Home مکالمہ بین المذاہب مفاہمت کے علم بردار خواجہ افتخار احمد سے ڈاکٹر جسیم الدین کی خصوصی گفتگو

بین المذاہب مفاہمت کے علم بردار خواجہ افتخار احمد سے ڈاکٹر جسیم الدین کی خصوصی گفتگو

by قندیل

اپنے دور کے جید عالم دین حضرت مفتی شاہ محدث ولایت احمد رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت مولانا عبد المقتدر مفسر قرآن ومصنف سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت نبیرہ اور فرزند ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی نسبت ایساخاندانی پس منظر ہے ، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس اساس ، ساخت اور شناخت کے امین ووارث ہیں، ملی ،قومی اور بین الاقوامی امور پر اظہار خیال کرتے وقت حکمت ومصلحت کے تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھنے والاایسا مفکر ومدبر جو تخیلاتی وروایتی نہ ہوکر ترقی پسند ، دھارے کو موڑنے والی ایسی دعوت فکر کی حامل شخصیت ،جس میں حال،ماضی ومستقبل کے تقاضوں کاا نضمام بھی ملتاہے، دور بینی ودور اندیشی کا مظاہرہ بھی ہوتاہے، مستقبل کے اندیشوں وخطرات کی نشاندہی بھی ملتی ہے، یہ وہ طرۂ امتیاز ہے جو خواجہ صاحب کو اس دور کے مفکرین میں ایک ایسے کردار کی ادائیگی کا متحمل بناتا ہے، جو شاید انہی کا حصہ ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعدہندوستانی مسلمانوں کے تمام مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں انھوں نے ’منشور مسلم‘ لکھا، جس میں قانون ساز ادارے ، انتظامیہ وعدلیہ میں مناسب نمائندگی کا مطالبہ شامل تھا،جس کو بحیثیت وزیر اعظم نرسمہا راؤسے اجرا کرانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے، اٹل بہاری واجپئی جو این ڈی اے حکومت کے وزیر اعظم تھے، ان سے بھی آپ کے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں رہے، دو سابق وزرائے اعظم، جن کا تعلق دو مختلف ومتضاد سیاسی نظریات سے تھا، ان کے رفیق کار کے طور پر ان کاکردار وہ انفرادیت ہے ،جس کا پچیس کروڑ کی مسلم آبادی میں کوئی دوسرا آج تک متحمل نہیں ہوسکا،ان کی 14 تصانیف ہیں ، جن میں تازہ تصنیف ’ذہنی وفکری ہم آہنگی : آرزو وجستجو‘ ہے، اس میں ۱۸۵۷ سے ۱۹۲۰ اور ۱۹۲۰ سے ۱۹۴۷ اور ۱۹۴۷ سے ۲۰۲۰ تک کا سلسلے وار سیاسی ، سماجی وثقافتی تناظر میں تجزیہ کیا گیاہے۔ اس دور کے تمام نشیب وفراز ، بنیادی تبدیلیاں، تقسیم ہند، آزاد ہندوستان، ہندومہاسبھا، آر ایس ایس ، ہندتوا کا متبادل کے طور پر گاندھیائی نظریۂ ہند کے مد مقابل ابھار اور فروغ، سیکولر سیاست کے کمال وزوال کے اسباب، مسلم قیادت کی پامالیاں اور ناپختگی کی جو قیمت مسلمانان ہند کو ادا کرنی پڑی اور ہنوز کرنی پڑرہی ہے، اس پر سیر حاصل تجزیہ، سنگھ پریوار اور بی جے پی کا سابقہ دور اور اقتدار کی طرف اس کی غیر معمولی پیش قدمی، سنگھ اور مسلمانان ہند کے مابین کلیدی اختلافات اور ان میں درمیانی راستے کی نشاندہی ایسے عنوانات ہیں،جن کو تاریخی وتمدنی تناظر میں ہر صاحب نظر کواپنے مطالعہ میں شامل کرنا چاہیے ، اس کا اجرا بھی ایک تاریخی واقعہ سے کم نہیں ، آر ایس ایس کی۹۵ سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اس کے سرسنگھ چالک نے کسی مسلم دانشور کی تصنیف کا نہ صرف اجرا کیا ، بلکہ اس کی کوشش کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کے مضمون ومتن سے اتفاق کیا۔
