عبدالعزیز
عام طور پر لوگ تشدد کا جواب تشدد سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کیلئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے‘ لیکن اصلاح اور انقلاب کیلئے یہ طرز عمل نہ کبھی مفید ہوا ہے اور نہ کبھی مفید ہوگا۔ اس وقت ملک میں جو مظاہرے اور احتجاج کالے قانون کے خلاف ہورہے ہیں اس کی قیادت عورتوں، طالب علموں اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ گاندھی جی یا جئے پرکاش نرائن کی طرح ملک کو کوئی قائد میسر نہیں ہے۔ موجودہ احتجاج کا سلسلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں کے ایک مظاہرے سے شروع ہوا۔ مظاہرین پر دہلی پولس نے صرف ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ بہت سے طالب علم زخمی ہوئے تھے اور بہت سے لوگوں کو شدت کی چوٹ آئی تھی ان کو علاج کیلئے اسپتال میں داخل کرنا پڑا تھا۔ ایک طالب علم کو اپنی ایک آنکھ سے محروم ہونا پڑا۔ ظالم پولس ظالم حکمراں کے اشارے پر جامعہ کی لائبریری، کینٹین، مسجد یہاں تک کہ غسل خانہ تک میں گھس کر طالب علموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ کئی طالبات جن میں عائشہ رینا اور لدینا فرزانہ آگے آگے تھیں۔ اپنے ایک ساتھی عبداللہ کی جان پولس کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہوئیں۔ چالیس پچاس سے زائد طالب علموں کو پولس نے گرفتار کرلیا۔ یہی گرفتاری پورے ملک میں مظاہرے کا سبب بنی۔ پولس اسٹیشن میں جہاں طلبہ حراست میں لئے گئے تھے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ بہت سماجی کارکن، حقوق انسانی علمبردار ہرش مندر اور یوگیندر یادو جیسے لوگ پولس اسٹیشن طلبہ کی رہائی کیلئے آناً فانا پہنچ گئے۔ مظلوم طلبہ کو پولس کے خلاف شدید مظاہرے کی وجہ سے رہائی دینی پڑی۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج و مظاہرہ کیا تھا تو یوگی پولس نے طلبہ پر ظلم کی حد کردی تھی۔ ہزار سے زائد طلبہ کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ یونیورسٹی کو بند کردینا پڑا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مظاہرے کے بعد پورے ملک میں اکثر یونیورسٹی کے طلبہ نے مظلوم طلبہ کی یکجہتی کیلئے سڑکوں پر اتر آئے۔
کچھ ہی دن کے بعد شاہین باغ میں عورتوں کا دھرنا شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر دھرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں اس دھرنے سے ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوا۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ احتجاج ہورہا ہے۔ دھرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب ملاکر ایک بڑی تحریک ملک میں شروع ہوگئی ہے۔ اس احتجاج یا تحریک سے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بھی بی جے پی کا غلبہ ہے، لیکن بی جے پی رہنمائی اور رہبری سے محروم ہوگئی ہے۔ فلاسفر اور اسکالر غلبے اور رہنمائی کے بارے میں یہ فرق بتاتے ہیں کہ رہنمائی دل و دماغ پر فتحیابی کا نام ہے۔ اور یہ ایسی فتحیابی ہوتی ہے کہ اپوزیشن میں بھی یہ جگہ پیدا کرلیتی ہے۔ غلبے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبادل سے آگے ہے لیکن اس کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور مخالفین آگے ہوجاتے ہیں۔ پروٹیسٹ کی شدت کے باوجود بی جے پی کا غلبہ ابھی بھی مستحکم ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے اس کی رہبری باقی نہیں ہے۔ مئی 2019ء میں بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں اکثریت حاصل ہوئی اس وقت اس کی رہبری سمجھی جاتی تھی اوراس نے اس رہبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’تین طلاق‘ اور غیر قانونی طور پر کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ اور اس کی تقسیم، اجودھیا بھی اسے حاصل ہوا لیکن کورٹ کے ذریعے اور پھر شہریت کے قوانین میں ترمیم۔ بی جے پی کے حکمرانوں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ دستور کو کنارے لگا دیا جائے اور جو ان کا قدیمی نظریہ ہے ہندوؤں کی برتری اور مسلمانوں کی کمتری کو مستحکم کردیا جائے۔ لیکن جب سے پروٹیسٹ یا احتجاج شروع ہوا ہے بی جے پی کا خواب چکناچور ہونا بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گالی گلوج پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ روز ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے مسٹر انوراگ ٹھاکر وزیر حکومت ہند نے جو نعرہ بلند کیا ’ملک کے غداروں کو‘ جواب میں کہا گیا ’مارو ان سالوں کو‘۔ اس رویے اور انداز سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ اب وہ پولرائزیشن کے ذریعے دہلی کے الیکشن کو جیتنا چاہتے ہیں۔ اروند کجریوال کی حکومت نے جو پانچ سال میں عوامی خدمات کا کام کیا ہے جس سے ان کی مقبولیت و محبوبیت عوام میں کافی ہے، اس کی طرف سے لوگوں کا ذہن ہٹاکر ہندو مسلمان کرکے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ شاہین باغ جیسی عظیم تحریک کو بدنام کرنے کی ہر طرح سے بی جے پی کی طرف سے کی گئی۔ اب اس تحریک کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی کے اسپانسر کی بات کہی جارہی ہے۔ کپیل مشرا نے دہلی کے الیکشن کو ہندستان بمقابلہ پاکستان کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ شاہین باغ سے پاکستان کے لوگ داخل ہورہے ہیں۔ ان چیزوں سے بی جے پی کی فطری شکست کا اندازہ ہوتا ہے۔ کجریوال کے مقابلے میں ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مودی کا چہرہ دکھاکر دہلی میں فرقہ پرستی اور نفرت کو پھیلاکر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
شرجیل امام نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے جسے بی جے پی والے ایک ماہ بعد وائرل کر رہے ہیں اور اس پر غداری اور قوم دشمنی کا الزام لگا رہے ہیں۔ شاہین باغ میں شرجیل امام نے نہ تقریر کی اور نہ وہاں وہ گیا۔ شرجیل نے شاہین باغ کے دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل جاری کی تھی جس کی شاہین باغ میں بیٹھی خواتین نے سخت مخالفت کی تھی۔ اس کے باوجود شرجیل امام کے بیان یا تقریر کو شاہین باغ سے جوڑا جارہا ہے۔ شاہین میں صرف مسلمان عورتیں ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم خواتین بھی ہیں۔ بی جے پی کے سوا شاہین باغ کے دھرنے کو ہر پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ اکثر و بیشتر پارٹیوں کے لیڈران نے وہاں جاکر احتجاج پر بیٹھی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ پنجاب سے لگ بھگ ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے کیلئے آئے۔ پنجاب کے سکھوں کی طرف سے وہاں لنگر خانہ بھی جاری ہوا۔ ہریانہ کی چھتیس برادری کی طرف سے لنگر خانہ کھولا گیا ہے۔ دور دراز سے یہاں تک کہ کلکتہ سے وہاں فنکار بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔ کلکتہ کے دو آرٹسٹوں نے لوہے کے ذریعے ہندستان کا بڑا نقشہ بنایا ہے۔ نقشے پر ‘No CAA, No NRC, No NPR’ لکھا ہوا ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔
ملک بھر میں کالے قانون کے خلاف جو احتجاج ہورہا ہے اس کا سروے تو نہیں ہوا ہے لیکن براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر، اسکالر اور سیاسی سائنسداں آسوتوش ورشنی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”احتجاجیوں میں سے ہر چوتھا آدمی ہندو یا غیر مسلم ہوتا ہے۔ اور بغیر کسی شک و شبہ کہ احتجاج بین المذہبی ہے یعنی جس میں سارے مذاہب کے لوگ شامل ہیں“۔ (دی انڈین ایکسپریس، 28/1/2020)
تحریک کو آگے بڑھانا، اس کے مقاصد کا تحفظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہونی چاہئے کہ یہ تحریک ایسی ہو کہ بین المذہبی معلوم ہو۔ سارے مذاہب کی تحریک معلوم ہو۔ دوسری جو چیز یہ ہونی چاہئے کہ بی جے پی یا اس کے کارندے یا لیڈر کتنا بھی مشتعل کرنے کی کوشش کریں احتجاجی کسی طرح بھی مشتعل نہ ہوں اور نہ متزلزل ہوں۔ اور کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے معمولی درجے میں بھی ہنگامہ یا تشدد ہو۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں پر جب حملہ ہوا تھا وہاں کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کے سر پر چوٹ آئی تھی اور وہ لہولہان بھی ہوئی تھی لیکن اس نے کہا تھا کہ ”بی جے پی کے تشدد اور پولس کے ظلم کا مقابلہ ڈیبیٹ (مباحثہ) اور ڈسکشن (بحث) کے ذریعے جواب دیا جائے گا“۔ آئشی گھوش نے یہ نہیں کہا کہ اینٹ کا جواب وہ پتھر سے دیں گی۔ یہی طرز عمل تحریک کیلئے زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ تشدد کا جواب عدم تشدد سے دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن ان کا جواب سنجیدگی اور متانت سے دینے میں کبھی چوکنا نہیں چاہئے۔ ہمارا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ”ہم خاموش ہر گز نہیں رہیں گے، تشدد بالکل نہیں کریں گے“۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068