم بھیجی گئی ۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ان دونوں جگہوں پر اس اسکیم کے اثرات نمایاں ہوئے ہیں ۔ اب بہار میں بھی حزب اختلاف راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کی طرف سے ’’مائی بہن اسکیم‘‘ کا اعلان کیا جا رہاہے کہ اگر آئندہ 2025میں ان کی جماعت کو اکثریت حاصل ہوتی ہے اور حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ غریب طبقے کی خواتین کو 2500روپے ماہانہ دیں گے۔ اسی طرح ضعیف العمر پنشن کی رقم چار سو کی جگہ پر ایک ہزار دے گی ۔تیجسوی یادو نے بیروزگاری بھتہ اور معذور بھتہ میں بھی خاطر خواہ اضافے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تیجسوی یادو کو یقین ہے کہ جس طرح مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اس طرح کی اسکیموں کی وجہ سے وہاں کی سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوا ہے اگر وہ بہار میں اس طرح کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ان کی پارٹی کو ملے گا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ مذکورہ تینوں ریاستوں میں تو حکمراں جماعت نے اعلان کیا اور فوراً اس پر عمل بھی کیا کہ اعلان کے مطابق خواتین کے کھاتوں میں رقم بھیجی جانے لگی لیکن اس وقت تیجسوی یادو کی وہ پوزیشن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں اس لیے اس خوش فہمی میں رہنا کہ اعلان کا انتخابی عمل پر بہت بڑا اثر ہوگا ۔ میرے خیال سے اس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ اگر حکمراں جماعت نے کوئی نئی مفت اسکیم شروع کردی اور اس پر عمل بھی ہونے لگا تو پھر یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا کہ اس کا فائدہ حزب اختلاف کو مل سکتا ہے ۔سند رہے کہ گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں اسی طرح کا اعلان کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ذریعہ بھی کیا گیا تھا کہ اگران کی حکومت تشکیل پائی تو خواتین کے بینک کھاتوں میں ’’کھٹاکھٹ،کھٹاکھٹ‘‘ رقم پہنچنے لگے گی اس وقت اس اعلان کا بھی بہت شور ہو اتھا لیکن نتیجہ کیا نکلا وہ سامنے ہے۔

دراصل حکمراں جماعت جب اس طرح کی مفت سرکاری اسکیموں کا اعلان کرتی ہے تو وہ فوراً اس پر عمل کرتی ہے اور چوں کہ اس ملک میں آہستہ آہستہ انتخابی عمل مشکوک ہونے لگے ہیں ایسے وقت میں اکثریت کو یہ احساس ہو گیاہے کہ ان کے ذریعہ ووٹ دینے اور نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑ رہاہے کیوں کہ حال ہی میں مہاراشٹر کے ایک گائوں نے ایک تاریخی قدم اٹھایا کہ انتخابی نتائج کے بعد اس گائوں کے لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگوں نے جس سیاسی جماعت کو بالکل ووٹ نہیں دیا تھا اس سیاسی جماعت کو گاؤں کے حمایتی امیدوار سے زیادہ ووٹ ملا تھا۔ غرض کہ اس طرح کے غیر یقینی اور مشکوک ماحول میں یہ روش عام ہو رہی ہے کہ ’’جو ہاتھ آیا وہی ساتھ آیا‘‘ ۔بالخصوص خواتین کے لیے نقد رقم کی اسکیمیں زیادہ اثر دکھا رہی ہیں اس لیے الگ الگ ریاستوں میں سیاسی جماعتوں کے ذریعہ اس طرح کی اسکیموں کا اعلان کیا جا رہاہے۔ میرے خیال میں مفت پانے اور حرص کی عادت ایک جمہوری ملک کے مستقبل کے لیے تابناک اشارہ نہیں ہے اس پر بھی تمام تر سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ محض انتخابی فائدے کے لیے اپنی جمہوری شناخت کو ہم مسخ تو نہیں کررہے ہیں ؟۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like