بین المذاہب مفاہمت اور ہم آہنگی کا فروغ خواجہ صاحب کی فکری ترجیحات میں ہمیشہ مقدم رہا،جب اس حوالے سے سابقہ دو دہائیوں میں اسلام اور مسلمان کو دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا اور ان مذموم الزامات وخدشات کو ہوا دی جانے لگی تو ۲۰۰۵ کے ماہ مارچ میں انہوں نے ’بین المذاہب ہم آہنگی فاؤنڈیشن آف انڈیا‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اس کی رو سے ۲۰۰۵ میں اولین قومی بین المذاہب ڈائیلاگ کو مسلم پہل کے طور پر ایک عظیم الشان کانفرنس کی شکل میں دہلی میں منعقد کیا۔پھر ۲۰۰۷ میں اولین ساؤتھ ایشیا انٹر فیتھ ہارمنی کانکلیو منعقد کیا، جس میں تمام سارک ممالک کی شرکت کو یقینی بنایا۔ ۲۰۰۰ میں Millennium Peace Summit جواقوام متحدہ میں ہوئی، اس میں آبزرور کے طور پر وطن عزیز کی نمائندگی کی۔۲۰۱۵ میں وہائٹ ہاؤس سمٹ میں ہندوستان کی سول سوسائٹی کی نمائندگی کی اور ۲۰۱۹ میں رابطہ عالم اسلامی کی یو این ہیڈ کوارٹر جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت ایسے واقعات ہیں، جن سے خواجہ صاحب کی ہمہ گیر او رہمہ جہت شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
حالات وواقعات کو پڑھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کاان کا طریقہ مستحکم دلائل ومنطق کے تقاضوںسے ہم آہنگ ہوتاہی ہے ، اس سے بھی زیادہ اس کی فکری جہت واساس مستقبل حوالے سے جن خدشات ، خطرات ، واقعات اور مسلمانان ہند پر پڑنے والے ان کے اثرات کی نشاندہی کرتی ہے، وہ یقیناً کسی کمال سے کم نہیں ، سیکولرزم کے بدلتے مفہوم ، مسلم قیادت اور مستقبل کے چیلنجز ، مستقبل کا ہندوستان ایک فکری بحث، بھارتیہ جنتا پارٹی ایک ٹھوس سیاسی حقیقت، آئیے ایک شروعات کریں، ہندو شدت پسندی اور مسلم رد عمل یہ ۱۹۹۶ سے ۱۹۹۸ کے مابین اس فہرست مضامین کا حصہ ہے ،جس کا اگر آج آپ مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دو دہائیوں سے جو وہ کہتے آرہے ہیں ،آج کے حالات بالکل اس کے عین مطابق ہیں۔ آج ان کا کہنا ہے کہ تعلیم ، روزگار تو یقیناً ترجیحات میں ہونے چاہئیں ، مگر جب تک مسلمانان ہند ، ان کے اکابرین، معززین، دانشور حضرات میں فکری ہیجان باقی رہے گا، حالات بدتری کی طرف ہی بڑھیں گے۔موجودہ حالات ایک فکری انقلاب کاتقاضا کررہے ہیں ، جس کی وہ سابقہ ۲۵ سالوں سےدعوت دے رہے ہیں۔
دور حاضر کے حساس موضوعات پر نمائندہ انقلاب ڈاکٹر جسیم الدین نے خواجہ افتخار احمدسے طویل خصوصی گفتگو کی ہے۔
س: آپ کی مفاہمت کو فروغ دینے کی اب تک ان کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
ج: مفاہمت کا عمل طویل العمر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تواتر اور تسلسل کا تقاضا کرتاہے، اس میں تحمل مزاجی اور اعتدال کو کلیدی حیثیت حاصل رہتی ہے۔آپس کی نااتفاقیاں، باہمی اختلافات ، عقائد، مسالک اور مذاہب میں تضاد اور باہمی طور پر متصادم آراء ایک ایسے مذاکراتی عمل وتحریک کاتقاضا کرتے ہیں،جس کوہرطرح کے حالات میں جاری رہنا چاہیے، جہاں تک میری کوشش اور اس کے نتائج کا تعلق ہے تو الحمد للہ اس حوالے سے اندرون ملت تمام مسالک کے جید علما کے ساتھ ذاتی اور ادارہ جاتی رابطے اور بین المذاہب بھی تمام مذاہب کے بڑے پیشوا ئوںسے روابط اس عمل کو برابر جاری رکھے ہوئے ہیں، اس حوالے سے میں نے ایک قومی تنظیم کی تشکیل کی اور یہ کام مسلم پہل کے طور پر ہوا، ایک قومی سطح پر اور دوسرا سارک ممالک کی سطح پر میںنے دو کانفرنسیں کروائیں ، متعدد ممالک کے دورے کئے۔