’ خندۂ زیرِ لب ‘ کا مطالعہ کچھ پہلے ہی مکمل کیا ہے ، جو آج کے ایک بڑے طنز و مزاح نگار ( انہیں چھوڑ کر اب دو تین اور ہوں گے ) فیاض احمد فیضی کے گدگداتے اور غور و فکر پر مائل کراتے انشائیوں ، خاکوں اور سفر ناموں کا چوتھا مجموعہ ہے ۔ یہ بتاتا چلوں کہ فیضی صاحب سے تقریباً ہر صبح – واٹس ایپ کے توسط سے – علیک سلیک ہوجاتی ہے ، اور اکثر فیس بک پر ان کی پوسٹیں نظر آ جاتی ہیں ۔ چونکہ میں نہ انسٹاگرام کا صارف ہوں اور نہ ہی سابق ٹوئٹر موجودہ x کا ، اس لیے وہاں ان کی سرگرمیوں کا کوئی اندازہ نہیں ، لیکن اتنا پتا ہے کہ سوشل میڈیا کے مفسدات گنوانے کے باوجود وہ سوشل میڈیا پر ، محدود پیمانے پر ہی سہی ، سرگرم ہیں ، بلکہ اس میڈیا کی معلومات بھی خوب رکھتے ہیں ، یقین نہ ہو تو ان کے انشائیے ’ دیوانے کا خواب ‘ کے یہ اقتباسات خود پڑھ لیں : ’’ ان کے ( بیگم کے ) جاتے ہی مجھے سوشل میڈیا کی ایک ممنوعہ ایپ (App) ٹک ٹاک (Tiktok) کی یاد آگئی ۔ یہ سائٹ نوجوانوں اور طفلانہ بزرگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو اپنے گانوں ، رقص اور لطیفوں کو مختصر ویڈیوز میں پیش کرتے تھے ۔ یہ بچکانہ سائٹ اتنی مقبول تھی کہ صرف ہمارے ملک میں ہر ماہ اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد 22 کروڑ سے تجاوز کرگئی تھی ۔ اس سائٹ پر اپنی پیدائشی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والے کچھ فنکار تو اتنے مشہور ہو گیے تھے کہ اُنھیں دیکھنے والوں کی تعداد دو کروڑ سے زائد اور ان کی ماہانہ آمدنی تیس تا چالیس ہزار روپے ہوگئی تھی ۔ ہمارے حکم ران نے اس APP کی مقبولیت سے ناراض اور خوف زدہ ہو کر اس پر پابندی لگائی تو ہونہار نوجوانوں نے اب انسٹا گرام پر اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کرنا یا انھیں برباد کرنا شروع کر دیا اور شہرت اور دولت کے لالچ میں پڑھائی لکھائی ، نوکری ، گھر بار سب چھوڑ کر انسٹا گرام فنکار کہلانے لگے ۔‘‘ مزید ملاحظہ کریں : ’’ انسٹا گرام پر مختصر ویڈیوز بنانے میں اب بوڑھے بھی نوجوانوں سے پیچھے نہیں رہے ۔ رقص کرتے ، گانا گاتے ، فلمی گانوں پر اداکاری کرتے ، حقہ پیتے ہوئے ، اپنی پوتیوں ، نواسیوں کے ساتھ چہلیں کرتے اور اپنی بیویوں کا رونا روتے ہوئے معمر افراد اپنی محرومیوں کا غبار نکالتے ہوئے کبھی احمق تو کبھی قابلِ رحم دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘ ٹوئٹر کے بارے میں ان کی معلومات دیکھیں : ’’ اس سائٹ پر تعلیم یافتہ دانش وروں اور جاہل سیاست دانوں اور ان کے بھکتوں کا قبضہ ہے ۔‘‘