حکومتی وغیر سرکاری سطح پر ا س عمل میں شرکت اور ایک تواتر کے طور پر خوش اسلوبی سے یہ سفرہنوز جاری ہے، حالات کیسے بھی ہوں ، گفتگو ، ملاقات ، مکالمہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔
س: آپ کی انگریزی،اردو اور ہندی میں شائع ہونے والی تازہ تصنیف ’ذہنی وفکری ہم آہنگی: آرزو وجستجو‘کس حد تک اس عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ہوئی؟
ج: افہام وتفہیم کے عمل کو صحیح سمت دینا ایک مفکر اور دانشور کا بنیادی کردار ہے،جس کے لیے اخبارات ورسائل میں لکھنا، مکمل تصانیف کی شکل میں کتابوں کا تحریر کیاجانا اور مذاکراتی عمل میں حصہ لے کر اپنے خیالات کو عوام سے خواص تک ہی نہیں،بلکہ معاشرےکی تمام وحدتوں کے مابین بحث کے لیے لانالازمی اور ناگزیر عمل ہے، میں سابقہ دودہائیوں سے بھی زیادہ سے یہ کام کررہاہوں، بدقسمتی سے میں کیونکہ فکری اعتبار سے روایتی طرز کا قائل نہیں ، اس لیے میری بات سطحی فکر رکھنے والےعناصر یا ذاتی اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے سیاست کرنے والے سیاستدان وحلقے ، یاپھر کچھ بغض رکھنے والے اکثر ذہن مجھے یا میری تحریر وں کوپڑھ نہیں پائے، آپ اب سے پچیس سال قبل کی میری تحریر یں پڑھ لیجیے اور آج کو دیکھ لیجیے اور آج بھی جو میں نے اپنی حالیہ تصنیف کے ذریعے کہنے کی کوشش کی ہے، اس کو دیکھ لیں، میں فرد واحدسنگھ کی اعلیٰ ترین قیادت کو اپنی فکر ونظر یے اور تجزیے سے قائل کرنے میں کامیاب ہواہوں، ذرا سوچیں ،سنگھ کے قائد اس کوشش سے اتفاق کرتے ہوئے خود کہتے ہیں کہ ۹۵ سالہ تاریخ میں سنگھ ایسا پہلی بار کررہاہے،جو شخص کانگریس کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ اور سنگھ کے پاٹھ شالہ میں تیار وزیر اعظم دونوں کو اپنی فکر سے متاثر کرپاتاہے، ملت کب اس کو پڑھنا شروع کرے گی؟
س: اپنی تازہ تصنیف میں متعدداکابرین کی آراء کو شامل کرنے کی کیاوجہ ہے؟
ج: دارا شکوہ کے بعد اس طرح کی یہ پہلی کوشش ہے ، یہ بات وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے یہاں مامورایک ذمہ دارنے جو اس وقت کتابوں کے تجزیے ذمہ داروں کے سامنے پیش کرنے پر مامور تھے،مجھے ذاتی طور پر بتائی تھی کہ اپنے بڑوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی آراء کو بھی شامل کرکے اس کوشش کی بنیادوں کو مزید مستحکم کیاجائے، تاکہ متعلقہ حلقے اس کی سنجیدگی کے نہ صرف قائل ہوں ، بلکہ اس کو پالیسی سازی میں ایک مربوط گائڈ لائن کے طور پر استعمال کرسکیں۔ دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمدبخاری، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اعلیٰ مفتی ابو القاسم نعمانی، اہل السنۃ والجماعۃ کےمرکز بریلی شریف کے علامہ محمد توصیف رضا خان، آل انڈیاامام آرگنائزیشن کے چیف امام ڈاکٹر عمیر الیاسی، درگاہ اجمیر شریف کےپیر طریقت سید صوفی غلام کبریادستگیر، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی، پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال انصاری، جونا گڑھ اکھاڑے کے مہنت اودھیشا نند گیری، سوامی چدا نند اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرگریش چند ر ترپاٹھی وہ شخصیات ہیں ،جنھوں نے اس کوشش کو تاریخی بھی بنادیا اور بروقت متاع ضرورت بھی قرار دیا۔