اپنے ایک دودسرے طنزیہ و مزاحیہ مضمون ’ ڈاکٹر واٹس ایپ ‘ میں بھی وہ سوشل میڈیا کا کچا چٹھا کھولتے ہیں ، کچھ یوں : ’’ پسندیدگی (Like) اور تبصرے (Comments) کی اس دوڑ میں اکثر لوگ بیماری اور موت کی خبر پڑھ کر بھی Like کا بٹن دبا دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ کچھ تو ان کی عجلت پسندی اور کچھ علم کی کمی اور عمل کی زیادتی ہوتی ہے۔ بیماری کی خبر کے جواب میں ریڈی میڈ دعائیں اور وفات کے موقع پر نت نئی ڈیزائن اور رنگوں والے اناللہ وانا الیہ راجعون کے طغرے اب سوشل میڈیا پر بآسانی دستیاب ہیں جو بیماروں اور عیادت گزاروں اور متوفیان اور تعزیت گزاروں کے درمیان پُل کا کام کرتے ہیں ۔ ان سے زیاد تخلیقی ذہن کے لوگ مرنے والے کے حق میں جنت کے اعلیٰ مقام کے الاٹمنٹ کی سفارش اور لواحقین کو صبر کی تلقین اور تاکید پرمشتمل جملے نقل کر کے ثواب دارین کے امیدواروں کی قطار میں لگ جاتے ہیں ۔ بیماری کی خبروں کے نیچے ’ شفائے کاملہ و عاجلہ ‘ کی دعاؤں کا مجمع لگ جاتا ہے اور علالت کی خبر کو پسند (Like) کرنے والوں اور عیادت (Comments) کرنے والوں کی روزانہ بڑھنے والی تعداد کو دیکھ کر بیمار اور اس کے رشتہ داروں کے چہرے پر رونق آجاتی ہے ۔‘‘ اسی مضمون کی ایک کمال کی سطر دیکھیں : ’’ پچھلے جنرل الیکشن میں اپوزیشن کی فتح کی وجوہات صرف تین تھیں ، کانگریس کی سیاہ کاریاں ، ای وی ایم کی چاند ماریاں اور سوشل میڈیا کی کارگزاریاں ۔‘‘
فیاض احمد فیضی بات سے بات نکالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ، لیکن یہ ہنر یوں ہی نہیں آ جاتا ، اس کے لیے الفاظ کا ذخیرہ مطلوب ہوتا ہے ۔ اور یہ ذخیرہ ان کے پاس ہے ۔ یہ کتاب دو حصوں میں تقسیم ہے ، پہلا حصہ گیارہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور پیش لفظ بعنوان ’ آخری کتاب سے پہلے ‘ نیز پروفیسر خالد محمود کے مضمون ’ ڈاکٹر فیاض احمد فیضی کی طنز و ظرافت شعاری ‘ پر مشتمل ہے ۔ اس حصے کے مزید چند مضامین کا تعارف کراؤں گا ، مگر اس سے پہلے پروفیسر خالد محمود کے مضمون پر بات کر لی جائے ۔ پروفیسر موصوف کا ماننا ہے کہ ’’ آج کے زندہ ہندوستانی طنز و مزاح نگاروں میں فیاض احمد فیضی سے بہتر کوئی اور نہیں ۔‘‘ اور پروفیسر صاحب کی اس بات سے اکثر کو اتفاق ہے ۔ پروفیسر صاحب نے مضامینِ فیضی کی تین خوبیوں کا ذکر کیا ہے ، ایک خوبی ’’ زبان کا تخلیقی استعمال ہے ‘‘ ، جس میں بقول پروفیسر صاحب ’’ وہ منجھ چکے ہیں ۔‘‘ دوسری خوبی اردو شعر و ادب اور اردو زبان کی تاریخ اور عصری مسائل سے واقفیت ہے ۔ اور تیسری خوبی بلکہ ’’ سب سے بڑی خوبی فیضی کی مزاح نگاری میں یہ ہے کہ وہ اپنے نت نئے موضوعات کا انتخاب بہت احتیاط سے کرتے ہیں ۔‘‘