س:آپ نے اپنی قوم کے لوگوں کو بھی دیکھااور ہندؤں کی بااثر تنظیموں کے قائدین سے بھی خوب رابطے میں رہے ، آپ کا مشاہدہ کیا بتاتا ہے، مسائل کے حل کے حوالے سے زیادہ فراخدلی کدھر ہے؟
ج:اس سوال کا جواب میں نے ۱۹۹۵ میں ’منشور مسلم‘ میں جو دیاتھا ، وہی آج بھی ہے، اقلیتوں کے بالعموم اور مسلمانان ہند کے حوالے سے بالخصوص میرا یہ کہنا ہے کہ آئین کی شقوں وضمانتوں سے کہیں زیادہ مسائل کے حل کے حوالے سے کردار اکثریت واقلیت کے مابین خوشگوار تعلقات وباہمی خیر سگالی کو حاصل ہے، اکثریت کے کلیدی تحفظات، ترجیحات، احساسات اور مذہبی تقاضوں کے حوالے سے جتنےیہ تعلقات مفاہمت اور آپسی آہنگی کے زمرے میں پیوست ہوں گے، اتنے ہی اقلیتوں کو ان کے مسائل کےحل میں آسانی ہوگی ، مخاصمت ، ٹکراؤ، ضد او رہٹ دھرمی پیچیدگی بڑھائے گی، معاشرے میں تصادم کو جنم دے گی اور پرامن فضامیں تفرقہ ومنافرت انتہا کو پہنچے گی، آج ایسے ہی حالات پھر پیدا ہورہے ہیں، خواہش میں کسی طرف کمی نہیں ہے۔
س: آپ نے درمیانی راستہ کے عنوان سے ان تمام ایشوز پر اپنی بات رکھی ہے،وہ کون سے امور ہیں اور ان کا کیاحل آپ نے پیش کیاہے؟
ج: آر ایس ایس اور سنگھ کے اس نظریہ کوکہ’ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے‘، کسی بھی اقلیت کے لیے تسلیم کرنا عملاً ممکن نہیں، جب تک ہندو اکثریت کی مذہبی شناخت ہے تو ایک مسلم ، عیسائی ، سکھ، پارسی، یہودی، بودھ، یاجین کیسے تسلیم کرسکتاہے۔یہ ثقافتی وجغرافیائی شناخت اس وقت مقبول عام ہوسکتی ہے، جب اکثریت اپنے دھرم کو دھرم کی شناخت کے کالم میں سناتن دھرم لکھنا شروع کرے، سنگھ کا کہنا ہے کہ ہم سب کو ہندو مانتے ہیں، البتہ سرسنگھ چالک نے ۴؍ جولائی۲۰۲۱ کو میری کتاب کے اجرا کے موقع پر کہاکہ :’آپ بھارتی کہیں، ہندوستانی کہیں ، ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘۔جید عالم دین قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب یہ سوال دورۂ پاکستان کے دوران پوچھا گیا کہ وطن پہلے یا مذہب؟ تو آپ نے فرمایاتھا وطن پہلے ، اس میں کو ئی تنازعہ نہیں، ہندوستان آئین کی رو سے دار الامن بھی ہے اور دار السلام بھی یہاں مسلمانان ہند کو وہ مذہبی آزادی حاصل ہے، جس کی نظیر تمام عالم اسلام میں کہیں نہیں۔تمام مسالک یہاں پھل پھول رہے ہیں، کوئی قتل وغارت گری نہیں ، مساجد پر دعوے یا قبضے نہیں ، کہیں سیکورٹی ،حفاظتی اقدامات کی موجودگی نہیں ۔تبلیغ دین کا ہندوستان سب سے بڑا مرکز ہے اور حکومت الٰہیہ کے داعی آزادانہ طور پر اپنا تحریکی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز ہندوستان میں انگریز کے خلاف علماء وقت نے جہاد کا اعلان کیا، اس کے بعد سے آج تک کبھی کسی بھی حلقے یا مسلک کی جانب سے جہاد کا نہ کبھی اعلان کیا گیا اور نہ یہ موضوع بحث ہی رہا، جہاد کوئی انفرادی عمل نہیں ہے، یہ ادارہ جاتی سطح پر کیاجاتاہے ، جس کا ایک مربوط نظم ہے، ہمارے یہاں جمہوریت ہے، آئین ہر سطح پر اپنی جنگ لڑنے کے لیے مہذب ادارے فراہم کرتا ہے، لہٰذا یہاں اس تصویر وتصور کے لیے کوئی زمین نہیں ۔۴؍جولائی کو اپنی کتاب کے اجرا کے موقع پر میں نے سنگھ سرچالک کے سامنے واضح کردیا تھاکہ تو حید اسلام کا بنیادی فریضہ ہے ، جس پر اس کی پوری عمارت کھڑی ہے، ایسا کوئی بھی فعل ، قول، رسم یا کارروائی جس میں شرک کا براہ راست یا بالواسطہ احتمال ہو ،اس میں ہمارے لیے شرکت ممکن نہیں، اس حساسیت کو آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس کو نہ صرف انھوں نے قبول کیا، بلکہ کہاکہ :’آپ نے جو باتیں کہیں ،ان کو میں مانتاہوں، اس کو سنگھ بھی مانتا ہے، کسی کی پوجا،اس کا اپنا سوال ہے، کسی کی شردھاکو ہم بھنگ نہیں کرسکتے، ایسا کرنا پاپ ہے، کریں گے تو کبھی نہ کبھی اس کا پراشچت کرنا ہوگا‘ ۔
کامن سول کوڈ کا ذکرہمارے آئین میں ہے ، ریاست کو اس ہد ف کو حاصل کرنے کے لیے کہاگیاہے، اتفاق رائے اور باہمی افہام وتفہیم اس کا واحد راستہ ہے، جب تک اس سلسلے میں کو ئی مسودہ سامنے نہیں آتا، اس کو اپنے گلے میں طوق بناکر نہیں ڈالنا چاہیے، یہ قومی مسئلہ ہے، تمام مذہبی ، علاقائی وحدتیں اس میں کن امور پر اتفاق رائے پیدا کرپائیں گی،یہ دیکھنا ہوگا، اس حوالے سے سب سے پہلے آنے والا ہمارا رد عمل اس مسئلے کو خالص مسلم مسئلہ بنادیتاہے،جب کہ یہ خالص قومی بحث کا موضوع ہے۔قرآن حکیم میں ہر صورتحال سے متعلق آیات ربانی ہیں، امن، جنگ، صلح، سلامتی، امور حکومت، عبادات، معاملات، حقوق اللہ ، حقو ق العباد، معیشت ، سیاسیات،تحقیق،غیر مسلموں کے حقوق، اسلامی ریاست کے خدوخال گویاکہ ہر امر سے متعلق آیات ہیں، پھر ہر ایک کا سیاق وسباق ہے، قرآن کریم ۲۳ سال کی مدت میں تھوڑا تھوڑا نازل ہواہے۔ پھر کئی دور ہیں سیاق وسباق کے حوالے سے اس پس منظر کوبھی خیال سازی یا رائے سازی کے عمل میں ملحوظ رکھنا لازمی ہے۔ اس کا ابتدائی دور جس میں صعوبتوں آزمائشوں اور طرح طرح کی سبکیوں کا ہر لمحہ سامناہے، ہر طرف سے رخنے اور رکاوٹیں ہیں، ظلم وتشدد اور بے سروسامانی سے سابقہ ہے۔دوسرا دور ہجرت کے بعد کفار مکہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین صلح حدیبیہ ہے، جس میںمخالفین آپ کے اسم مبارک کے ساتھ رسول اللہ کو حذف کروادیتے ہیں، اس کے لیے اتنی بڑی قربانی ۔تیسرا دور مدینہ میں ایک دہائی سے زیادہ کی جدو جہد ، تیاری اور سامان واپسی کی فراہمی ،پھر فتح مکہ اور اس میں عام معافی کا اعلان اور آخری دور ریاست مدینہ کا قیام اور میثاق مدینہ اس روشنی میں اسلام اور قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہےاور اس سب کے ساتھ سیرت پاک کا مطالعہ ،تب جاکر رائے زنی ہونی چاہیے جیساکہ کچھ لوگ کچھ آیات کو لے کر سیاق وسباق سے ان کو الگ کرکے رائے زنی کرتے ہیں ،اگر وہ سچ ہوتا تو اسلام دنیا میں جس طرح پھیلااور پھیل رہاہے، ا سکی کوئی نظیر عالمی تاریخ پیش کرنے سے کل بھی قاصرتھی اور آج بھی ہے ۔
س: گیان واپی مسجد کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے؟