سوشل میڈیا کے تعلق سے ان کے اقتباسات پڑھ کر ، زبان کے تخلیقی استعمال کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے ۔ اور جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ’ اکبرؔ الہ آبادی کا خط ‘، ’ جدید شرح کلام غالبؔ ‘ اور ’ کج کلاہ اردو طنز و مزاح ‘ جیسے مضامین مل جاتے ہیں ، جنہیں پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ فیاض احمد فیضی اردو زبان و ادب کی تاریخ سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں ! اور اشعار کا استعمال کس خوبی سے کرتے ہیں ! دو مثالیں پیش ہیں ۔ اکبرؔ الہ آبادی سے متعلق اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں : ’’ میری ( اکبرؔ الہ آبادی کی ) پبلک لائف یعنی شاعری کی عمر 55 برس ہے جس میں ابتدائی دس برسوں کی روایتی شاعری کا عرصہ منہا کر دیں تو میری ظریفانہ شاعری کا عرصہ 45 برسوں پر محیط ہے ۔ 1877 میں ’ اودھ پنچ ‘ کے صفحات پر میری طنز نگاری کا آغاز سرسید کو نشانہ بنا کر ہوا تھا ۔ بہت جلد شہرت نے میرے قدم چوم لیے ۔ میرے مشہور ہو جانے پر ایک صاحب نے خود کو میرا استاد مشہور کر دیا ۔ مجھے جب یہ اطلاع ملی کہ حیدر آباد میں میرے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے تو میں نے کہا : ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے ۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انھیں عقل مگر دونوں ناکام رہے ۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم ۔“ غالبؔ کی شرح سے متعلق مضمون میں فیضی صاحب نے عبدالرحمن بجنوری سے لے کر سہاؔ مجددی تک کئی شارحین کی شرحوں کی گدگداتے انداز میں چٹکیاں لی ہیں ، اور ایک نئی طرز کی ’ سائنسی شرح ‘ کی بنیاد رکھی ہے ! اس کا صرف ایک مختصر اقتباس پیش ہے ، ویسے مشورہ ہے کہ یہ پورا مضمون ، کتاب ڈھونڈ ڈھانڈ کر لوگ پڑھیں ، لطف آئے گا ۔ اقتباس میں ابتدا میں غالبؔ کا شعر ہے ؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمھیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
اس شعر کی تشریح ملاحظہ کریں : ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محبوب نہ صرف مغرور ہے بلکہ خبط الحواس بھی ہے جو ہر بات کے جواب میں ’ تو کیا ہے؟‘ کی تکرار کر رہا ہے ۔ شاعر کے پاس تو اظہارِ عشق کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے ، مگر یہاں محبوب بھی بالکل بے کار اور فارغ معلوم ہوتا ہے ، جو شاعر سے بے معنی سلسلۂ کلام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعر کے متمول اور جوان رقیب کا منتظر ہے اور وقت گزاری کی خاطر شاعر سے دل لگی کر رہا ہے ۔ ہمارا شاعر کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ رقیب کی آمد سے پہلے ہی وہاں سے رخصت ہو جائے ورنہ اس کی دنیا اور عاقبت دونوں کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔‘‘