ج: یہ تنازعہ صدیوں سے چل رہاہے ایودھیا، کاشی اور متھرا ،ان حوالوں سے سابقہ چند دہائیوں میں جو تنازعات میں شدت آئی ہے ،ہندومسلم منافرت کو جو ہوا ملی، ملک کی سیاست ،جس طرح اس نفرت کی آندھی کا شکار ہوئی ، باہمی رشتوں میں کڑواہٹ ، ہزاروں معصوم جانوں کی ہلاکت اتنا ہی نہیں ،بلکہ وہ قوتیں جو برائے نام تھیں، انھیں اتنی زمین ملی کہ وہ آج برسر اقتدار ہوگئیں، یہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ ہماری قیادت کل کو نہ دیکھ سکی، نہ پڑھ سکی اور نہ بھانپ سکی، آج بھی وہ اسی نرغے میں ہے۔ایودھیاکا عدالتی فیصلہ اور اس کے اشارے کسی فکری ابہام کو کوئی زمین فراہم نہیں کرتے ، عبادتگاہوں کے تحفظ کا قانون ۱۹۹۱ جس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بڑے سخت اشارے دیے ہیں، کاشی اور متھرا کے مسئلوں کے اٹھنے میں رکاوٹ نہیں ، ایکٹ خود بھی عدالت میں چیلنج ہے، ضلعی سطح کی عدالت ایسے معاملوں کو سن رہی ہے، اس ملک کی سیکولر سیاست نے ان ایشوز کو اپنے چھ دہائی پر پھیلے اقتدار میں حل نہ کرکے جو وطن عزیز اور ہندو مسلم رشتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہے، اس کے لیے انھیں کبھی معافی نہیں ملے گی۔جہاں تک موہن بھاگوت کے بیان کاتعلق ہے ، وہ خو ش آئند ہے، اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے، عدالت اور مفاہمت دونوں ہی اس طرح کے مسائل کا حل ہیں، مفاہمت کو ترجیح ملنی چاہیے۔ میں علماء وقت سے یہ مؤ دبانہ گزارش کرنا چاہتاہوں کہ امن ، صلح وسلامتی کی اسلامی وقرآنی ترجیحات کو ملحوظ رکھتے ہوئے فتنہ، فساد وقتال کے امکانات اور ان سے پہنچنے والے دوررس نقصانات کو اللہ کے رسول کے انسانی جان کے احترام کے حوالے سے متعلقہ ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئےاسلام کی آفاقیت کی اس صلاحیت کی تصویر کو آگے لائیںکہ وہ ہر دور کے مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
س:وزیر اعظم مودی سے آپ کے مراسم کیسے ہیں؟
ج: میں اس مرتبہ بھی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے متعلقہ رفقائے کار کے رابطے میں ہوں ، میری کتاب میں ایک مکمل باب مودی پر ہے، جس میں اس دور اقتدار کا قومی وملی پس منظر میں پورا تجزیہ موجود ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ ان سے توقعات کی جہاں نشاندہی ہے، وہیں ان کے ذریعے کیے گئے تاریخی اقدامات کو سراہا بھی گیاہے،ساتھ ہی وہ تنازعات جو اس دور میں سامنے آئے یا لائے گئے ان پر بھی کھل کر میں نے گفتگو کی ہے، دشواریوں کی نشاندہی کے ساتھ اقدامات کو بھی زیر بحث لایاہوں، خاص طور پر وفود جو کہ اعلیٰ سطحی تھے، ان میں کلیدی حیثیت سے میری شرکت بھی رہی او رمیں نے بھرپور اظہار خیال بھی کیا، جس میں خاص طور پرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی او رجامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کا مقدمہ عدالت میں زیر التوا ہونے باوجود میں اپنی اس کوشش کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم نے ان دونوں اداروں کے کردار کو آج تک نہیں چھیڑا ، میں نے ان اداروں کی حیثیت کو اقلیتی زمرے میں پیش نہ کرکےقومی اثاثے کے زمرے میں پیش کرکے انکی موجودہ حیثیت کو استثناء کے اصول کو لاگو کرتے ہوئے برقرار رکھنے کی وکالت کی، جس کے نتیجے میں آج تک یہ کردارباقی اور سلامت ہے۔اس موقع پر اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرجنرل ضمیر الدین شاہ او رجامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ پروفیسرطلعت احمد موجود تھے، یہ ۲۰۱۶ کی بات ہے۔مودی کے دور اقتدار میں اقلیتی بہبود سے متعلق تمام ادارے، اسکیمیں اور سابقہ اقدامات نہ صرف فعال اور جاری ہیں ، بلکہ ان میں خاطر خواہ پیش رفت ہے، لنچنگ پر وزیر اعظم کا واضح موقف، این آرسی، اور سی اےاے پر ان کا واضح اعلان کہ اس کا مسلمانان ہند سے کوئی تعلق نہیں اور اسی طرح دیگر قومی وفلاحی اسکیموں میں سب کی شمولیت یہ سب قابل غو رنکات ہیں۔
س: ایساکیوں ہے کہ اس مرتبہ آپ رابطوں کے حوالے سے آر ایس ایس کی اعلیٰ قیادت سے زیادہ قریب ہیں؟
ج: مجھے لگتا ہے کہ برسر اقتدار سیاسی جماعت ،اس کی جماعتی وحکومتی قیادت کا براہ راست تعلق والحاق سنگھ کے نظریۂ ہندوتو اسے ہے، ، مودی جب وزیر اعظم بنے تو پارلیمنٹ میں داخل ہوتے وقت انھوں نے زمین کو بوسہ دیا اور پہلی تقریر میں ایوان کو مندر قراردیا اور آئین کوگرنتھ، ایساہی خیال پورا سنگھ اور اس کی اجتماعی قیادت کا بھی ہے، بی جے پی ، اس کا رکن وکارکن در اصل آر ایس ایس کی نظریاتی پاٹھشالہ سے تیار ہوکر آتاہے، آر ایس ایس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو پہلوہیں، مگر میں آر ایس ایس کو اس لیے زیادہ اہم سمجھتا ہوں کہ وہاں ذہنی ، فکری ونفسیاتی تربیت ہوتی ہے ، لہٰذا اس جگہ کام کرنا زیادہ سود مند ثابت ہوگا، جہاں ذہن پڑھے او رپڑھائے جاتے ہیں، یہی وہ پس منظر ہے جس نے مجھے اس طرف مائل کیا، مجھے خوشی ہے کہ مجھے اتنی زمین ملی کہ میں کھل کر اپنی بات کہہ سکا، لکھ سکا اور اس کو نہ صرف منظر عام پر لایا،بلکہ اس کو سنگھ اور اس کی قیادت نے تسلیم بھی کیا، ایک تاریخ رقم ہوئی، جو گفتگو عوام سے خواص تک سنگھ کے حوالے سے یا سنگھ ان کے حوالے سے کرتے ہیں، میں اس کو پوری ایمانداری کے ساتھ زیر بحث لایا، بلکہ اس کو ببانگ دہل کہنے کی جرأت بھی کرسکا ، یاد رکھیے خواجہ افتخار احمد عقیدے اور عاقبت کی قربانی دے کر کبھی نہ کچھ کرتاہے اور نہ کرے گا، اس سارے سفرمیں کوئی ذاتی فائدہ نہ اٹھایا ،صرف ایک سرکاری حج کیاہے۔
س: توہین رسالت کے حوالے سے حالیہ بیانات کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
ج: عشق رسول اور عقیدت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ایمان کا نہ صر ف جز ہے ،بلکہ کل بھی ہے، آپ کی شان میں گستاخی ہمیں کسی طرح بھی قبول نہیں، ہماری عزت ، آبرو، جان، مال، والدین، اولاد، روزگار، ترقی گویا سب کچھ آقا کی محبت اور ناموس رسالت پر قربان ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں، لہٰذااس حساسیت کا سب کو احترام کرنا چاہیے، جیسا کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار اپنے اکابرین کے حوالے سے ہم سےکرتے ہیں، اس ضمن میں کیے گئے اقدامات، جن میں دو ترجمانوں کا برخاست کیا جاناتمام مذاہب کے احترام اور تمام مذہبی وحدتوں کے حوالے سے بی جے پی کی طرف سے واضح دستاویزی وضاحت ، وزارت خارجہ کی طرف سے ہماری مذہبی آزادی ورواداری کی صدیوں پرانی روایت کا اعادہ قابل قدر اقدامات ہیں، تاہم سڑکوں پر بے لگام احتجاج اس میں دو طرفہ پتھر بازی ، امن ومان میں خلل، جان ومال کا نقصان، تکلیف دہ ہے۔اس سے بچنا چاہیے، جمعہ کی نماز کو احتجاج کے عمل سے ہر حال میں علاحدہ رکھناضروری ہے۔ائمہ کو چاہیے کہ وہ اس کو یقینی بنائیں اس سے کئی بدگمانیوں کو زمین ملتی ہے، جو مزید پیچیدگیاں پید اکرسکتی ہیں۔