یہ لاجواب طنزیہ و مزاحیہ مضامین ہیں ۔ جیسا کہ پروفیسر خالد محمود نے کہا ہے ان کے موضوعات متنوع ہوتے ہیں ، اور بہت احتیاط سے موضوع منتخب کرتے ہیں ۔ مثال سفر نامۂ کشمیر ’ فردوسِ گمشدہ ‘ کی لے لیں ۔ اس سفر نامہ میں جہاں ٹراول ایجنسیوں کی چالاکیوں اور فریب کا پردہ چاک کیا گیا ہے ، وہیں حساس افراد کو بے چین کرنے والے اُن گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ، جو لوگ دیکھ نہیں پاتے ۔ ملاحظہ کریں : ’’ میں سوچنے لگا اگر امیر خسرو یا جہا نگیر نے کشمیر کے پہاڑوں ، مرغزاروں ، سبزہ زاروں اور باغوں کو دیکھنے کے ساتھ شملہ ، مسوری ، دارجلنگ اور نینی تال کے قدرتی حسن کا نظارہ کر لیا ہوتا ، ڈل جھیل کی خوب صورتی اور صفائی کا موازنہ نینی تال جھیل سے کرنے کا موقع انھیں میسر آجاتا ، لال چوک کا بازار دیکھنے کے بعد انھوں نے شملہ کے مال روڈ کی سیر کرلی ہوتی ، آج سنگینوں اور رائفلوں کے سائے میں زندگی گزارتے کشمیریوں کے چہروں سے عیاں خوف اور مایوسی کو اگر وہ دیکھ پاتے اور اسے دیکھنے کے بعد ہماچل پردیش کے مرد و زن کے لباس اور حلیے سے ٹپکتی خوشی اور خوشحالی بھی انھیں نظر آجاتی اور نینی تال اور شملہ کے مکانات اور دکانوں کی شان اور دکان داروں کے ایمان کا بھی انھیں تجربہ ہو جاتا تو کیا وہ کشمیر کے لیے ہمین است و همین است و همین است کی تکرار اپنے شعر میں کر سکتے تھے ! ‘‘
اس حصے میں خاکے بھی ہیں ، جن میں ایک خاکہ ساجد رشید مرحوم پر ہے ، جنہیں مجھ سمیت اکثر لوگ ساجد بھائی کہا کرتے تھے ۔ خاکے کا عنوان ہے ’ مخالف سمت کا آدمی ‘ ۔ اس خاکہ میں ساجد رشید مرحوم کی شخصیت مکمل طور پر عیاں ہوکر آ گئی ہے ، ملاحظہ فرمائیں : ’’ ساجد رشید سود و زیاں کے معاملے میں سود کے دشمن اور زیاں کے عاشق ثابت ہوئے ہیں اور کم از کم اس طرح انھوں نے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ کام یاب صحافی کہلائے جانے کے باوجود وہ نا کام صحافیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں یعنی ان کے پاس نہ اپنا مکان ہے اور نہ کسی ہندستانی بینک میں بینک بیلنس ۔ لے دے کے ایک موٹر سائیکل ہے جس کی قسطیں وہ آج تک ادا کر رہے ہیں ورنہ دوسروں کی طرح انھوں نے بھی خلیجی ممالک کے سفارت خانوں کے پاسبانوں کی بلا ناغہ قدم بوسی کی ہوتی تو ان کی بھی توند نکل آئی ہوتی ۔‘‘
اس حصے میں پرویز ید اللہ مہدی کا بھی ایک شاندار خاکہ ہے ۔ مہدی ایک اچھے طنز و مزاح نگار تھے ، حیدرآباد کے تھے ، مگر کرم بھومی پہلے ممبئی کو پھر امریکا کو بنایا اور امریکا ہی میں انتقال کر گیے ۔ فیضی صاحب کا پیش لفظ ’ آخری کتاب سے پہلے ‘ بھی خوب ہے ، جس میں انہوں نے اپنا احتساب بھی کیا ہے ۔ انتساب کی سطریں ملاحظہ کریں : ’ اندرون خانہ خندۂ زیر لب کے نام ؎ یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے ‘ ۔ طباعت ’ نایاب بکس ، نئی دہلی ‘ نے کی ہے ، اور عمدہ کی ہے ۔ صفحات 224 اور قیمت 300 روپیہ ہے ۔ موبائل نمبر 9323043113 پر رابطہ کر کے کتاب حاصل کی جا سکتی ہے ۔