س: آج کے ہندوستان کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور کل کے اس کے کیا امکانات ہیں؟
ج: آج کے ہندوستان میں وہ نظریۂ ہند جس کی آبیاری گاندھی اور نہرو نے کی تھی، جس میں متعدد اس وقت کے تمام مذاہب کے اکابرین شامل تھے ، آج وہ اقتدار سے مکمل محروم ہوچکاہے، آج اس نظریہ کا وہ متبادل جو سابقہ نو دہائیوں سے اپنی جد وجہد کررہاتھا، وہ برسر اقتدار ہی نہیں ہے ،بلکہ وطن عزیز ہندوستان میں اکثریت کی واضح اکثریت کا ہر دلعزیزومقبول نظریہ بن چکا ہے، آج سنگھ پریوار جس کے نظریہ ہندتوا کو لے کر آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ تنظیمیں وادارے چلتے ہیں، وہ اقتدار میں ہے، آج کےہندوستان میں گاندھی بابائے ہند علامتی طور پر ہے۔ اب اصل ہیرو ہیگڑے، گروگوالکراور ویر ساورکر ہیں، یہ بدلا ہوا ہندوستان ہے، اس کی زمین اب ہندو ثقافت کو قومی ثقافت تسلیم کرتی ہے، البتہ اہداف کا حصول اسی آئین اور سیاسی نظام کے دائرے میں رہ کر ہورہاہے، ابھی کسی بنیادی آئینی تبدیلی کی طرف اشارے نہ تو سنائی دیتے ہیں ، اور نہ اس سمت کوئی ٹھوس پیش رفت ہی دکھائی دیتی ہے۔
س: مسلمانان ہند کو آپ کا کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: بدلی ہوئی سیاست ، سیاسی زمین، قومی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کریں، معاشرے میں امن ، خیرسگالی وخوشگواری کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے، اس پر غور وفکرکریں، آر ایس ایس او ربی جے پی کی اندھی او ریک طرفہ دشمنی کو ترک کریں، مفاہمت کو مخاصمت پر ترجیح دیں، ہندوستان ہندو راشٹر بنے گا یا سیکولر رہے گا،یہ فیصلہ اکثریت کو کرنا ہے، ہم اس بحث سے اپنے آپ کو الگ رکھیں۔تاریخ کے حوالے سے مسلم دور اقتدار سے خودکو نہ جوڑیں، ہندوستانی مسلمان کبھی اقتدار میں نہیں رہا، عرب، ایرانی، افغانی، ترک اور مغل نسلوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے، جو ہمارے ملک وبین الاقوامی تاریخ کے اوراق میں رقم ہے ۔ اس تاریخ کے
خوشگوار پہلوؤں سے جب ہم اپنے آپ کو جوڑتے ہیں تو پھر ان زیادتیوں کے لیے بھی جوابدہ اپنے آپ کو بنالیتے ہیں، جن کا ہم حصہ ہی نہیں ، وہ تاریخ تقسیم ہند کے ساتھ سرحد پار چلی گئی، ہم اب اس تاریخ کا حصہ رہیں گے جو آج کے ہندوستان کی تاریخ ہے۔یاد رکھیں کسی بھی وحدت کا وجود اور ا سکی شناخت اس کے اپنے ہاتھوں میں محفوظ رہتی ہے ، اپنی فکر میں لچک اور وسعت پید اکرکے ہم اپنی بہت سی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ کنہیا کا مذموم قتل غیر انسانی فعل ہے، اس خالص حیوانی عمل کی کسی طور پر اجازت نہیں دی جاسکتی، آئین ہند ، اسلام بحیثیت دین کامل اور اخلاق حسنہ میں اس بربریت کو کوئی زمین حاصل نہیں ۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ:مقاربت مخاصمت سے بہترہے۔مماثلت انضمام سے بہتر ہے۔صلح تصادم سے بہتر ہے۔مکالمہ تعطل سےبہتر ہے۔ہم آہنگی انتشار سےبہتر ہے۔محبت نفرت سے بہتر ہے۔معافی انتقام سےبہتر ہے۔امن جنگ سے بہتر ہے۔خیر سگالی شرانگیزی سے بہتر ہے۔تعقل سخت گیری سے بہتر ہے۔عروج زوال سے بہتر ہے۔ایثار مطالبے سے بہتر ہے۔مفاہمت تنازعہ سے بہتر ہے۔اجتماعیت انفرادیت سے بہتر ہے اوراتحاد مفارقت سے بہتر ہے۔

You may also like

Leave a Comment